پی ڈی ایم کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

PDM

PDM

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پی ڈی ایم نے خان حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کے دوسرے مر حلے میں اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مریم نواز اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندہ اب این آر او مانگ رہا ہے۔

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے اس جلسے میں شرکت کے لیے اتوار کے روز پنجاب کے مختلف شہروں سے لوگ قافلوں کی صورت میں لاہور پہنچے تھے۔ جلسے کے بہت سے شرکا اپنے ہاتھوں میں اپنی اپنی پارٹیوں کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور وہ وقفے وقفے سے حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔

جلسے سے خطاب کے دوران احتجاج کے دوسرے مرحلے کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اب جنوری کے آخر میں یا فروری کے اوائل میں پوری قوم اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کرے گی،”ہم ارکان پارلیمنٹ کے استعفے ساتھ لے کر جائیں گے، ہم ایسی پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس پارلیمنٹ کے ذریعے سے ناجائز حکومت کو چلنے دیں گے‘‘۔

پی ڈی ایم کے سربراہ کے بقول اگر ملک میں ناجائز طور پر لائی گئی ناجائز حکومت مسلط رہی تو پھر اس سے عوامی غصے اور ناراضگی میں اضافہ ہو گا۔ اور انہیں خطرہ ہے کہ کہیں ملک میں ایسی صورتحال نہ پیدا ہو جائے، جس میں اسٹیبلشمنٹ اور عوام آمنے سامنے آ جائیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کے راستے سے ہٹ جائے اور انہیں اسلام آباد آنے دیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے اور پی ڈی ایم کے دھرنے میں بہت فرق ہے، ”وہ دھرنا کسی نے کرایا تھا اور دھرنا دینے والوں کو حکومت میں بھی کوئی اور لے کر آیا تھا۔ وہ دھرنا جن انتخابات کے نتائج کے خلاف دیا گیا ان انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر غیرجانبدار تھا اور آر ٹی ایس بھی بند نہیں ہوا تھا۔ وہ دھرنا دینے والے تو صرف چند حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ‘‘

مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ کی حکمرانی، آزادانہ الیکشن کے لیے اصلاحات اور عوام کے جمہوری حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ صوبوں کے حقوق، آزادی رائے اور میڈیا کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے اور اٹھارہویں ترمیم اور مقامی حکومتوں کے نظام کے تحفظ کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بندہ اب این آر او مانگ رہا ہے لیکن نواز شریف قوم کی روٹی چوری کرنے والے کو این آر او نہیں دے گا۔ مریم نواز نے اس موقع پر عمران خان کی مختلف تقاریر اور پروگراموں کی ویڈیو کلپس چلائیں، جس میں وہ نواز شریف کی تعریف کر رہے تھے کہ انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین فراہم کی اور جمہوریت کے لیے اپوزیشن کو متحد کیا۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی میزبانی میں ہونے والے اس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ نظام کو بدلنا ہو گا اور اسے بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دور حکومت کی کامیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

نواز شریف نے کہا کہ ملک کے حالات بری طرح خراب ہو چکے ہیں لیکن عوام کس سے پوچھیں کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے۔ ان کے مطابق حالات کی خرابی کے ذمہ دار اکیلے عمران خان نہیں بلکہ اس کے ذمہ دار وہ بھی ہیں جو ووٹ چوری کر کے انہیں لے کر آئے ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بات چیت کا وقت اب گزر چکا ہے، اب لانگ مارچ ہو گا، ”ہم اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، ہم سے رابطہ کرنا بند کیا جائے۔ مہنگائی کے مارے لوگ ہمارے دست و بازو بن گئے ہیں، جب عوام تحریک کا اس حد تک ساتھ دیتے ہیں تو ظلم کی زنجیریں کٹ جاتی ہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی جیت جلد ہونے والی ہے۔‘‘

حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے جاری کیے گئے خطرے کے الرٹ کے پیش نظر پی ڈی ایم کو جلسہ مؤخر کرنے کا متعدد مرتبہ کہا گیا تھا۔ متعدد حکومتی وزرا نے اپنے بیانات میں اس جلسے کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنے دعوؤں کے مطابق اس جلسے میں لوگوں کی بھرپور تعداد لانے میں ناکام رہا ہے۔ ان کے مطابق عوام نے اپوزیشن کے بیانیے کا ساتھ نہیں دیا اور اس سے اپوزیشن کی مقبولیت کا پول بھی عیاں ہو گیا ہے۔

یاد رہے، اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب پاکستان میں کئی تجزیہ نگار اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں در پردہ ہونے والی بات چیت کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے حزب اختلاف کی جماعتوں کے گیارہ رکنی پی ڈی ایم کی طرف سے گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں بھی بڑے جلسے منعقد کیے گئے تھے۔ لاہور کے اس جلسے کے ساتھ ہی عمران حکومت کے خاتمے کے لیے شروع کی جانے والے پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔