تحریر؛ اسلم انجم قریشی ایسی نفرت کس کام کی جو انسان کو اندھا کردے یہی حال اس شخص کا ہورہا ہے جو کوئی لمحہ بھی اس کی نفرت میں ضائع نہیں کرتا ہم کافی وقت سے دیکھ رہے ہیں یہ شخص اخلاقیات تو درکنار مغلظات اس کا وطیرہ رہا جس پر لوگوں نے انہیں ہمیشہ تنقید کا نشانہ بھی بنایا بلکہ بنانتے رہتے ہیں۔
یہ شخص پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو نوازشریف کی نفرت میں اس قدر اندھا ہوگیا ہے کہ جسے کچھ بھی دیکھائی نہیں دیتا جو دل میں آئے کہہ دیتا ہے اور دعوے تو اتنے کرتے ہیں موصوف کہ انتخابات سے قبل ہی وہ ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے لیکن ایک صاحب جسے رانا ثناء اللہ کہتے ہیں وہ ان کو ایسے الفاظ سے نوازتے ہیں کہ عمران خان کے بجائے پاگل خان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن ہم انہیں محترم عمران خان ہی کہیں گے اس لیے ہم غیر مہذب انداز اپنانے کا تصور بھی نہیں کرتے میں ان صاحب کی نواز شریف سے نفرت کے حوالے بات کر رہاہوں کہ یہ شخص کس طرح اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے نواز شریف کی حکومت کے خلاف ہر قسم کے حربے استعمال کئے مگر یہ شخص ناکام رہا آپ کو یاد ہوگا عمران خان جس نے ایک طویل دھرنا دیا اور اس دھرنے میں جو باتیں کیں کیا اس پر یہ پورا اُترا یہ کہتا تھا تبدیلی آنہیں رہی تبدیل آگئی جبکہ کوئی تبدیلی نہیں آئی اگر تبدیل آئی ہے تو نفرت کی سیاست پراوان چڑھائی ہے اس شخص نے اخلاقیات کاجنازہ نکال دیا کہتا ہے میں شادی تب کروں گا جب نیا پاکستان بنے گا لیکن نیا پاکستان تو بنا نہیں ہاں البتہ شادی کرلی اور وہ بھی ادھوری اب پھر ان صاحب نے تیسری شادی پیرنی کے ساتھ رچالی جس پر ایک شخص کہتا ہے یہ اپنی بیویاں تو سنبھال نہیں سکتا کیا حکومت سنبھالے گا۔
عمران خان یہ بھی کہتے ہیں قبل ازوقت انتخابات نہیں کرائے گئے تو ملک خانہ جنگی کی طرف چلاجائے گادیکھ رہے ہیںیہ دعویٰ بھی اس کا غلط ثابت ہوا وہ اپنے دھرنوں میں کہتا رہا ایمپائر کی اُنگلی اُٹھنے والی حکومت ختم ہونے والی ہے اور بہت کچھ کہا لیکن ایسا پھر بھی کچھ نہ ہوا یہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے حربے ہیں جو یہ اپنا رہے ہیں میرے نذدیک یہ دونوں شخص سیاست دان نہیں یہ صرف اپنے اپنے فن کے ماہر ہیں یوں سمجھ لیں عمران خان اسپورٹس مین کھیل سے وابسطہ اور دوسرا نواز شریف جو بزنس مین ہے ان دونوں نے سیاست میں صرف بھنگڑا ڈالا ہوا ہے جس کا ثبوت پہلے نواز شریف اگر یہ سیاست دان ہوتا تو اس کو ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس طرح یہ ڈھنڈورا پیٹ رہا کہ مجھے کیوں نکالا جب کہ یہ جانتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا جبکہ آج کا بچہ پیدا ہونے والا وہ سب کچھ ماں کے پیٹ سے سیکھ کر اس دنیا میں آرہا رہے لیکن موصو ف صاحب نے وہی راگ اپنایاہوا ہیاور اس طرح سیاست میں بھنگڑا ڈالا ہوا ہے۔
عوام غور کرے کیا یہ سیاست ہے دوسرے جناب عمران جنہوں نے سیاست میں گند اس طرح پھیلادیا کہ ایمپائر کی انگلی اُٹھنے والی وہ وکٹ گرادوں گا اس طرح پوری سیاست کے ماحول میں کرکٹ کرکٹ کا تذکرہ رہتا ہے کیا یہ سیاست ہے لعنت ہے ایسی سیاست پر جو یہ کر رہے ہیں ہم ان کی بیہودہ گندی سیاست کو نہیں ما نتے نہیں مانتے ان کی نفرت بھری سیاست پر جنہیں سیاسی رہنما کہنا بھی اصولی سیاست کی توہین ہوگی اس پر معروف کالم نگار ہارون رشید جو ایک عرصے سے اس اسپورٹس مین کو سیاست کی اصولی الف ب سمجھاتے رہے لیکن ان کے عقل میں تب آتی جب یہ سیاست کی حقیقت کو سمجھتے ۔لیکن اب ہارون رشید صاحب کسی دانائی بندے پر اپنی توانائی خرچ کریں تو سیاست کا مقصد سامنے آئے گا کہ سیاست کن اصولوں کانام ہے۔
تازہ بات آپ ان دونوں حضرات کے لیے ایک ایسے انداز سے لکھتے ہیں اگر انہیں ذرہ بھر بھی عقل سلیم ہے اور اصولی صاف ستھری سیاست کرنے کے لیے اور اپنے آپ کے گریبان میں جھانکے کے بعد یہ ا حساس ہوگیا ہے کہ آئندہ رہنما اصولوں کے مطابق سیاست کرنی ہے تو پوراپورا سیاست کرنے کا حق موجود ہے لیکن بھنگڑا نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔ ہارون رشید اپنے کالم میں لکتے ہیں کیا عمران کی ساتھ بھی وہی ہوگا جو فروری 1997ء کا الیکشن جیتنے کے بعد نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا جس میں پہلے ہی اجلاس کے دوران اپنی کچن کیبنٹ سے پوچھا تھا ہُن کی کریے یعنی اب کیا کریں آپ تاج محل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ تاج محل اگر آج تعمیر کیا جائے تو دس بلین ڈالر اٹھیں گے۔ اس کے باوجود ایسی دل آویز عمارت نہ بن سکے گی۔ کوئی شاہکار تعمیر کرنے کے لیے جس مہارت، لگن اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہاں سے آئے گا ۔ اقبال نے کہا تھا معزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود قوموں کی تعمیر و تشکیل، معاشروں کی اخلاقی اور علمی تربیت ان کے سماجی ادارے لاکھوں بستیوں کے لیے دفاع امن وامان اور نظام عدل کا قیام ریاضت کیشی اور ایسی جگر کاوی چاپتا ہے جس میں سب دوسری چیزیں ثانوی ہوجاتی ہیں۔
آدمی اپنی ترجیحات کا اسیر ہوتا ہے اپنے اعلیٰ ترین مقصد کو نسبتاً ادنیٰ چیزوں پہ کبھی قربان نہیں کرتا پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے ایک ایسے شہ دماغ نے اس کا خواب دیکھا تاریخ انسانی جس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال پیش کرسکے وہ ایک شاعر تھا مگر ایک عظیم سیاسی مفکر اور ایک بے پناہ فلسفی بھی کوئی دوسرا شاعر کبھی نہیں تھا جس نے اپنے معاشرے کو اس قدر بدل دالا ہو جتنا کہ اقبال نے آپ نے یوں تو بہت کچھ لکھا تاہم مختصر یہ کہ کوئی افلاس سا افلاس ہے کوئی غربت سی غربت ہے بائیس کرور کے ملک میں ایک ایسا آدمی نظر نہیں آتا جسے ملک سوپنا جاسکے سچی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف سے زیادہ عمران خان پر خون کھولتا ہے ۔ نواز شریف کی تربیت ہی ایسی تھی ۔ دھن دولت کے انبار جمع کرنے اور جنرلوں کے سائے میں ایک سیاسی مافیا تشکیل دینے کے بعد کھوکھلا آدمی دیوتا بننے کے خواب نہ دیکھتا تو اور کیا کرتا افوس کہ عمران خان نے بھی یہی کیا ۔ نرگیست کی بیماری غلامی کے مارے معاشروں میں نمایاں ہونے کے آرزومندوں کو جو چھوت کی طرح لگتی ہے پورے چار برس سابق کپتان نے افرا تفری اور اس کی تیایوں میں ضائع کر دیے۔
غیظ و غضب کا طوفان اپنے حریفوں کی تذلیل اور انہیں پامال کرنے کا ولولہ چار برس میں کم از کم دس لاکھ مرتبہ اس نے ہمیں بتانے کی کوشش کی ہوگی کہ نواز شریف ایک ٹھگ ہے مملکت میں تمام خرابیوں کی بنیاد بہت لوگ اس سے اتفاق کرتے ہیں اقتدار سوپنے پر اسے آمادہ ہیں سوال یہ ہے کہ حکومت مل گئی تو وہ کیا کرے گا فرسٹ کلاس کرکٹ کا ایک میچ بھی تیاری کے بغیر نہیں کھیلا جاتا ہارون رشید صا حب نے تو سابق کپتان عمران خان کو عجیب کپتان قراردیدیا صد افسوس اس سے ظاہر ہوا یہ شخص نواز شریف کی نفرت میں اندھا ہوگیا ہے ایک اور اندھا پن کا ثبوت عمران خان کہتا ہے کہ سپریم کورٹ کو پاناما کیس میں جھوٹ بولنے پر نواز شریف کو سیدھا جیل میں ڈالنا چاہیے تھا لیکن اقامہ پر نااہل کرکے سابق وزیر اعظم کو سڑکوں پر نکلنے کاموقع دیا مگر موصوف بھائی آپ بھی اپنی باتوں پر غور کریں کیا آپ نے بھی جھوٹ اور سچ بولا ہے اگر جھوٹ بولا ہے تو آپ بھی نواز شریف کے ساتھ جیل جانے کو تیار ہوجائیں اب عوام اندازہ لگائیں یہ شخص کس قدر نواز شریف کی نفرت میں اندھا ہوگیا ہے کہ یہ بھی جھوٹ بولنے پر جیل جائے گا اگر نواز شریف گیا تو شاعر کہتا ہے۔۔۔۔۔
کچھ نظر نہیں آتا اس کے تصور کے سوا حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا