نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ” سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر اگلی نسل کا ”مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ( فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد خان نے سب سے زیادہ توجہ اپنے آئین سلطنت میں تعلیم اور تدریس پر دی ۔پچھلے عہد میں تمام مدرسے محض مذہبی ہوتے تھے ۔اگرچہ ان میں اور علوم بھی پڑھائے جاتے تھے ۔لیکن ترکوں کا سر شتہ تعلیم پولیٹکل حیثیت کا حامل تھا اور وہ سلطنت کے لائق ،لائق عہدہ دار پیدا کرتا تھا)۔تعلیم انسان کو غلامی سے نجات دلاتی ہے عمران خان جس کے متعلق برسوں یہی کہا جاتا رہا کہ عمران خان کو سیاست کرنا نہیں آتی اور اس کے پاس وہ سیاست کے لوازمات بھی نہیں جو ملکی سیاست کو درکار ہیں ۔اور یہ بھی بلند وبانگ دعوے کئے کہ یہ ایک ناکام سیاست دان ہی رہیں گے لیکن عمران خان کا وزیر اعظم بننا انکی 22سالہ مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔اورموجودہ حالات میں نہایت امید افزاء ہے اور ملک وقوم کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے ۔وہ بنیادی طور پر نہ سرمایہ دار ہے نہ معروف معنوں میں جاگیردار ہے ،نہ ہی ملک کی حکومت اسکی نظر میں باپ دادا کی کھوئی ہوئی میراث ہے جس کو پاکر عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنا اسکا مقصد ہو ،عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں اقتدار سنبھالتے وقت متنازعہ نوع چیلنجز کا سامنا نہیں ،اس کی سوچ اور فکر واضح ہے ایک طرف وہ مدینہ کی ریاست کا قائل ہے تو دوسری طرف وہ اپنے وطن کو دنیا بھر میں ہونے والی عمرانی ،علمی اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔
عمران خان 71سالوں میں پہلا وزیر اعظم آیا ہے جس نے اپنے پہلے تاریخ ساز خطاب سے ہی یہ ثابت کردیا ہے کہ بلاشبہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بطور سربراہ ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں اور ایک نئی مثبت تبدیلی لاکر کرپشن سے پاک ،مفلسی وغربت سے آزاد ،ایک انصاف پسند اسلامی ریاست بناسکتے ہیں اور مدینہ جس کا ماڈل ہوگا ۔ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے ریاست مدینہ کے اصول پڑھ کر بھی سنائے ۔قوانین پر یکساں عملدرآمد کے لیے حضرت علی اور حضرت عمر کے دور کے واقعات بیان کئے ۔ملک کو سنوارنے کے لیے اپنے خطاب میں ہر موقع پر حضرت محمدۖ کی تعلیمات کا حوالہ دیا لگی لپٹی باتوںسے پاکستانیوں کا دل نہیں بہلایا بلکہ تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی ۔باقاعدہ اعداد وشمار کے ذریعے آگاہ بھی کیا مسائل کا تذکرہ کیا اور حل بھی بتایا ۔خلفائے راشدین جیسا نظام حکومت چاہتا ہوں ،عمران خان کے یہ الفاظ ان کی شخصیت کے نرم صلع جو اور شائستہ پہلو کو سامنے لایا ہے ۔بلاشبہ ہمارے لیے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست ایک بہترین ماڈل ہے جہاں قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں فلاحی نظام وضع کیا گیا ۔اس بابرکت اسلامی ریاست کی چند خصوصیات یہ تھیں معاشرہ میں دولت اور دیگر وسائل ثروت کی عادلانہ تقسیم کا بندوبست کیا گیا ۔زکوة اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے ذریعہ دولت کا رخ امراء سے غربا ء کی طرف پھیرا گیا ۔ایسے ذرائع اور طور طریقوں پر پابندی لگائی گئی جس سے کسی خاص طبقے کے ہاتھ میں دولت کے ارتکاز کا امکان تھا ۔مثلاًسُود ،احتکار،ذخیرہ اندوزی ،ناجائز منافع خوری وغیرہ ۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی سالوں میں دولت صالح خون کی مانند پورے معاشرے میں گردش کرنے لگی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوگیا۔
رعایا کے لیے خوراک ،لباس ،صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا۔عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران بچوں کی غذا کی قلت کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے ایک تصویرکہانی بھی دکھائی ۔جس میں پوری غذا نہ لینے والے بچے کا دماغ کمزور دکھایا گیا ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم کو کسی موسی کا انتظار تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا سے باز نہیں آتے ۔جن حکمرانوں نے 71سالوںمیںہمیں ظلم ،جبر ،تشدد ،اجارا داری اور افلاس کے سوا کچھ نہیں دیا ہم آج بھی بخوشی انہی کادم بھرتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے نہ احساس ہو جنکو خود اپنی حالت کے بدلنے کا ۔عمران خان نے اللہ تعالیٰ اور قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موقع ملا ہے پاکستان کے اندر وہ تبدیلی لانے کا جس کا اس قوم کو 71سالوں نے انتظار تھا جس کے لیے یہ قوم ترستی رہی ہے۔
اس ملک میں سب سے پہلے کڑا احتساب ہوگا قوم کے چوروں کو پکڑیں گے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے مجھے فخر ہے کہ بائیس سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد آج کسی سیاسی تجربے ،خاندانی سپورٹ کے بغیر یہاں تک پہنچا ہوں میرے ہیروقائد اعظم کی چالیس سالہ کڑی جہد مسلسل میرے لیے مشعل راہ ہے ۔”بے شک اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کورائیگاں نہیں کرتا” اس ملک کا اصل ایشو وہ پیسہ ہے جو اس ملک کی فلاح وبہبود پر لگنا تھا وہ جن جن جیبوں میں گیا ہے ان سب کا احتساب کریں گے اور ایسا نظام بنائیں گے کہ پیسہ یہاں پر اکٹھا ہو اس کے لیے باہر ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔قوم کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے۔
عمران خان نے ایسے وقت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے جس وقت ملک داخلی اور خارجی سطح پر بے شمار مسائل سے گھرا ہوا ہے ۔معشیت کو بحران سے نکالنا اتنا آسان اور سادہ نظر نہیں آرہا ۔اس وقت جہاں ڈالر کی قدر روپے کو کوڑیوں کے دام پر لے آئی ہے،جبکہ پیٹرول صرف لوگوں کو خود کشی کے لیے میسر آنے کی نوبت آگئی ہے ،تجارتی خسارہ جون 2018تک 33ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جبکہ گذشتہ چارسال کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضے 31ارب ڈالر کے اضافے کے بعد 91ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قرض آئندہ چند ماہ میں ایک سو ارب ڈالر کو عبور کرسکتا ہے ،جس قرض کو اتارنے کے لیے پاکستان کو سال23-2022تک 31ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی ،موجودہ صورتحال میں سٹیٹ بینک کے پاس محض 9ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر رہ گئے ہیں۔
افسوس کہ یہ سارا قرضہ پاکستان کے صاحب اقتدار ،اشرافیہ اور حکمرانوں کی عیاشیوںکی بدولت چڑھا ہے ۔کاش یہ قرضہ پاکستان کی اس غریب عوام پر خرچ ہوتا جن کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں پینے کے لیے پانی نہیں رہنے کے لیے گھر نہیں ۔اوراس ملک کے وزیر اعظم کے 524ملازم 80گاڑیاں جس میں 33بلٹ پروف ہیں ،ہیلی کاپٹر اور جہاز گورنر ہائوسز اور وزیر اعلیٰ ہائوسز جہاں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہوں ایک طرف قوم کا بچہ بچہ مقروض دوسری طرف صاحب اقتدار فراعین مصر کی طرح زندگی گزارتے ہوں ۔ایسے میں تبدیلی کہا ں ممکن ؟عوام نے بڑی دیر تیر کھائے ہیںاور ایک مدت تک شعور کو مار کر شیر کو زندہ رکھا ہے ۔عمران خا ن کسی خاص قوت کا نہیں بلکہ عوام کا فیصلہ ہے ۔عمران خان نے عوام کو شعور دیا ہے ۔عمران خان کو انکی ثابت قدمی نے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچایا ہے تما م تر سیاسی نشیب وفراز اور کردار کشی کی خطرناک مہم کے باوجود اپنے پائوں پر کھڑے رہے ہیںعمران خان نے عوام کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کا بدعنوانی سے آزاد ایک خوشحال پاکستان دینے کا وعدہ کیا اور اس حقیقت میں رنگ بھرنے کا کام پانامہ دستاویزات نے کیاجس کی زد میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنا سب کچھ گنوا دیا پانامہ دستاویز ات کے افشا ہونے کے بعد نواز شریف کوبدعنوانی اور منی لانڈرنگ میں نہ صرف وزیر اعظم کی کرسی گنوانی پڑی بلکہ وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچا دئیے گئے ۔اور عوام کی آنکھیں کھلیں ۔عمران خان اگر پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو حکمران نہیں بلکہ ”لیڈر”ہونگے۔جس کے اوصاف انکے اندر موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔