آسیہ ملعونہ کی قید سے رہائی کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ملک میں دینی جماعتوں نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے بھر پور ملک گیر احتجاج کیا تھا ۔ حکومت نے دانشمندی سے دینی جماعتوں سے مذاکرات اور معاہدہ کر کے ملک میں امن و امان بحال کر دیا۔ملک کے بہی خواہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ احتجاج کے دوران ملک میں احتجاج کی آڑ میںکچھ شرپسندوں نے توڑ پھوڑ کی ۔جس سے پاکستان کے عوام اور ملکی املاک کو نقصان پہنچا۔ جو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اس پر دینی حلقوں نے بھی ناپسندیدگی اظہار کیا۔سپریم کورٹ نے نقصانات کا جائزہ لے کر حکومت کو عوام کے نقصانات کی تلافی کا بھی حکم جاری کیا۔
حسب معمول اس سال بھی ملک میں ربیع اول کے مہینے میں سیرتۖ کے پروگرام ساری دینی جماعتیں پر امن طریقے سے کر رہی ہیں۔تحریک لبیک سے معاہدہ پر عمل درآمند میں اختلافات کے وجہ سے جماعت نے ٢٥ تاریخ کو پھر سے احتجاج کی کال دے دی تھی۔ پہلے کے احتجاج کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اورملک میںامن امان کی خاطر اس جماعت کے سربراہ کو حکومت نے حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ اُسی دن سے ملک بھر میں دینی جماعت کے کارکنوں کی بھی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے۔ بے شک جدید جمہوری حکومتوں میں عوام کو پر امن طریقے سے اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دے ہوئی ہے۔ ہمارے آئین بھی اس اظہار کی آزادی ہے۔ مگراس حق کو استعمال کرتے ہوئے عوام اور ان کے نمایندوں کو اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ ان کا احتجاج پر امن ہو۔ عوام اور ملکی املاک کو نقصان نہ پہنچے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی کو بھی آزادی نہیں کہ ذبردستی راستے بلاک کر کے یا ملک میںافراتفری پھیلا کر ملک کے نظام کو مفلوج کر دے۔ موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے بے سکونی کی کیفیت ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے چند دن پہلے بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں اپنے کلیدی خطاب میں ملک کے مذہبی اسکالر سے درخواست کی تھی کہ ملک کے عوام کی تربیت کریں کہ کسی بھی معاملہ پر احتجاج کریں تو اسے پر امن طور پر کیا جائے۔ جب غیرممالک جب دیکھتے ہیں کہ احتجاج کے دوران پاکستان کے لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کرتے ہیںجو چیز سامنے آتی ہے اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔ پھرغیر ممالک پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان انتہا پسند اورمتشدد ہیں۔ان میں برداشت نہیں۔ اس سے ملک کے امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔
صاحبو١پاکستان کو دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کی سی کیفیت پیدا کی ہوئی ہے۔ بھارت پاکستان کو اشتعال دلانے کے لیے کشمیر کی باڈر پر بلا جواز فائرنگ کر کے بے گناہ سرحدی مسلمانو ں کو شہید کرتا رہتا ہے۔ کشمیر کنٹرول لائن کی بھارتی سائڈ پر مسلمان آبادی کا خیال کرتے ہوئے ہماری فورسز بھارتی بنکرز پر فائرنگ کر کے اپنے شہیدوں کا بدلہ لیتے ہیں اور بھارتی فوجیوں کو جہنم رسید کرتے رہتے ہیں۔ بھارت سفارتی محاذ پر چانکیہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر پاکستان سے ازلی دشمنی نباتے ہوئے ہمارے پڑوسی مسلمان ملکوں کو ہمارے خلاف کر لیا ہے۔ بھارت ہمارے ملک میں اعلانیہ دہشت گردی کر رہا ہے۔ کراچی میں چین کے کونصل خانہ پر دہشت گرد خود کش حملہ اسی کی پلائنگ سے ہوا۔ بلوچستان کے باغی بلوچوں کوبھارت میں پناہ دی ہوئی ہے۔ آئے دن افغانستان سے بھارت کی شہ پر پاکستان کے اندر دہشگردانہ کاروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے فاٹا میںدہشت گردی ہوئی ہے۔
ہمارے ایک پولیس آفیسر کو اسلام آباد سے اغواہ کر کے افغانستان پہنچایا گیا اور وہاں اس کو قتل کر دیا گیا۔ بین الاقوامی اصولوں کی سرے عام خلاف وردی کرتے ہوئے لاش حکومت پاکستان کے نمایندوں کے حوالے کرنے کے بجائے علیحدیگی پسند ،قوم پرست تنظیم کے کارکنوں کے حوالے کی گئی۔ یہ قوم پرست تنظیم بھارت کی شہ پر پاکستان میں نام نہاد حقوق کی تحریک جاری کیے ہوئے ہے۔بھارت میں اس کی اپنی غلط پالیسوں کی وجہ سے کوئی دہشت گردی کا واقع ہو جاتا ہے تو اسے بغیر تحقیق کے فوراً پاکستان کے سر دھوپ دیتا ہے۔ ممبئی حملے کے متعلق بھی دنیا میں کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں کہ بھارت کی خود ترتیب دی ہوئی دہشت گردی تھی۔ مگر بھارت نے اسے پاکستان کے خلاف گیرا تنگ کرتے ہوئے اسے پاکستان کے سر تھونپ دیا۔ ابھی کل ہی اخبارات نے خبریں شائع کی ہیں کہ اجمل قصاب بھارت کا شہری ہے۔ بھارت اسے پاکستان کا شہری ظاہر کرممبئی ہوٹل حملے میں جعلی طور پر ملوث کر کے پھانسی پر چڑھا چکا ہے۔
آج کل دہلی کی دیواروں بھارت حکومت کی طرف سے دو پاکستانی طالب علموں کے فوٹوں کے ساتھ پوسٹر لگا کر بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہا کہ یہ دو دہشت گرد پاکستان سے بھارت میں داخل ہو چکے ہیں۔ بھارتی عوام ہوشیار ہو جائیں۔ بھارتی میڈیا نے بھی اسے خوب اُچھالا۔ جبکہ یہ دونوںطالب علم پاکستان کے شہر فیصل آباد میں موجود ہیں۔ مدرسہ کے مہتمم نے پریس کانفرنس میں ان کوبیٹھا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ در اصل یہ کراچی میں چین کے کونصل خانے پر بھارتی دہشت گردی سے دنیا کی نظریں ہٹانے کی بھونڈی کو شش ہے۔
ان حالات میں پاکستان میں مکمل امن کی ضرورت ہے۔حکومت اور احتجاج کرنے والے صاحبان حوش کے ناخن لیں۔ ملک کی دینی سیاسی پارٹیوں کو آسیہ معلونہ کی رہائی کو بھی ملک کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے افہام وتفہم سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ملک میں لا اینڈ آڈر کا مسئلہ نہ بننا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں آسیہ ملعونہ کا مسئلہ ،پاکستان بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے دین و ایمان کا حساس معاملہ ہے۔ مغرب ایک سازش کے تحت اسے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو احتیاط برتنی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ اپنے وزیروں کو بھی کنٹرول میں رکھے۔ ان کے وزیروں کے اشتعال انگیز بیانات جب میڈیا میں آتے ہیں تو ہر پاکستانی سوچتا ہے کہ یہ بیانات ملک میں امن و امان خراب کرنے کے موجب بنتے ہیں۔عمران خاں کو چاہیے کہ وہ وزیروں کو اشعال انگیز بیانات دینے سے روکے۔پاکستانی عوام اپنی سپریم کورٹ کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔ مگرآسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلہ سے عوام سپریم کورٹ کے بھی خلاف ہو گئے ہیں۔ اس نازک موقعہ پر دونوں طرف سے صبر و تحمل کے مظاہرے ضرورت ہے۔
دینی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میںنہ لیں۔عوام کو پر امن رہنے کی تلقین کریں۔ سپریم کورٹ کو لارجر بینچ کے بجائے فل کورٹ یعنی سپریم کورٹ کے سترہ کے سترہ جج صاحبان پر مشتمل بینچ بنا کر درج شدہ ریویو اپیل کو سننا چاہیے۔ ملک کی دینی سکالر اور ساری دینی پارٹیوں کے سربراہوں یا ان کے نمائندوں کو عدالت کی معاونت کے لیے طلب کرناچاہیے ۔ عوام کو چاہیے کہ اس بڑی عدالت سے جو بھی فیصلہ آیا اس کو من و عن تسلیم کریں۔ اس میںہی ملک کی بہتری ہے۔ حکومت پر یہ ذمہ داوری ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرے۔ عمران خان وزیر عظم صاحب کوچاہیے کہ وہ اپنے اختیار استعمال کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو انتشار سے بچائیں۔ اللہ مثل مدینہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔آمین۔