تحریر : انجینئر افتخار چودھری آج دو بجے پاکستان کی اعلی عدالت دو لوگوں کا فیصلہ دینے جا رہی ہے۔دونوں پاکستان تحریک انصاف کے کرتا دھرتا ہیں۔دونوں کے اوپر الزامات لگائے گئے ہیں کوئی عباسی نامی شخص کی جانب سے۔میں پاکستان کے عدالتی نظام کو نہیں جانتا مجھے نہیں علم کہ شکائت کنندہ کی کیا تعریف ہے۔لیکن اتنا ضرور علم ہے کہ محلے میں ایک لوفر اور آوارہ کی گواہی نہیں مانی جاتی۔
میں اس شخص کو اس حد تک توضرور جانتا ہوں کہ اس کی شہرت اچھی نہیں ہے دوائیوں کی ایک معمولی سی دکان سے تاجروں کی سیاست کرتا کرتا یہ بندہ جماعت اسلامی کے ہاتھ لگا جو ایم ایم اے کی سیڑھی سے ہوتا ہوا اسمبلی پہنچ گیا ظاہر ہے چلبل عباسی کسی اور منڈئی کا مال تھا ۔مجھے وہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا ایک دوست کے معاملات اس کے ملازم سے چل رہے تھے ایک پلاٹ اس کے نام ہوا بعد میں لین دین میں گڑ بڑ ہوئی موصوف نے فیصلے میں ٹھیک ٹھاک ڈنڈی ماری۔
اللہ خوش رکھے میرے دوست ڈپٹی سپیکر تھے ان کے چیمبر میں بات چیت ہوئی تو مچل گئے اور کہنے لگے یا تو ان صاحب(مجھے) اٹھایا جائے یا پھر میں بیٹھوں گا سفید ریش سردار نے تاریخی بات کی کہا جناب عباسی صاحب آپ بے شک اٹھ جائیں میں اپنے دوستوں کو کیسے کہہ سکتا ہوں۔
باقی ماندہ پیسے بھی گئے اور کوئی دو کنال کا پلاٹ حضور نے ہڑپ کرا دیا۔اگر اس قسم کے لوگ ان پر انگلی اٹھائیں گے جنہوں نے باہر کے ملکوں سے رقوم پاکستان لائیں اور وہ کاروباری جس نے سب سے زیادہ ٹیکس دیا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔گواہی کسی بندے کی ہونی چاہئے شکائت کسی امانت دار کی ہو تو بات بنتی ہے۔لیکن کوئی بھی ایرہ غیرہ اٹھ کر عزت دار کے گلے پڑ جائے تو یہ ایک اچھی روائت نہیں ہو گی۔
ہمیں ایک اور عدالت سے بھی قوی امید ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران کو سر خرو کرے گا جو دلوں کا حال جانتا ہے جسے علم ہے چھپے ہوئے رازوں گا۔مجھے ان لوگوں پر حیرت ہے جو عمران خان اور نواز شریف کا تقابل کرتے ہیں ایک ملک میں پیسے لا رہا ہے اور دوسرا لے جا رہا ہے۔
حیران کن موازنہ ہے۔ہم کارکنان تحریک انصاف اللہ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے ان دو لیڈروں کو با عزت بری کر دے۔کچھ ایسے بد خواہ بھی ہیں جو اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر بیٹھے ہیں اللہ ان کو بھی شرمندگی دکھائے گا ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک بڑے اور مکار دشمن کو متحد ہوئے بغیر شکست دی جا سکتی ہے۔