تحریر : انجینئر افتخار چودھری میرا ان سے تعارف کوئی نوے کی دہائی میں ہوا خاص طور پر جب ایک بار عمران خان جدہ آئے تو ایک اخباری نمائیندے کے بطور ان سے رابطہ ہوا ۔احسن رشید جدہ کہ ایک چھوٹی سی کمپنی کے پریزیڈنٹ تھے جسے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ایک ایمپائر بنا دیا ۔ظاہر ہے ٹیم کے بغیر یہ کچھ بھی ممکن نہ تھا ظفر علی تالپور بھی ان کے ساتھ کوشاں رہے۔بعد مین خشک سالی کا دور آیا احسن کو اس چیز کی بڑی فکر تھی جدہ کے قونصل خانے کی روائتی بے حسی پر کڑھتے تھے پاکستانیوں کو اکٹھا کیا اور بلوچستان میں کنویں کھدوانے کے لئے خطیر رقم جمع کی۔تحریک انصاف کو سعودی عرب میں انہی کے نام سے جانا گیا۔عمران خان جب سعودی عرب گئے تو ان کی پذیرائی جناب ڈاکٹر غلام اکبر نیازی کی زیر قیادت ہوئی اس وقت عمران خان اور ان کا تعارف نہیں تھا اس لئے کہ وہ کسی ایسی تقریب میں نظر نہ آئے جس میں خان صاحب نے کمیونٹی سے فنڈ ریز کیا ہو۔لگتا ہے ورلڈ کپ کے بعد ہی وہ ان سے ملے ۔ان کی ملاقات خان صاحب سے دیر سے ہوئی مگر شوکت خانم کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف خان صاحب کئی موقعوں پر کر چکے ہیں۔احسن رشید سے گاہے گاہے ملاقاتیں ہوتی رہیں ایک بار عمران خان کو جدہ کے مہران ہوٹل میں بھی لائے اور کمیونٹی سے ملوایا۔
ہماری جدہ میں پاکستانی کمیونٹی سے بڑی دوستیاں رہیں ہم رہتے ہی عزیزیہ میں تھے جا پاکستانیوں کا گڑھ تھا۔احسن کسی سمندر کنارے گھر میں رہتے تھے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی خشک سالی ہی کے سلسلے میں جدہ شیراٹن میں ایک تقریب ہوئی جس میں ابرارالحق نے دھوم مچائی وہاں ان سے تفصیلی ملنے کا موقع ملا ان کی کوشش تھی کہ پاکستانیوں کے لئے کچھ کر گزریں جدہ میں غریب پاکستانیوں کے لئے اسکول بنانے میں بھی ان کا ہاتھ تھا ان کے ساتھ علی ذوالقرنین بھی شامل رہے جو آج بھی پی ٹی آئی کے چیئرمین کے ذاتی دوست اور جدہ کے معروف بزنس مین ہیں۔احسن رشید پاکستان تحریک انصاف کے پانچ بانی اراکین میں سے ہیں جن میں نعیم الحق عمران خان،حفیظ خان اور خود احسن شامل تھے۔آج سے بیس برس پہلے پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی اور پھر اس کے لئے جان لڑا دی۔فوکس پٹرولیم میں پاکستانیوں کو بے شمار نوکریاں دلوائیں اس میں سیاسی وابستگیوںسے بالا تر ہو کر کام کیا۔کہتے ہیں ایک بار سعودی عرب کی عدالت میں اس کمپنی کے مالک کو بلوا لیا گیا کہ تم احسن رشید کو بھاری بھر کم معاوضہ جو پچاس ہزار ریال ماہانہ ہے کیوں دیتے ہو اس کی جگہ کوئی سعودی نہیں رکھتے اس نے ٹکاسہ جواب دیا میں انہیں پچاس نہیں کئی لاکھ دیتا ہوں اس لئے کہ مجھے اس سے بیس گنا زیادہ کما کے دیتا ہے۔
احسن نے یہ رقم شوکت خانم پر خرچ کی ۔میرے ساتھ بڑا پیارا تعلق تھا۔٢٠٠٢ پاکستانیوں کے لئے سعودی عرب میں سیاہ سال تھا لوگوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا تھا جس میں راقم بھی شامل ہے احسن رشید لندن چلے گئے وہاں سے اپنے تئیں کوششیں کیں۔ریفرینڈم کے زمانے میں میں جدہ جیل میں تھا پی ٹی آئی اس وقت جنرل مشرف کے قریب تھی اسی دوران پتہ چلا احسن رشید وزیر پٹرولیم بننے والے ہیں۔نہ تو جنرل مشرف سے نبھی اور نہ ہی وہ وزیر بنے۔عمران خان کی دعوت پر پاکستان آ گئے اور یہاں آ کر پارٹی کو منظم کیا۔انٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں جدہ آئے تو خان بھی ان کے ساتھ تھے میرا ذاتی خیال تھا کہ عمران خان کو انتحابات کے قریب یہ بھاری پتھر نہیں اٹھانا چاہئے مگر خان مصر تھے وہاں انٹرا پارٹی انتحابات کے موضوع پر ہمیں لیکچر دیتے رہے۔ان انتحابات کا کیا فائدہ ہوا وہ دنیا نے دیکھ لیا چالاک اور چلتر لوگ میدان مار گئے۔احسن رشید ہار گئے یا ہروا دئے گئے یہ ایک دکھی داستان ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں جس جس نے انہیں دکھ دیا وہ دکھی ہوئے در بدر ہوئے اور ہو رہے ہیں۔
Imran Khan
واپس جب پاکستان آیا میں روڈ پر تھا اجڑ گیا تھا ٢٠٠٧ کی ایک دوپہر کو عمران خان ،ایڈ مرل جاوید اقبال اور احسن رشید کے ساتھ شارع دستور پر ان سے ملاقات ہو گئی احسن رشید نے مجھے عمران خان سے ملوایا بعد میں ہم اسمبلی کی رہائش گاہ پہنچے جہاں میں نے پارٹی جائین کی یہ جون کی کڑکتی دوپہر تھی۔وہیں پہلی بار اکبر ایس بابر عمر چیمہ بھی ملے۔سیف اللہ نیازی کرنل یونس اور سردار اظہر سے بھی اسی دن ملاقات ہوئی۔تحریک انصاف تھوڑے لوگوں کی ایک چھوٹی پارٹی تھی۔اس پارٹی پر وہ وقت آیا جب عدلیہ موومنٹ چلی اس وقت الیکشن بھی ہونے والے تھے عدلیہ موومنٹ کی لگام حامد خان کے پاس تھی اعتزاز احسن ادھر اسلام آباد میں کمان کر رہے تھے۔مجھے وہ شام اچھی طرح یاد ہے پارٹی میں دو مکتب فکر تھے ایک الیکشن لڑنے کے حق میں دوسرا مخالف۔حفیظ اللہ نیازی احسن رشید حمائت میں تھے جب کہ حامد خان گروپ جس میں کرنل جاوید جنجوعہ سیکریٹری جنرل پنجاب طارق چودھری سینیٹر اسد قیصر اور ہم مخالفت کر رہے تھے۔خان سے میں نے اس وقت بات کی جب وہ عشاء کی نماز کے لئے مصلے پر تھے میں نے کہا خان ہمارے پاس عدلیہ اور وکلاء کے علاوہ ہے ہی کیا ہم کس کے بوتے پر الیکشن میں جا رہے ہیں۔اور وہی ہوا عمران خان نے کہا نواز الیکشن میں جائے گا۔جاتا پھرے جب میں نے احسن رشید سے کہا کہ بائیکاٹ ہو گا انہوں نے تاریخی جملہ کہا ہمہ یاراں دوزخ۔اور حامد خان کا وہ تاریخی معرکہ تھا ہم نے بائیکاٹ تو کر لیا مگر پارٹی بنی ہی عدلیہ موومنٹ میں۔
سردیوں کی ایک رات کو ان کے بیٹے کی شادی میں پہنچا سلامی دیتے ہوئے کہا افتخار یار تمہیں تو فوجیوں نے رگڑ دیا ہے اسلام آباد سے آئے ہو کیوں تکلف کرتے ہو؟ڈبڈباتی آنکھوں کو دیکھ کر گلے لگا لیا۔پھر اللہ نے کیا جب میں ٢٠٠٩ میں جدہ گیا تو رابطے میں رہا کئی بار ان کے کہنے پر پنڈی پہنچا ایک بار کنونشن تھا فوزیہ قصوری فیاض چوہان زاہد قاسمی اظہر میر فہیم صدیقی اعزاز آصف سردار ناصر سب موجود تھے میں جب چار پانچسو ساتھیوں کے ہمراہ ہال میں گیا تو جان میں جان آئی۔اتفاق کی بات دیکھئے جو سارے اس جلسے میں تھے ان میں سے کسی کو ٹکٹ نہیںملا۔وہ پنجاب کے صدر تھے کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ وہ ہاریں گے۔وہ ہار گئے ہم سب ہار گئے۔٢٠٠٩ میں نوید نبیل کی شادی ہوئی میں نے بلایا سب لوگ آئے مگر وہ نہ آئے میں بہت ناراض تھا میں نے شدید احتجاج کیا عمران خان نے کہا کہ میں بیمار تھا نہیں آ سکا اب چھوڑ بھی دو ادھر سے احسن رشید نے بھی یہی کہا میں نے غصہ کیا اور کہا معمولی سی بیماری کی وجہ سے اس دوست کو بھول گئے جو آپ کے لئے تڑپتا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز بھرا گئی اور کہا کاش یہ معمولی بیماری ہو۔
٢٠١٣ کے الیکشن میں ٹکٹ والے دن میں اسلام آباد کے بڑے ہوٹل میں پہنچا انہوں نے کوشش کی مگر یہاں نہ ہونا ایک منفی نکتہ ثابت ہوا۔وہاں چھڑی کے بل آئے بازو ٹوٹ گیا تھا نوید کو لاہور دیکھنے کے لئے بھیجا۔وہ توٹ کے مرے انہیں اپنی صوبائی سیٹ سے ہارنے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا انہیں پارٹی کے اندر کے دوستوں سے گلہ تھا جنہوں نے انہیں ہروا کر چارپائی لگوا دیا۔وہ لاہور کی سیٹ بھی اس لئے ہارے کہ وہ قائد ایوان نہ بھی ہوتے تو اپوزیشن لیڈر وہی ہوتے۔اللہ جو ہیں انہیں طاقت دے مگر احسن رشید وہ تھے جن سے لوگ روشنی ادھار لیتے تھے سستی روٹی اسکیم بھی انہوں نے متعارف کروائی تندور لگوائے جو بعد میں اچک لی گئی۔آج ان کی برسی ہے اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے