تحریر : سید انور محمود چونسٹھ (64) سالہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مرحوم عبدالستار ایدھی کے بعد پاکستان میں سماجی اور فلاحی کام کرنے والی دوسری بڑی شخصیت ہیں۔لاہور میں قائم شوکت خانم ہسپتال سال کے 365 دن اور دن کے 24 گھنٹے پاکستانی اورغیر ملکیوں کی خدمت کرتا ہے یہ تحفہ عمران خان کا ہے، اور جب خان کرکٹ کھیلا کرتے تھے تب وہ ایک کامیاب کپتان تھے، 1992 میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ ان ہی کی قیادت میں جیتا تھا۔عمران خان جنرل حمید گل کے کہنے پر 1994 میں پاکستانی سیاست میں داخل ہوئے،1996 میں انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی ’پاکستان تحریک انصاف‘ بنائی۔1997کے عام انتخابات میں سیاست میں نوزائیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر کن نہ رہی اور انہیں ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2002 کے انتخابات میں وہ اپنی پارٹی کے واحد ایم این ائے منتخب ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سابق سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد کے ساتھ ملکر 2008 کے عام انتخابات کا باییکاٹ کیا، 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں انکی جماعت پی ٹی آئی پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی بنکر سامنے آئی، جبکہ صوبے کے پی کے میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی حکومت بنی جس میں 80 فیصد کے قریب حصہ پی ٹی آئی کا ہے۔
عمران خان جونوجوانوں کے رہنما کہلاتے ہیں اور خود کو بھی اب تک نوجوان سمجھتے ہیں، پورئے پاکستان میں لوگ ان کو ایک بدتمیز سیاستدان کہتے ہیں۔ ’اوئے‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔حیرت یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے عمران خان کو بات کرنے کی تمیز بلکل نہیں ہے، چاہے وہ کسی جلسہ سے مخاطب ہوں یا کسی پریس کانفرنس سے۔پاکستان تحریک انصاف نے اپنے چیرمین عمران خان کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کےسڑسٹھ (67) سالہ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات اورپانامہ لیکس کی وجہ سے انکےخلاف اسلام آباد میں 2 نومبر کو دھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ جمرات 27 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت حسین صدیقی نے فیصلہ دیا کہ 2 نومبر کو کسی کو بھی اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگلی پیشی پر جسٹس صدیقی بھی عمران خان کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ عمران خان نے مجھے بھی میڈیا کے سامنے ’اوئے‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
اڑسٹھ ( 68) سالا سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 1978 میں فوجی آمریت کے سائے میں شروع کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ اپنی تعلیم کے دوران جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمیت طلبہ میں رہے جو غنڈہ گردی اور تشدد میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جاوید ہاشمی، وحشی آمر جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امور نوجوانان کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ اس زمانے میں جاوید ہاشمی پرقتل کے الزامات کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی تھیں۔ تاہم بعدازاں جاوید ہاشمی وزیر بننے کے اقدام پر افسوس کا اظہار بھی کرتے رہے لیکن جاوید ہاشمی تو اُس دن ہی داغی ہوگے تھے جب وحشی فوجی آمرجنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی اور جاوید ہاشمی فوجی آمر کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی اور نواز شریف مشرف کےلیے آمر کا لفظ استمال کرتے ہیں لیکن دونوں ہی آمر کی گود میں پلے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے 126 دن کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 2014 میں ہونے والے تحریک انصاف کے لاحاصل دھرنے کے تعلق سے مخدوم جاوید ہاشمی نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ عمران خان نے انہیں خود بتایا تھا کہ’’چیف جسٹس آف سپریم کورٹ سے میری ڈیل ہوگئی ہے، جوڈیشل مارشل لاء لگا کر فوج کی مدد سے تحریک انصاف کو الیکشن میں کامیاب کرا دیا جائیگا‘‘۔جواب میں پی ٹی آئی کے چونسٹھ (64) سالہ چیرمین نے حسب عادت بدتمیزی کا مظاہرہ کیا اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اڑسٹھ ( 68) سالا جاوید ہاشمی عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں دماغی توازن ٹھیک نہیں رہتا، ان کےالزامات جھوٹ پلس ہیں۔
Javed Hashmi
عمران خان کے بیان کے جواب میں جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ کہ ‘عمران خان کے بیان سے بہت تکلیف ہوئی، ایک کورٹ بیٹھنی چاہیے جو عمران خان کا دماغی توازن دیکھے اور میرا بھی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر پاگل خانے کی رپورٹ آگئی تو قوم کی عمران خان سے جان چھوٹ جائے گی، عمران خان غیر مناسب باتیں کرتے ہیں۔عمران خان نے میرے خلاف نامناسب بات کی ہے،عمران خان جھوٹا ہے۔ جاوید ہاشمی کا مزید کہنا تھا کہ ’’ فوج دھرنے میں ملوث نہیں تھی مگر فوج کے چند غیرمطمئن عناصر ملوث تھے جو راحیل شریف کو ناکام کرنا چاہتے تھے اور عمران خان کے ذریعے پارلیمانی نظام میں بھی تباہی لانا چاہتے تھے‘‘۔جاوید ہاشمی نے مزید کہا کہ عمران خان نے مجھے خود کہا تھاکہ ’تصدق جیلانی چلے جائیں گے جس کے بعد جسٹس ناصرالملک اسمبلیاں تحلیل کردیں گے‘۔جاوید ہاشمی نے جن معاملات کا انکشاف کیا ہے وہ انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور انہیں محض ایک سیاسی بیان سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان الزامات کو نظرانداز کرناملک اور اسکے قومی اداروں کی سالمیت اور وقار کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعتاً عمران خان اور اسوقت کے چیف جسٹس کے درمیان ایسی کوئی ڈیل ہوئی تھی تو یہ نہ صرف عدلیہ کی توہین ہے بلکہ آئین، قانون، جمہوریت ،عدلیہ اورمسلح افواج کے وقار کو بری طرح مجروح کرنے کی بھی سازش تھی۔ ان انکشافات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے، عمران خان اوراسوقت کے چیف جسٹس کو بھی شامل تفتیش کیاجائے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کے تناظر میں جاوید ہاشمی کے انکشافات دیگر معاملات سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی جانب سے لگائے گئے الزامات پرعمران خان نے جس بدتمیزی کا مظاہرہ کیا وہ شایدپاکستان کی تایخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے، گالیاں دینے سے کوئی بڑا لیڈر نہیں بن جاتا ہے، لیڈر بننے کیلئے سوچ کا بڑا ہونا ضروری ہے لوگوں کے مسائل حل کرنا ضروری ہے۔
جاوید ہاشمی بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں، دیکھا جائے تو جاوید ہاشمی کی سیاست ختم ہوچکی ہے، مسلم لیگ (ن) سے پی ٹی آئی اور پھر تھوڑئے عرصے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑ کر واپس مسلم لیگ (ن) میں جانے کی خواہش ایک مفاد پرستانہ سیاست کےکچھ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاست اسی طرح نفرت کے بیج بوتی رہے گی؟ کیا ملک کے حالات اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما بے صبری، عدم برداشت، بدتہذیبی کی پالیسی کواپنا لیں اور سیاسی اختلاف کا جواب دلیل کے بجائے گالیوں سے دیں ۔ عمران خان اپنی بدتمیزی کی وجہ سے ایک نامعقول سیاست دان ہیں،شاید عمران خان نے بزرگوں کا ایک بڑا مشہور مقولہ نہیں سنا ہے کہ ’’با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب‘‘۔ ایک سوال یہ ہے کہ ’’ کیا عمران خا ن اور جاوید ہاشمی پاگل ہیں؟‘‘، کیونکہ آجکل دونوں بوڑھے سیاستدان آمنے سامنے ہیں اور جس طرح کے سیاسی بیانات دئے رہے ہیں لگتا ہےدونوں ہی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔