سیاست کے سینے میں دِل ہوتا ہے نہ اِس کا کوئی مذہب بقول جنابِ آصف زرداری سیاسی وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ توڑنے والا گناہ گار بن جائے یہاں تو سب چلتا ہے چلتا کیا، دوڑتا ہے اور حالات و واقعات ہی طے کرتے ہیں کہ کس کی دوستی اچھی اور کس کی دشمنی۔ یہاں مشرف کے پہلو میں جگہ پانے والے ”فنکار” میاں نواز شریف صاحب کے سینے سے چمٹے دکھائی دیتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے وزارتِ عُظمیٰ کے امیدوار تحریکِ انصاف کی وائس چیئرمینی حاصل کرکے اتراتے پھرتے ہیں ۔محترم عمران خاں متعدد بار یہ اعلان کر چکے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو گی لیکن اب چوری چوری ، چُپکے چُپکے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لیے رابطے بھی ہو رہے ہیں اور وعدے وعید بھی ۔پیپلز پارٹی کے”نوخیز” چیئر مین بلاول زرداری ایک تیر سے دو شکار کرنے کی تگ و دَو میں ہیں اُنہیں ایک طرف تو لاہور میں تحریکِ انصاف کے احتجاج میں بڑی کشش نظر آتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ تحریکِ انصاف کے نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنوں کے شدید مخالف بھی ہیں۔ مہنگائی کے خلاف احتجاجی دھرنے میں اِس لیے کشش کہ اِس سے نواز لیگ کو ”ٹَف ٹائم” ملتا ہے اور نیٹو سپلائی کی بندش کے اِس لیے خلاف کہ امریکہ کی خوشنودی مقصود ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کا حُسن یہی ہے کہ جب اور جہاں جی چاہے قدم رنجہ فرمائیے آپ کو ہر سیاسی گھر اور دَر پر ”اے آمدنتِ باعثِ آبادیٔ ما” لکھا ملے گا۔ ہمارے بھولے بھالے سیاسی نومولود کپتان صاحب نے اِس اندازِ سیاست سے ہٹ کر چلنا چاہا لیکن جب وہ میدانِ عمل میں کودے تو ادراک ہوا کہ ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا”۔ اب وہ بھی تھوڑے تھوڑے سیاسی ہوتے جا رہے ہیں اور اُن کی مُنہ زور ، ہٹ دھرم ”سونامی” کو بھی سمجھوتوں کی سیاست نے رام کر لیا ہے ۔اب خاں صاحب میں وہ گرمیٔ کلام نظر آتی ہے نہ اُن کی سونامی میں سر کشی ۔اہلِ سیاست کا یہ انوکھا اور نرالا اندازِ سیاست ہم جیسے جاہلوں کی سمجھ سے بالا تَر ہے ۔پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف ایک طرف تومِل بیٹھ کر بلدیاتی انتخابات میں پنجاب میں نواز لیگ کے خلاف منصوبے باندھ رہی ہیں جبکہ دوسری طرف نواز لیگ ، تحریکِ انصاف اور ایم کیو ایم سمیت تقریباََ تمام سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف مِل کر بلدیاتی انتخاب لڑ رہی ہیں ۔محترم عمران خاں نے جہاں پیپلز پارٹی کے خلاف ”ہتھ ہَولا” رکھا ہوا ہے وہیں پیپلز پارٹی تحریکِ انصاف کی تحسین بھی کرتی ہے اور تنقید بھی۔
قومی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر سیّد خورشید شاہ نے فرمایا کہ لاہور میں تحریکِ انصاف کے اجتماع کو دیکھ کر حکمرانوں کو آنکھیں کھولنی چاہئیںلیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو عمران خاں کے جلسے سے دَس گنا زیادہ لوگ سڑکوں پر لے آئیں گے گویا اُن کے خیال میں اصل سونامی پیپلز پارٹی کے پاس ہے جسے اُس نے ابھی تک چھپا کے رکھا ہوا ہے۔”کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے” کی عملی تصویر بنے شاہ صاحب نے فرمایا کہ مہنگائی صوبائی نہیں ، وفاقی معاملہ ہے۔ اِس کے باوجود بھی اگر عمران خاں سندھ میں آ کر احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کا جمہوری حق ہے ۔اِس کے ساتھ ہی شاہ صاحب نے خاں صاحب کے 6 جنوری کو سندھ میں احتجاج کرنے کے حوالے سے ”زیرِ مونچھ” مُسکراتے ہوئے فرمایا کہ خیبرپختونخواہ میں تو ٹماٹر 2 روپے کلو، آٹا 5 روپے کلو اور گھی مفت ملتا ہے۔ اِس لیے ظاہر ہے کہ وہ وہیں احتجاج کریں گے جہاں مہنگائی ہو گی۔ شاہ صاحب نے تو از راہِ تفنن یہ کہا لیکن یہ عین حقیقت ہے کہ ہمارے پختون بھائی خاں صاحب سے یہی توقع لگائے بیٹھے تھے۔
Imran Khan
اُن کا خیال تھا کہ بجلی تو اُنہیں پہلے ہی مفت ملتی ہے ، اب اگر یہ اشیائے خورونوش بھی مفت ملنا شروع ہو جائیں تواِن ایّامِ مفلسی میں کم از کم ”نسوار” کے پیسے تو بچ ہی رہیں گے۔ ہمارے خواجہ محمد آصف سیالکوٹی نے تو کمال شفقتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بندوبست کر ہی دیا تھا لیکن تحریکِ انصاف طرح دے گئی۔ ہوا یوں کہ عمران خاں صاحب نے لاہور میںاحتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بجلی کی مہنگائی وفاقی معاملہ ہے اگر وفاقی حکومت ببجلی کا انتظام ہمارے سپرد کر دے تو ہم بجلی سستی کر دیں گے ۔ہمارے خواجہ آصف بھی بڑے کائیاں ہیں ۔اُنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراََ کہہ دیا کہ بسم اللہ، وہ بجلی کا انتظام خیبرپختونخواہ حکومت کے حوالے کرنے کو تیار ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب خیبرپختونخواہ کی حکومت بجلی کا انتظام سنبھالتی ہے۔
دراصل خواجہ صاحب تو پہلے ہی اُن پختون بھائیوں سے ”اوازار” بیٹھے تھے جو بجلی تو بڑے دھڑلے سے استعمال کرتے لیکن بِل دینے کی بجائے نسوار خرید لیتے۔ اُنہیں بار بار وہ ”فیڈر” بند کرنے پڑتے جہاں 95 فیصد لوگ بِل ہی نہیں دیتے تھے۔ شنید ہے کہ خیبرپختونخواہ میں اوسطاََ 40 فیصد بجلی کا بِل ادا کیا جاتا ہے اور باقی ہڑپ کر لیا جاتا ہے ۔خواجہ صاحب کے اِس بیان کے بعد KPK حکومت ”وَخت” میں پڑ گئی اور وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک پہلے سے بھی کمزور دکھائی دینے لگے ہیں ۔محترم پرویز خٹک خوب جانتے ہیں کہ وہ اوّل تو اپنے پختون بھائیوں سے بجلی کا بِل وصول ہی نہیں کر پائیں گے اور اگر زور زبر دستی سے بِل وصول کر بھی لیا تو KPK سے تحریکِ انصاف کا پتّا صاف ہو جائے گا کیونکہ خیبرپختونخواہ کے عوام حکومتیں بدلنے کے بہت شوقین ہیں ۔ویسے بھی آفتاب احمد شیر پاؤ کی علیحدگی کے بعد تحریکِ انصاف کی حکومت کچھ کمزور کمزور سی دکھائی دینے لگی ہے اور محترم مولانا فضل الرحمٰن حکومت سنبھالنے کے لیے ہر وقت ”ڈنڈ بیٹھکیں” لگاتے رہتے ہیں ۔مولانا صاحب یہ سنہری موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
دروغ بَر گردنِ راوی محترمہ شیریں مزاری نے تو صاف کہہ دیا کہ ”چھَڈ خواجہ! مخول نہ کر” ۔اُنہوں نے خواجہ آصف صاحب کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب کو اپنی وزارت سنبھالنی چاہیے اور پرائے پھَڈے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرنا چاہیے۔ محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کا فرمان بالکل بجا ہے کیونکہ تحریکِ انصاف پہلے ہی بوکھلائی ہوئی ہے ، KPK کے معاملات سنبھالے نہیں سنبھل رہے، ڈرون حملے بند نہیں ہو رہے اور نیٹو سپلائی کی بندش کے دھرنوںنے ”سونامیوں” کو مضمحل کر دیا ہے ۔اُدھر لاہور کے احتجاج میں بھی وہ مزہ نہیں آیا جو تحریکِ انصاف کے جلسوں میں آیا کرتا ہے اِس لیے محترمہ شیریں مزاری نے اگر کہا توسچ کہا کہ
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری، راہ لگ اپنی تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
محترم جہانگیر ترین فرماتے ہیں کہ مرکزی حکومت KPK سے پونے پانچ روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدتی ہے اور پھر مہنگے داموں KPK حکومت کو فروخت کرتی ہے۔ اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ بھی بالکل سچ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے کے باوجود مرکزی حکومت سارا ”ریوینیو” اکٹھا کر پاتی ہے؟ خواجہ آصف صاحب جو اعداد و شمار بتاتے ہیں اُس کے مطابق تو مہنگے داموں بجلی فروخت کرنے کے باوجود بھی سودا گھاٹے کا ہی ہے۔اب جب کہ خواجہ آصف صاحب نے KPK حکومت کو ”پیسکو” کا چارج سنبھالنے کا عندیہ دے دیا ہے تو اب خیبرپختونخواہ حکومت کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔