تحریر : میر افسر امان عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ اب حکومت کو کام کرنے دے سڑکوں پر احتجاج بہت ہو چکا۔ نواز شریف صاحب کافی عرصہ سے اقتدار میں ہیں ۔پہلے وزیر پھر وزیر اعلیٰ اور اب تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے پر سرفراز ہیں۔اتنے طویل دور حکومت میں عوام کے حالات تبدیل کر سکتے تھے جیسے ان کے دوست اردگان نے اپنے تین دفعہ دور حکومت میں ترکی کے حالات بدلے کرپشن ختم کی اور عوام میں ہر دلعزیز ہو گئے ہیں۔ اردگان نے جب عوام کو فائدہ اور سکھ پہنچایا تو فوج نے اردگان کی حکومت کا جب تختہ الٹنے کی کوشش کی تو عوام سڑکوں پر نکل آئے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ نواز شریف صاحب نے اپنے سابقہ اور موجودہ تین سالہ دور حکومت میں اگر عوام کے لیے کوئی ٹھوس کام کیا ہوتا تویقیناً عوام میں اردگان کی طرح ہر دلعزیز ہوتے۔ عمران خان کے مطابق نواز شریف کے جو بڑے بڑے کام سامنے نظر آرہے ہیں۔ ان میں روڈ اورٹرانسپورٹ نمایاں ہیں۔ لاہور میں آرنج ٹرین اور گرین بس چلا دی جائے تو اس کا فائدہ لاہور،پنڈی اور چند بڑے شہروں کو ہو گا۔ اس کا فائدہ ملک کے دوسرے چھوٹے شہروں، تحصیلوں اور چکوں میں رہنے والوں کو نہیں ہوا۔
بڑے اور مہنگے پروجیکٹوں کے بجائے تعلیم میں خرچ کیا جاتا تو جن اسکولوں میں کمرے، چاردیواری ،چھت، بجلی، پانی اور لیٹرین نہیں زیادہ بہتر ہوتا۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کا نظام تعلیم دنیا سے برسوں پیچھے ہے۔ اسی طرح اگر چند بڑے شہروں میں خرچ کرنے کے بجائے پورے ملک میں تعلیم اور صحت پر خرچ کیا جاتا ۔ہسپتالوں میں عوام کو دوائیاں نہیں ملتیں۔ تعلیم اور صحت سے پاکستانی باخبر اور صحت مند اور زیادہ ہنر مند ہوتے اور ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کرشریک ہوتے جس سے پاکستان ترقی کی منازل طے کرتا۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی کمی کی وجہ سے ملک کی ٹیسکٹائل انڈسٹری ا ور فیکٹریاںبند ہو گئیں ہیں۔ اگر یہ پیسہ بجلی اور گیس کے کسی ہنگامی پروجیکٹ لگایا جاتا توفیکٹریوں کو بجلی گیس ملتی تو نہ فیکٹریاں بندہوتیں، نہ بیروزگاری میں اضافہ ہوتا،نہ ہی فیکٹریوں کے بندہونے سے برآمدات کم ہوتیں اور نہ حقیقی زر مبادلہ میں کمی ہوتی۔
زرمبادلہ پہلے سے زیادہ ہونے کے جن ذخائرکاوزیرخزانہ صاحب ذکر کرتے رہتے ہیں وہ آئی ایم ایف اور غیر ملکی بنکوں سے قرضے لے لے کر مصنوئی طور پر بڑھائے گئے ہیں۔ یہ ذخائرہرپاکستان کو تقریباًایک لاکھ پچیس ہزار کا مقرروض بنا کر اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ملک میں مہنگائی بڑھی ہے۔ اگر نواز شریف کے دور میں کارخانے صحیح طریقے سے چل رہے ہوتے فیکٹریاں بند نہ ہوئی ہوتیں۔ برآمدات بھڑتیں توملک میں خوشحالی ہوتی اور عوام نواز شریف سے اردگان کی طرح خوش ہوتے۔ نواز شریف ملک میں ترقی کا پہیہ رک جانے کا الزام عمران خان پر لگاتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پہلے اسلام آباد میں ١٢٦ دن کا دھرنا دیا رکھا۔جس سے کارروبار حکومت ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ جس کی وجہ چین کے صدر کا پاکستان کا دورا منسوخ ہوا۔ پاک چین راہداری کے کام جو چین کے صدر کے دورے سے تیز سے تیز ہوتے وہ روکے رہے۔
Panama Papers
اب پھر چھ ماہ سے پورے ملک میں عمران خان نے پانامہ لیکس کے ہنگامے کو کھڑا کیا ہوا جس سے نواز شریف کو دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا پر آکر اپنے اور اپنے بچوں کی صفائی پیش کرنے پڑی۔پھر پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی تیسری بار صفائی پیش کرنی پڑی۔ ان معاملات نے نواز شریف کو مصروف رکھا جس وجہ سے ملکی ترقی کا پہیہ بُری طرح سے متا ثر ہوا۔ اگر اوپر بیان کیے گئے واقعات پر تجزیہ کیا جائے تو بین الاقوامی طور پر رائج طریقے سے تو اپوزیشن اگر کسی معاملے پر اعتراض اُٹھاتی ہے تو حکومت کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔ مگر نظر آتا ہے کہ ہر اعتراض کا حکومت نے وقت پر مناسب جواب نہیں دیا جس سے اختلاف بڑھتے گئے۔ اگر حکومت شروع ہی میں عمران خان کے مطالبے پر چار حلقے کھول دیتی تو اختلاف ختم ہو جاتے اور ١٢٦ دن کا دھرنا نہ ہوتا۔ جب پاناما لیکس پریس میں آیا تو عمران خان نے نواز شریف پر گرفت کی۔ خود نواز شریف نے اپنے آپ اور بچوں کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا۔
عدلیہ کو درخواست دی کہ کمیشن قائم کرے۔ عدلیہ نے ١٩٥٦ء کے قانون کے تحت کاروائی سے انکار کیا اور حکم دیا کہ نئے ٹرمز آف ریفرنس بنائے جائیں۔جہاں پھر حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیا اور سات ماہ ضائع کر دیے۔ پھر عمران خان اور ساری اپوزیشن پارٹیوں نے متفقہ ٹرمز آف ریفرنس بنائے۔ پیپلز پارٹی نے سینیٹ سے بھی پاس کرا دیے۔ اب صرف پارلیمنٹ نے ان کو پاس کرنا تھا مگریہاں پھر حکومت نے سرد مہری دکھائی۔ عمران خان نے پہلے رائے ونڈ میں جلسہ کیا پھر اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دی اور اس پر عمل کرنے کے لیے ٢ نومبر کا وقت رکھا۔
اس پر پورے ملک میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ عمران خان اور مرکزی قیادت کو بنی گالہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ پولیس نے عمران کے کارکنوں کو روکنے کے لیے جگہ جگہ ناکے لگائے۔ آنسو گیس شیل فائر کیے گئے۔ تحریک کے کارکنوں اور پولیس نے ایک دوسرے پر پتھرائو کیا۔ سڑکیں بند کرنے کے لیے پورے ملک میں کنٹینرز لگائے گئے۔
Pervez Khattak
خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ کو صوبے کی سرحد پر ہی روک دیا گیا۔ شیلنگ اور فائرنگ اور پتھرائو کے باوجود کارکنوں نے کنٹینرز کی سات لہروں اور مٹی کے پہاڑوں کو کرین سے ہٹا کر برہان انٹرچینچ تک پہنچ گئے۔ صاحبو! جماعت اسلامی نے بھی عمران خان سے پہلے کرپشن کے خلاف تحریک شروع کی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی ہوئی تھی۔ شیخ رشید اور خود عمران خان نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لیے کہا۔ نواز شریف نے اپنے آپ کو پیش کرنے کی رضا مندی دی۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم کی تلاشی شروع ہو گئی ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد کو بند کرنے کے بجائے یوم تشکر کا اعلان کر دیا اور یوم تشکر پر کم وقت میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے دکھایا۔ کسی نے یو ٹرن کا کہا، کسی نے انا اللہ و انا علیہ راجعون پڑا۔ سنجیدہ لوگوں، جن میں سراج الحق صاحب بھی شامل ہیں نے اس کوعمران خان کی سمجھداری کہا۔ قارئین! کچھ بھی پاکستان کی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ وزیر داخلہ نے اسے پاکستا ن کے عوام کی فتح کہا۔ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ پر ہیں کہ وہ اپنے ریمارکس کی روشنی میں ڈے ٹو ڈے کیس سن کر عوام کو ریلیف دیں۔افرا تفری کی سیاست ختم ہو۔
ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس عوام کے خزانے میں جمع ہو اورعوام خوشحال ہوں۔ عمران خان صرف سپریم کورٹ کی طرف دیکھیں نہ کہ پہلے کی طرح سڑکوں پر فیصلہ کریں تاکہ نواز شریف کے بقول پاکستان میں ترقی کاپہیہ رواں دواں ہو ملک خوشحال ہو۔ عمران خان صاحب اب حکومت کو کام کرنے دو۔ اللہ پاکستان کا محافظ ہو آمین۔