عمران خان کے مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں چلنا موضوع ہے ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق اظہار خیال کر رہا ہے۔عمران کا کمال یہ ہے کہ جوتا پہن لے تو کپتان چپل کی مانگ پوری نہیں ہوتی اور آج ثابت ہوا کہ وہ اتار لے تو پھر بھی شور مچ جاتا ہے۔اتنا شور تو جامعہ معیمیہ میں ہونے والے واقعے پر نہیں ہوا تھا۔وہ آج ایک پراؤیٹ جیٹ میں مدینہ گئے ہیں۔مجھے کل ہی مدینہ کے نامور صحافی اور پاکستانی جہانزیب منہاس نے بتا دیا تھا کہ عمران خان ایک خاص طیارے میں پہنچنے والے ہیں اور مزے کی بات ہے اس کے کپتان بھی منہاس کے کزن تھے۔خان اترے تو ننگے پاؤں تھے۔اس بات پر انہیں بہت سراہا گیا۔سب نے ڈھیروں تعریفیں کیں۔ جیٹ پر بھی اک ہنگامہ مچا ہے یعنی پھجے کے پائے ہیلی سے منگواؤ ترکی سے کباب بنانے والے کو چارٹر طیارے پر حکومتی خرچ پر بلاؤتو کوئی بات نہیں۔
مدینہ منورہ جگہ ہی ایسی ہے کہ اللہ کے خاص بندے اس ڈر سے جوتے والے پاؤں نہیں رکھتے کہ کہیں میرے نبیﷺ کا پاؤں یہاں نہ پڑا ہو۔عمران خان کی اللہ کے رسول سے عقیدت کا معاملہ اللہ جانتا ہے ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ بیگم پنکی کا مشورہ وہ گا۔یہ تو اور کمال کی بات ہے کہ عمران خان کو کم از ایسی خاتون تو ملی جس نے اسے آداب مدینہ سکھا دئے۔امام مالک بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے۔بی سی سی آئی ایک نامی گرامی بینک تھا جس نے امریکی معیشت کوگرفت میں لے لیا تھا اسی کی دہائی میں اس بینک کا قلع قمع کیا گیا الزام یہ تھا کہ کہ اس بینک نے فلسطینی تحریک آزادی کے ابو ندال گروپ کو پیسہ فراہم کیا ہے۔اس بینک کے روح رواں آغا حسن عابدی تھے۔میرے مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ان سے ملاقات ہوئی۔وہ ننگے پاؤں تو نہ تھے البتہ ایک قینچی چپل تھی جس کا ایک پاؤں دوسرے سے ملتا نہ تھا۔پاؤں زخمی تھے۔مجھے کہنے لگے پاکستان چائے پینی ہے۔میں انہیں اسلام آباد ہوٹل لے گیا یہ باب مجیدی کے پاس تنگ گلیوں میں تھا جسے کہوٹہ کے قیوم قریشی اور ندیم قریشی چلاتے تھے۔جب ان سے پوچھا کہ کوئی ڈھنگ کا جوتا لے دوں تو کہنے لگے جی تو چاہتا تھا کہ یہ آٹھ دن ننگے پاؤں رہتا مگر ایک دن کے بعد ہی پاؤں زخمی ہو گئے ہیں۔یہ وہ آغا حسن عابدی تھے جو دس طیارے خرید سکتے تھے۔
عمران خان تو کرائے پر گئے ہیں۔مجھے یہاں چیئرمین تحریک انصاف کا دفاع نہیں کرنا۔ہوتا یوں ہے کہ جب کبھی کوئی بات ہوتی ہے مجھے اپنی متحرک شمع زندگانی کے وہ مہہ و سال یاد آ جاتے ہیں۔جو بات ہو رہی ہوں دماغ کے کسی کونے میں ایسی ہی کوئی بات یاد آئے تو جی چاہتا ہے اسے بتایا جائے۔چھوٹے تھے تو والد صاحب کی ٹانگیں دباتے ہوئے ان کی کہانیاں سنتے تھے۔کیا زمانہ تھا ایک ٹانگ میرے پاس دوسری بھائی جان امتیاز کے پاس۔چاچا جی گپیں سناتے اور ہم ان کی پنیاں دباتے۔اسی کام کے دوران ان کے خراٹے بلند ہوتے تو آہستہ سے داونوں سے اتر جایا کرتے۔اب کہانیاں سنانے کا دور گیا۔اللہ کا لاکھ شکر ہے یہ اخبار ہے جس پر چا چا اپنی کہانی لکھتا ہے اور لوگ سر دھنتے ہیں۔لفظ لکھوں تو زمانہ میرے درشن مانگے۔بات کر رہا تھا عمران خان کے ننگے پاؤں اترنے کی اس کے پیچھے یقینا ان کی وہ مزہبی رحجان رکھنے والی بیوی کی بات ہوئی ہے شکر ہے خدا کا کہ تیسری بیوی مذہبی ہے اور اس نے اپنے خاوند کو اس طرف لگا لیا ہے۔یوں تو ریحام خان بھی ان کے ساتھ گئیں مگر یہ سفر مذہبی عقیدت کے رنگوں میں رنگا ہے۔تصویر میں ایک میری عمر کا شخص بھی ہے جس کا نام ذوالقرنین علی خان ہے۔اس سے بڑی دوستی ہے کمال کا بندہ ہے ایک کامیاب بزنس مین اور انتہائی تیز و طرار۔ابھی انہوں نے ایک افطار ڈنر دیا جس میں شوکت خانم کے لئے فنڈ اکٹھا کیا گیا۔
شکیل افتخار بھی ادھر تھا یہ میرا بیٹا خان لور ہے اور بچپن سے پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ویسے تو نوید اور نبیل بھی اس کام میں جتے ہوئے ہیں یہ پردیسی بچے شکیل اور دلدار جدہ میں سر گرم ہیں۔ زوالقرنین کی پی ٹی آئی کے اور کمیونٹی کے لئے ان کی خدمات کی تعریف نہ کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ہمارا دوست گل حمید بھی ارض حرمین پر موجود ہے سلامت باشد۔خان نے جرابیں پہن رکھی ہیں اور لوگ ان کے پاؤں کو سرکل کر کے بتا رہے ہیں کہ ہمارا لیڈر مدینے کیسے پہنچا انہیں روئف کلاسرہ کے تبصروں کی پروا نہیں زلفی بخاری کا ای سی ایل میں ہونا اور نہ ہونا اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ہم نے کب کہا ہے کہ عمران خان فرشتہ ہے یا اس کے ساتھی زم زم سے دھلے ہیں انسان ہیں غلطیوں سے لبریز ہیں۔البتہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ جہاز تین گھنٹے اس لئے رکا کہ عمران خان انہیں ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں بات وہی فاروق بندیال والی ہے کہ موصوف۔ڈاکہ زنی اور جھرنا سے بد سلوکی کے بعد بیس سال نون میں رہے اور پی ٹی آئی میں چھ گھنٹے نہیں گزار سکے۔کسی نے سچ کہا ہے کالی بھیڑوں کے اندر کالی بھیڑ برسوں پہچانی نہیں جاتی البتہ وہ اگر سفید بھڑوں کے ریوڑ میں آ جائے تو فورا پکڑی جاتی ہے۔میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کالی بھیڑ ون کا ریوڑ کون سا ہے اور سفید کا کون سا یہ میرے قارئین جانتے ہیں۔عمران خان کے پاس وہ ٹیم ہے جو نون سے بڑھ کر خود احتسابی کرتی ہے۔لوگ کہتے ہیں عمران خان نے کیسے لوگ تیار کئے ہیں جو اس پر ہی برس پڑتے ہیں۔
گجروں کی دلیری اور بہادری کے قصے بیان کیا کرتا ہوں کہتے ہیں ایک بار چودھری اختر علی وریو جو جگا گجر کے نام سے بھی جانے جاتے تھے جگا لاہور والے نہیں سیالکوٹ میں ان کا راج تھا خود ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین بھائی ایم این اے بیٹا اسمبلی میں۔یہ بات انہوں نے مجھے خود سنائی کے ایک بار نواز شریف کو سیالکوٹ سے الیکشن لڑوا رہا تھا انہوں نے تقریر میں کہا کہ سنا ہے اختر صاحب گالیاں بہت دیتے ہیں۔وہ اٹھے مائیک ان کے ہاتھ سے لیا اور کہا یہ تو میرے ہیں میری گالایں سنتے کوئی فلاں مک کڈ کے تئے وخاوے۔میرا مطلب ہے خان غلط فیصلے کرے تو اس کی اپرٹی کے لوگ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کہ کوئیدوسرا اسے برا کہے۔مجھے ٹکٹ نہیں مل رہا دو حلقوں سے مانگ رہا ہوں ایک پر ملک ریاض آف بحریہ کا چہتا قبضہ کرنا چاہتا ہے دوسری سیٹ پر شیخ رشید کے انویسٹر۔دکھ تو بہے اس بات پر لوگ سیخ پاء ہیں ایک دوست نے جو معروف کالم نگار ہیں خبریں کے ایڈیٹوریل پیج کے بھی انچارج رہ چکے ہیں انہوں نے سخت الفاظ میں تنقید کی تو جواب دیا میرے یار نوں مندا نہ بولیں تئے میری پانویں جند کڈ لئے آج جی چاہتا ہے چا چا جی طرح آپ کو واقعہ سناؤں پھر افطاری کا وقت قریب ہے کالم ختم کر دوں گا۔ب
۵۲ جولائی ۷۷۹۱ کو سعودی عرب گیا تھا میری عمر بمشکل اکیس سال اور چند ماہ تھی۔میرا اپنا کوئی ٹھکانہ نہ تھا بس ایک ایڈریس تھا کہ کوئی کمپنی ہے جسے سٹریٹرز آف گوڈل منگ جانا جاتا ہے۔اس میں میرے ننھیالی رشتے دار کام کرتے تھے۔میں ان تک پہنچ گیا۔ایک کمرے میں آٹھ سے دس لوگ رہتے تھے قیامت کی گرمی اور پنکھا۔اللہ جنت بخشے بھائی گو ہر رحمن جن کے والد نے شاہ مقصود میں بستی بہادر آباد بنائی ہے وہ بھی ہمارے ساتھی تھے۔عید آ گئی پروگرام بنا کہ مدینہ جاتے ہیں ہم آخری روزے مدینہ پہنچے رات قیام ٹرک کی باڈی میں کیا کچھ لوگ ہینو ٹرک کے نیچے سو گئے۔اگلے دن صبح زیارت کی عید کا دن تھا روضہ رسولﷺ پر گڑا گڑا کے دعائیں کیں۔سب دوستوں نے طے کیا کہ ٹرک کے پاس اکٹھے ہوں واپسی پر جیسے ہی بیر علی کی چوکی کراس کی گوہر رحمن نے شور کر دیا روکو روکو۔ساتھی نے ایک پمپ پر ٹرک روکا گوہر رحمن حاجت روائی کے لئے بھگا بھاگا گیا واپس آیا تو اسے ٹھنڈے پسینے آئے ہوئے تھے پوچھا بھائی کیا ہوا کہنے لگا کل جب سے مدینے میں داخل ہوا تو میں نے اس شہر میں حاجت روائی نہیں کی۔سب کہنے لگے یار یہ کیا بات ہوئی یہاں دنیا رہتی ہے یہ کیا تماشہ ہے جواب دیا یار سب ہی رہتے ہیں مگر ہم تو مسافر آئے ہیں ان بیس بائیس گھنٹوں میں اتنا صبر تو کر سکتے ہیں۔گوہر رحمن اب اس دنیا میں نہیں ہے سوچتا ہوں اس کی سوچ غیر منطقی تھی لیکن کیا خیال تھا۔ مجھے نہ تو عمران خان میں کوئی ولی یا فرشتہ نظر آیا مگر وہ یہ کر تو سکتا تھا کہ اپنا جوتا اتار کر حاضری روضہ ء رسولﷺ دے اس نے کر دیا چاہے پیرنی نے کرایا چاہے کسی اور نے۔ لیکن اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو عقیدت سے مدینے میں ننگے پاؤں چلتے ہیں۔