تحریر: سید انور محمود عمران خان تین سال سے نواز شریف کو وزارت عظمی سے علیدہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، 28 جولائی 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے نے عمران خان کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، نواز شریف نااہل قرار پائے اور وزارت عظمی سے علیدہ ہوگئے۔ابھی عمران خان اپنی کامیابی کا جشن منارہے تھے کہ یکم اگست کو انکی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ایک خاتون رہنما عائشہ گلالئی نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا ، انکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں خواتین ورکرز کی کوئی عزت نہیں، اس لیے انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے پارٹی رہنما عمران خان پر الزام لگایا کہ وہ 2013 سےانہیں موبائل فون کے ذریعے قابلِ اعتراض پیغامات بھیج کر ہراساں کرتے رہے ہیں، جو اب ایک سال سے نہیں آرہے ۔ عائشہ گلالئی نے یہ الزام بھی لگایا کہ عمران خان اور ان کے اردگر موجود لوگوں کے ہاتھوں عزت دار خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے سے ان الزامات کی تردید کی گئی، تردید کرنے والوں میں خواتین رہنما بھی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے کہا گیا کہ عائشہ گلالئی کے الزامات کے پیچھے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ہاتھ ہے، جس میں سب سے زیادہ امیر مقام ملوث ہیں۔ عائشہ گلالئی کے الزامات کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، انہوں نے پی ٹی آئی کی سابق رہنما ناز بلوچ کا حوالہ دیا جو حال ہی میں ان کی پارٹی چھوڑ چکی ہیں کہ ان کے ساتھ چھ سال تک ٹیکسٹ پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا، وہ غصے میں گئیں لیکن انھوں نے نہیں کہا کہ کوئی قابلِ اعتراض پیغامات بھیجے گئے ہیں۔ بقول عمران خان کہ ’وہ چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہوں اور یہ امر سامنے آئے کہ وہ اپنی پارٹی کی خواتین کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھتے ہیں‘۔جبکہ ناز بلوچ نے بھی عائشہ گلالئی کے عمران خان پر لگائے ہوئے الزامات کی تردید کی ہے۔
عائشہ گلالئی کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی کارکن کی حیثیت سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا، وہ 2012 میں پی ٹی آئی میں شامل ہویں اور 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وفاق کے زیر انتظام علاقے (فاٹا) سے خواتین کی خصوصی نشست سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔اس سے قبل عائشہ گلالئی پاکستان پیپلز پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ کا بھی حصہ رہ چکی ہیں۔عائشہ گلالئی کی پریس کانفرنس کے بعد جس میں انہوں نے عمران خان پر قابلِ اعتراض پیغامات بھیجنے کےالزامات لگائے تھے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر عائشہ گلالئی اورعمران خان کے حامیوں اور مخالفوں میں ایک جنگ چھڑ گئی جو اب بھی جاری ہے۔ ہر نیوزچینل دونوں میں سے کسی ایک کا ہمدرد بناہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے ، عمران خان نے قابلِ اعتراض پیغامات بھیجے یا نہیں یہ تو بعد میں معلوم ہوگا لیکن سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ گندی زبان کا استمال ہورہا ہے۔ پی ٹی آئی کی خاتون رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پارٹی چھوڑنا عائشہ گلالئی کی مرضی تھی لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے دوران انہوں نےعمران خان سے ’این اے ون‘ سے ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کا مطالبہ کیا، عمران خان نے ان سے ٹکٹ دینے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تو وہ اگلے دن ہی پی ٹی آئی کے خلاف ہوگئیں اور عمران خان پر ذاتی حملے کیے، شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ عمران خان خواتین کے ساتھ بہت عزت سے بات کرتے ہیں اورخواتین سے متعلق پی ٹی آئی لیڈرشپ کا مؤقف بلکل واضح ہے۔
عائشہ گلالئی کے عمران خان پر لگائے ہوئے الزامات میں کتنی صداقت ہے یہ تو تھوڑئے دن میں پتہ چل جائے گا، لیکن ابھی عائشہ گلالئی جو دوسرئے الزامات لگارہی ہیں اس کے لیے کسی انکوائری کی ضرورت نہیں ہے مثلاً عائشہ گلالئی کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت میرے خاندان کو بھی ہراساں کررہی ہے، میرا خاندان اسلام آباد میں ہے کیونکہ ہم کے پی کے میں جا نہیں سکتے ہیں،ہمارا گھر گرانے، مجھ پر تیزاب پھینکنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ میری بہن کو بدنام کیا جارہا ہے۔ اگر عائشہ گلالئی کے یہ الزامات درست ہیں تو عمران خان کو اپنے پارٹی کے لوگوں کو روکنا چاہیے۔ چلیے ایک منٹ کےلیے پی ٹی آئی کے اس الزام کو درست مان لیتے ہیں عائشہ گلالئی کی پشت پر پاکستان مسلم لیگ (ن)ہے لیکن ظاہری طور پر تو نہیں ہے،جبکہ عائشہ احد کی پریس کا نفرنس میں ان کے ساتھ فردوس عاشق اعوان اور یاسمین راشد ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، جبکہ ترجمان حمزہ شہباز کا کہنا ہے کہ عائشہ احد کے الزامات من گھڑت ہیں، عائشہ احد کے معاملے میں عدالت حمزہ شہباز کو بری الذمہ قرار دے چکی ہے، ترجمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی یہ سب کچھ عائشہ گلالئی کے جواب میں کررہی ہے ۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری عائشہ گلالئی کے بارئے میں بہت ہی گندی زبان استعمال کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کا کہنا تھا کہ عائشہ گلالئی الزام لگائے تو حنیف عباسی اسے بہن قرار دیتا ہے اور فواد چوہدری اسے بازاری عورت قرار دیتا ہے۔ عائشہ احد پرانے الزامات دہرائے تو اس کو انصاف دلانے کے لئے فواد چوہدری کا ضمیر جاگ جاتا ہے جبکہ رانا ثناو اللہ اسے بازاری عورت قرار دیتا ہے۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز کے یہ متضاد موقف دراصل ایک ہی جیسے ہیں، یعنی گھٹیا، پست اور قابل مذمت۔ عائشہ گلالئی کے والد شمس القیوم نے کہا کہ اگر عمران خان اپنی غلطی مان لیں اور قوم سے معافی مانگ لیں تو ان کومعاف کیا جاسکتا ہے۔عمران خان باقاعدہ کسی چینل کو انٹرویو دے کر کہیں مجھ سے غلطی ہوئی ہے، اگر عمران خان معافی نہیں مانگتے تو پھر پارلیمانی کمیٹی کو یہ معاملہ دیکھنا چاہئے۔جبکہ پہلے عمران خان نے قومی اسمبلی کی بنائی ہوئی پارلیمانی کمیٹی کا خیر مقدم کیا تھا لیکن بعد میں پی ٹی آئی نے پارلیمانی کمیٹی کے کسی بھی فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔
عائشہ گلالئی کا کیس کمزور بھی ہوسکتاہے کہ ان کو اپنی پارٹی کےچیئرمین پر قابلِ اعتراض پیغامات بھیجنے کاسنگین الزام لگانے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ اگرعمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ الزامات غلط ہیں اور عائشہ گلالئی کا الزام ان کی ذات پر حملہ ہے تو عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے معاملے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں لے جایں اور عائشہ گلالئی پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ خود کو رضاکارانہ طور پر تمام تر تحقیقات کے لئےپیش کردیں تاکہ اپنے خلاف ہونے والی سازش کوناکام بناسکیں۔ عمران خان کے لئے یہ ضروری ہوگیاہے کہ وہ عدالتی یا پارلیمانی تحقیقات کےذریعہ اپنے اوپر لگے ہوئے الزام کو غلط ثابت کریں۔ تاہم عائشہ گلالئی کو بھی قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجانا چاہئے کیونکہ اس رکنیت کےلئے ان کو عمران خان نے ہی نامزد کیا تھا جن پر انہوں نے قابلِ اعتراض پیغامات بھیجنے کاسنگین الزام لگایا ہے۔
اگر عائشہ گلالئی کا الزام صیح ثابت ہوجاتا ہےتو عمران خان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کےلئےختم ہوجائے گی۔لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عائشہ گلالئی اور ان کے ہمدردوں کو قوم سے معافی مانگنا ہوگی، ساتھ ہی عائشہ گلالئی کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ شاید ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سیاسی لڑائی خواتین کے زریعے لڑی جارہی ہے، اب اس گندی سیاست کو بند ہونا چاہیے اورپیغامات کے مواد اور ذرائع کی تحقیق ہونی چاہیے، جو کوئی بھی قصور ہو اس کو سزا ملنی چاہیے۔