لاکھوں بے گناہ لوگوں کا مارے جانا اور کروڑوں لوگوں کا گھروں سے بے گھر ہوجانا ہی جنگ کا دوسرا نام ہے اور جنگیں کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہواکرتی ،ایک عوامی دانشور کی مثال یہ ہے کہ وہ فوری طورپر کسی بھی مسئلے کا حل پیش کردیتاہے اور ہمیشہ اپنا درست موقف ہی قوم کے سامنے پیش کرتاہے ،اس ملک میں حکومتیں بنانے والے بہت سارے وزرااعظموں کی نسبت موجودہ وزیراعظم عمران خان نہ صرف دنیا کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی کے گریجویٹ رہے ہیں بلکہ انہیں عالمی حالات کااس قدر اندازہ ہے کہ جو شاید آکسفورڈ کے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی نہ ہو، اوریہ پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ اسے ایک پڑھے لکھے ،سلجھے ہوئے اور ایک مدبدرانہ قیادت کا ساتھ نصیب ہواہے جو نہ صرف ایک بہترین لیڈر ہے بلکہ وہ ایک زہین اور دانشور انسان بھی ہیں ،جن کی علمی خوبیوں کو آج پوری دنیا میں ہی سراہا جارہاہے ،کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے ایک اچھا خاصہ وقت بین الاقوامی سطح پر گزاراہے جس میں وہ دنیا بھر میں گئے اور ایک اچھی سطح پر انہیں اپنی تقریریں کرنے سننے اور عالمی رہنماؤں سے گفت وشنید کے مواقع ملتے رہے ہیں۔
اس قسم کی ایکٹی ویٹیز سے انسان کے ذہن میں وسعت پیداہوتی ہے اور وہ زندگی کے ہر معاملے میں فراخدلی اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتاہے جس کی مثال انہوں نے ہندوستان کے ساتھ جاری حالیہ کرائسسز میں دی ہے انہو ں نے بھارت سمیت پوری دنیا کو اس جنگی ماحول سے نکلنے کے لیے نہایت ہی مدبرانہ انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کیاہے اور اپنی علمی صلاحیتوں سے بین الالقوامی کمیونیٹی کو قائل کیاکہ پاکستان موجودہ حالات کو پرامن اور شائستگی کے ساتھ حل کرنے پر یقین رکھتاہے اس عمل میں بھارت کی اچھل کود کے دوران وزیراعظم عمران خان کا وقار پوری دنیا میں بلند ہوا بلکہ انہوں نے اپنے اس عمل سے پاکستان کا نام بھی روشن کیاہے پاکستان کے پرامن لہجے کے بیانیے نے اس وقت پاکستان کے عالمی سطح پر جھنڈے گارڈ رکھے ہیں اور یہ سب اس لیے ممکن ہواہے کہ وزیراعظم عمران خان کو خوددنیا کا براہ راست تجربہ ہے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ صرف پاکستان اور بھارت کی عوام کوہی نہیں بلکہ آدھی دنیاکو جنگ کے بعد کے ہونے والے مسائل سے بچانا چاہتے ہیں اوریہ ہی وہ اداہے کہ بھارت کی جانب سے مسلسل دھمکیوں کے باوجود وہ فہم وفراست سے کام لے رہے ہیں اور یہ یقینی طورپر بھارت کی ہار اور پاکستان کی جیت کے مترادف ہے جس کی مثال ہم پاکستانی دانشوروں کی زبان سے دینگے تویہ زیادتی ہوگی اس کے لیے ہم خود بھارت ہی چلے چلتے ہیں۔
بھارت کے مصنف کرشن پرتاب سنگھ کہتے ہیں کہ “میں نے آج تک کسی وزیراعظم کو بھارتی وزیراعظم کو مکمل چت کرتے نہیں دیکھا” بھارت کے ایک مقبول صحافی راجدیپ ڈیسائی کہتے ہیں کہ “شاید ہم بھارتیوں کو یہ بات سمجھ نہ آسکے لیکن اخلاقی سطح پر یہ عمران خان کی جیت ہے “ایک اور بھارت کی خاتون صحافی نندھی ورما عمران خان کے متعلق کہتی ہیں کہ “اسے کہتے ہیں فل ٹاس پر چھکا مارنا”بھارت میں مختلف کتابوں کی مصنف شوبھاڈے نے بھارتی سورماؤں کو کس خوبصورت انداز میں تنقید کا نشانہ بنایاہے جو کہتی ہیں کہ “عمران خان تمھارا شکریہ کہ تم نے ہماراہیروہمیں لوٹادیا”پاکستان کی سیاست پر ہر وقت تنقید کرنے والا ایک صحافی وکرم چندرا اپنی سفارتی شکست کو کس خوبصورت انداز میں ڈھال رہا ہے۔
اگر ہم نے پاکستانی وزیراعظم کا خیر مقدم نہیں کیاتو یہ گھٹیاپن کا مظاہرہ ہوگا”۔میں تمام پڑھنے والوں کو یہ بتادینا چاہتاہوں کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے دوران جن علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیاہے اس کو صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے دانشوروں اور وزرااعظموں نے قدر کی نگاہ سے دیکھاہے ،مگر افسوس کہ پاکستان میں ہی موجود کچھ عناصر کی جانب سے یہ مہم بھی چلائی گئی کہ وزیراعظم نے بھارتی پائلٹ کو جلدی کیوں چھوڑامیں سمجھتا ہوں کہ وہ بے معنی ہے کیونکہ حکومت کے اس فیصلے کو پوری دنیا نے ہی سراہاہے کیونکہ یہ فیصلہ جہاں بروقت تھا وہاں اس فیصلے نے تقریباًپوری دنیا کو ہی دوایٹمی قوتوں کے ٹکراؤں سے ہو نے والے نقصانات سے بھی بچایا ہے۔
میں سمجھتاہوں کہ پاک بھارت کشیدگی میں جس اندا زمیں پاکستان کی سفارتی اور سماجی حیثیت مظبوط ہوئی ہے اس کی ضرورت کو بہت پہلے ہی پاکستان کو محسوس کرلیناچاہیے تھا یعنی گزشتہ ادوار میں پاکستان کو پوری دنیا میں ہی تنہا کردینے کی کوششوں پر کام ہوا تحریک انصاف کی حکومت سے قبل پاکستان اپنی ناقص ڈپلومیسی اور عالمی تعاون سے بہت دور رہا ہے مگر اب صورتحال بہت بہتر اور مختلف ہوچکی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ پاک بھارت جنگی ماحول میں بھی اب کمی واقع ہورہی ہے اور پاکستان کے دنیا بھر سے ہمہ وقت سفارتی تعلقات بھی جاری وساری ہیں ۔اس سلسلے میں ہمارے وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پاکستان کے ایک بہترین وزیرخارجہ ثابت ہوئے ہیں جنھوں نے پاکستان کے تمام تر نقطہ نظر کو قوم کی امنگوں کے مطابق پوری دنیا میں پیش کیاہے اور یہ کہنا درست ہوگا کہ پاک بھارت کشیدگی کے ان تمام دنوں میں مخدوم شاہ محمودقریشی کی کوششیں قابل ستائش ہیں اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس جنگی ماحول سے نکلنے کے بعد یقینی طورپروزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم ملک میں اندرونی اور بیرونی اور سماجی بہتری کے ایجنڈے کو لیکر آگے کی طرف بڑھیں گے جس کی پاکستان کے عوام کو بہت ضرورت ہے۔
یہ وہ مسائل ہیں جسے جاتے جاتے مسلم لیگ ن کی حکومت چھوڑ گئی تھی بلکہ یہ لوگ ملکی معاملات کو اس قدرالجھاگئے تھے کہ ان کے بعد کوئی بھی حکومت آتی وہ اپنا وقت مسائل کو سمیٹتے سمیٹتے گزاردیتی ،مگر یہ تمام تر مسائل پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں ہمیں امید ہے کہ جو شخص پاکستان کے ایک سب سے بڑے تناؤ کو ختم کرسکتاہے وہ یقینی طورپر پاکستان کو غربت بے روزگاری اور دیگر معاشی مسائل سے بھی نجات دلاسکتاہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کے معاشرتی انصاف کو مکمل طوپر پاکستان میں نافذ کرنے کے لیے موجودہ وزیراعظم سے بہتر اور کوئی آپشن موجود نہیں ہے ، اور جہاں ہم نے اپنی تحریر میں بھارت سمیت دنیا بھرکے دانشوروں اور اسکالرزکا زکر کیاہے وہاں یہ بات بھی زہن نشین کرلینا چاہیے کہ جہاں دنیاکے ہر شعبے میں موجود لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی جنون سوار ہے وہاں لوگ کسی ایک آدمی کی تعریف کس طرح سے کرسکتے ہیں یعنی دنیا بھر میں تمام ہی شعبوں سے جڑے دانشوروں کی یہ کوشش ہے کہ اس کا کہا ہی دنیابھر میں نافذ ہو مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ کتنا بڑا دانشور ہوگا کہ جس کو اس دنیا کے تمام ہی دانشور اپنی مثالوں میں پیش کرتے ہو!!!!! تو وہ ہیں ہمارے وزیراعظم عمران خان۔ختم شد