اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کی دونوں وضاحتوں پر تحریری حکم جاری کیا ہے کہ ان کا انتہائی احتیاط سے جائزہ لیا گیا اور غیر اطمینان بخش ہونے پر دونوں مسترد کی جاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمرا ن خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ تحریری فیصلہ 5 صفحات پر مشتمل ہے جو چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے۔
عدالتی حکم میں عدلیہ کے حوالے سے عمران خان کا بیان اور ان کی دونوں وضاحتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی دونوں وضاحتوں کا انتہائی احتیاط سے جائزہ لینے کے بعد عدالت انہیں غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے مسترد کر تی ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ عدلیہ کا احترام کیا جانا چاہئے، اگر کوئی شکایت ہے تو اس کا قانونی فورم موجود ہے لیکن عدلیہ کے بارے میں شرمناک کا لفظ استعمال کرنا بادی النظر میں اسے گالی دینے کے مترادف ہے۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ عدالتیں خود کو ایسی صورتحال میں ڈالنے سے احتراز کرتی ہیں لیکن اگر جج صاحبان یا عدالت کو بطور ادارہ ملوث کیا جائے تو ادارے کے وقار میں یہ اقدام اٹھا کر وضاحت طلب کرنا پڑتی ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی دونوں وضاحتوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد انہیں مسترد کیا جاتا ہے، جہاں تک ان کی یہ شکایت ہے کہ عمران خان کی آئینی درخواست کی سماعت نہیں کی گئی ان کو حقائق سے آگاہی نہیں ہے کہ ان کی درخواست رجسٹرار آفس نے 8 جون کو ہی اعتراض لگا کر مسترد کر دی تھی جس کے خلاف اپیل داخل ہوئی۔
اس اپیل کی فوری سماعت کیلئے سپریم کورٹ رولز کے تحت درخواست نہیں کی گئی۔ عدالت میں 19 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام کیسز کو ایک دن مقرر کر کے ان کے فیصلے سنادئیے جائیں، پنجاب سے تحریک انصاف کے میدواروں کی 31 پٹیشن الیکشن ٹریبونلز میں داخل کی گئیں جن میں انگوٹھوں کی بائیو میٹرک کے ذریعے تصدیق کی استدعا کی گئی ہے اور جن 4 حلقوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ انڈر پراسس ہیں۔ عدالت حامد خان کی طرف سے تفصیلی جواب داخل کرنے کیلئے ان کی درخواست پر 28 اگست تک سماعت ملتوی کرتی ہے۔