تحریر : انجینئر افتخار چودھری پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین ایک چو مکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔انہیں حالیہ دنوں میں جو بڑی کامیابی ملی ہے وہ میاں نواز شریف کا سابق وزیر اعظم ہو جانا ہے۔یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو سر چڑھ کر بول رہی ہے۔کے پی کے میں این اے ٤ کے نتائج نے پارٹی کو حوصلہ دیا ہے۔گرچہ لاہور کے نتیجے بھی بھی کوئی دل شکن نہ تھے لیکن پشاور نے انصافینز کا دل مضبوط کر دیا ہے۔اس تگڑے دل کے ساتھ عمران خان سندھ جنوبی پنجاب شمالی پنجاب، اور ملک کے دوسرے حصوں میں کامیاب جلسے کر گئے ایسی جگہوں پر کامیابی ملی جو کبھی مخالف پارٹی کے گڑھ تھے،عمران خان کا سب سے بڑا شوق چیلینج قبول کرنا ہے۔
ایبٹ آباد کا جلسہ جسے عام لوگ رینٹ اے جلسہ کہہ رہے ہیں اس کا جواب وہ ٢٦ نومبر کو مانسہرہ دینے جا رہے ہیں مانسہرہ میں نواب صلاح الدین،اعظم سواتی اور نظریاتی کارکنوں کی ٹرائیکا سردار یوسف کے پیروں تلے سے زمین نکالنے جا رہے ہیں۔گجروں کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی جائین کر چکی ہے اور یہی اصل طاقت ہے جو سردار یوسف کو گزشتہ تین دہائیوں سے کامیابی دلا رہی تھی ۔ عمران خان نے پیپلز پارٹی کے قلعے میں جا کر للکارا اور عوام نے انہیں پذیرائی بخشی ۔سہون شریف جیسے علاقے میں جلسے کی کامیابی ایک بڑی کامیابی تھی۔ممتاز بھٹو کا پارٹی کو تحریک انصاف میں ضم کرنا ایک اور کامیابی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کراچی کے بے لگام گھوڑے کو کیسے قابو کرتی ہے۔وہاں پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کو جوڑنے کی کوشش ہوئی ۔سیاسی لوگ اسے پی ٹی آئی کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ کراچی پی ٹی آئی کے کسی تگڑے لیڈر کی تلاش میں ہےتو گویا یہ ملک اور یہ صوبہ صرف آٹھ لاکھ بچوں کے لئے ہے جو انگریزی بول کر بڑے ہو کر اس ملک پے راج کریں اور وہ بائیس لاکھ ہاتھ میں کٹورہ لے کر در در جائیں روٹی سالن اکٹھا کریں ۔بوٹی مولوی صاحب کی اور بقیہ مال بچوں گا۔ اس تصویر کو دیکھ کربڑی تکلیف ہو رہی ہے جس میں عمران خان جہانگیر ترین مولانا سمیح الحق کو ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہے تھے ۔بہت سوں کو تو رات کو نیند بھی نہیں آئی کے ایک یہودی کے داماد نے اللہ والے کے ساتھ ہاتھ کیوں ملا لیا ہے۔ پی ٹی آئی اور جمعیت العلمائے اسلام (س) کے اس اتحاد پر سیخ پاء ہونے کی وجوہات ،شریفاں بی بی کیس اور فیض آبادی دھرنے پر بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ مولانا سمیع الحق والے معاملے پر کچھ ہی دیر پہلے ایک دوست نے کہا جناب اس طرح تو طالبان کے ساتھی ہونے کے الزام کی تصدیق ہو جائے گی۔دوستوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو امداد دینا مناسب نہیں۔ہمارے ایک فاضل دوست نے مہینوں پہلے یہ سوال جناب نعیم الحق سے بھی کیا۔ اس روز پارٹی میٹینگ میں بھی اس موضوع پر بات ہوئی عمران خان کا موء قف بڑا واضح تھا ان کا کہنا تھا کہ ہم ٢٢ لاکھ بچوں کو اس ملک کا کار آمد شہری بنانا چاہتے ہیں۔ہمیں پولیو کے قطرے پلانے میں مولانا سمیع الحق کی مدد سے بڑا فائدہ پہنچا ہے ۔ہم علماء حق کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
ویسے بات بھی سچ ہے ایک اورموقع پر کہا لوگ تو مجھے ایک وقت میں طالبان کا ساتھی اور یہودی کا ایجینٹ بھی کہتے ہیں۔ان بائیس لاکھ بچوں کا کیا قصور ہے کہ ہم انہیں اس معاشرے کا بیکار جزو بنائیں انہیں قومی دھارے میں لائیں گے اور اللہ کرے گا بڑا ہو کر یہ سرکاری نوکریاں کریں گے دفتروں میں ان کے لئے ملازمتیں موجود ہوں گی۔ ایک دوست نے بات کی یہ بچے اسلامی تعلیمات سیکھیں گے اگر ساتھ میں انہیں دنیاوی تعلیم کمپیوٹر اور دیگر مضامین پڑھا دئے جائیں تو کیا حرج ہے۔اس روز آٹھ بجے وائس آف امریکہ نے بھی دعوت دی ہے کہ اس موضوع پر بات کی جائے یہی مو ء قف تھا وہاں اے این پی کے ارباب طاہر خان بھی موجود تھے۔پچھلے دنوں نمب باہروال مری گیا تھا بچوں کے دو گروہ کھیل رہے تھے مدرسے کے بچے الگ اور عام اسکول کے ان سے ہٹ کر۔فٹ بال دونوں کے ایک جیسے تھے لیکن کھیلنے والوں کے حلئے مختلف۔ یہ کوئی آسان مرحلہ نہیں ہے پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں میں اس پر بحث چھڑ گئی تھی جب ان مدارس کو فنڈز دینے کی بات کی گئی۔
دبائو تو دبائو ہوتا ہے مگر کمال کا جواب موجود تھا کہ کیا جب دنیاوی خدائوں کو روس کے خلاف جنگ کے لئے لوگ درکار تھے تو یہ لوگ سینے سے لگائے گئے اور اب یہ برے ہو گئے جب مقصد پورا ہو گیا تو اب ان کی ذات میں کیڑے نکالے جا رہے ہیں۔یہاں یہ بات لکھے دیتا ہوں ہم ان کی بات کرتے ہیں جوآئین پاکستان کے وفا دار لوگ ہیں ہم ان کی بات نہیں کرتے جو روپ تو علماء کا دھارے ہوئے ہیں اور وطن دشمن قوتوں کے آ لہ ء کار بنے ہوئے ہیں وہ لوگ جو سانحہ سولہ دسمبر کے ذمہ داران ہیں وہ ملک کے ہی نہیں انسانیت کے دشمن ہیں۔ہم کبھی بھی وطن دشمنوں کے ساتھ نہیں ہوں گے جو جو ہماری پاک فوج ہماری دھرتی کے معصوم لوگوں سے بر سر پیکار ہیں۔ایسے لوگ وطن کے بھی دشمن اور دین کے بھی غدار ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کا مدارس کے سر پر ہاتھ رکھنے کا یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا انہیں قومی دھارے میں لانے کی جو مثبت کوشش پی ٹی آئی نے کی ہے اسے ساری دنیا سراہے گی سوال صرف یہ ہے کہ دنیا کو سمجھایا جائے۔
وہ لوگ جو مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہتے رہے اور دھتکارتے رہے ان کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا اٹھنا بیٹھنا حیران کن ہے۔اس سے پہلے پیپلز پارٹی بھی یہ کوشش کر چکی ہے طالبان کے استاد جنرل نصیرا اللہ بابر تھے پھر مشرف دور میں انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے ١٠٠ ملین ڈالر صرف ہوئے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔پی ٹی ان مدارس کے بائیس لاکھ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائے گی علماء کی تنخواہیں، مساجد کی سولرائزیشن کر کے انہیں قریب لائے گی۔کتنا ہی اچھا ہو گا کہ ایک شخص اللہ کی کتاب کا بھی حافظ حدیث کو سینے میں سموئے انگریزی بولے اور ہمارے دفاتر میں موجود ہو۔یہ تجربہ سعودی عرب میں کامیاب ہو چکا ہے۔حفاظ قران بچے اب انجینئر اور ڈاکٹر بنے ہوئے قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس تنقید کا کوئی سر پیر نہیں ہے ایک جانب عمران خان کو یہودی ایجینٹ کہا جاتا ہے اور دوسری طرف طالبان خان۔ایں چہ بوالعجبی ایست۔ عمران خان دھرنے سے لے کر پانامہ چوروں کو پکڑنے تک کے سفر کی کامیابی کے بعد ایوان اعلی میں پہنچتے دکھائی دیتے ہیں۔انہیں کراچی سے ایک شہہ زور درکار ہے جو تحریک انصاف کے گھوڑے پر سوار ہو کر لسانیت پرستوں کو شکست دے سکے۔ دوسرا بلوچستان میں ابھی کام کی اشد ضرورت ہے۔
ادھر میاں نواز شریف اپنی اس ساکھ کو بحال کرنے میں سر گرم ہیں جو عدالتی فیصلے سے تباہ ہو کے رہ گئی ہے۔نا اہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کا بل پاس کرانا ان کی کامیابی ہے لیکن اس کامیابی کے لئے نوٹوں کی بوریوں کے منہ ترقیاتی فنڈز کی صورت میں کھولنے پڑے لیگی ایم این ایز بھی اپنا موڈ نوٹ دیکھ کر ہی بناتے ہیں۔ عمران خان نے سچ کہا ایسی جمہوریت پاکستان کے لئے باعث شرمندگی بن کے رہ گئی ہے۔دنیا ہم پر ہنسے گی کہ اس ملک کے پارلیمینٹرینز کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں جو عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔یہ سہارا وقتی طور پر تو ملا ہے لیکن کرپشن کی دلدل میں گوڈے گوڈے پھنسے ہوئے میاں نواز شریف اور ان کا پورا ٹبر نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ان کے پاس بے شمار آپشن تھے لیکن اقتتدار ایسی ظالم چیز ہے کہ اس میں قریبی رشتے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ہر بندے کا جی چاہتا ہے کہ وہ ترقی کرے شہباز شریف ایک مدت سے وزیر اعلی ہیں ان کا جی بھی چاہتا ہے کہ وہ وزیر اعظم بنیں لیکن حصار ذات کے قیدی لوگ اپنی پگڑی بھائی کی بجائے کسی اور کو دے دیں گے لیکن اسے شہباز شریف کو نہیں دیں گے۔
جڑواں شہروں کے شہری سخت تکلیف میں ہیں ۔تحریک لبیک کا دھرنہ لگتا ہے پی ٹی آئی کے دھرنے کا ریکارڈ توڑنے جا رہا ہے۔لوگوں کو شدید تکلیف ہے چالیس منٹ کا سفر تین گھنٹوں میں بدل چکا ہے لوگ سڑکوں پر دن کا بڑا حصہ گزار رہے ہیں۔اس میں دو نقطہ نظر ہیں لوگ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ان کا کہنا ہے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا اس سے پہلے حکومت کئی ایک وزراء کی چھٹی کرا چکی ہے وزیر قانون کو کیوں بچا رہی ہے۔کچھ کا کہنا ہے زاہد حامد تو کمبل چھوڑ رہے ہیں لیکن کمبل انہیں نہیں چھوڑ رہا۔ کچھ لوگ اب عمران خان کے دھرنے کو سیلوٹ پیش کر رہے ہیں کہ کم از کم عام لوگ تو تکلیف میں نہ تھے بہر حال معاملہ کسی کروٹ بیٹھتے نظر نہیں آتا۔ویسے حضرت مولانا خادم حسین کی گالیاں بھی موضع بحث ہیں۔سچ پوچھیں مجھے تو ان لوگوں کی بے حسی پر ندامت ہو رہی ہے کہ جن کی زبان تو کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی ہے جبہ و دستار عمامے بڑے شاندار ہیں لیکن ایک گالیاں نکالنے والے کی جگہ نہیں لیتے۔گالی دینا بری بات ہے لیکن ایک عام آدمی کی طرح مجھ جیسا شخص بھی تپ کر دشنام طرازی کر بیٹھا جب ایک ٹاک شو میں ایک نون لیگی نے جھوٹا الزام لگایا یہاں معاملہ ان بد بختوں کا ہے جو ختم نبوت پر ہاتھ ڈالنے نکلے تھے۔لیکن اللہ کے بندوں انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔اور جب انہیں گالیاں پڑتی ہیں تو وعظ پند اور نصیحتیں یاد آ جاتی ہیں۔کسی بھی قسم کی چڑھائی سیاسی حکومت کی موت میں بدل سکتی ہے۔شائد یہ سودہ موجودہ حکومت کو وارہ بھی کھاتا ہے۔حکومت پھنس چکی ہے نہ بگل سکتی ہے اور نہ ہی اگلنے کی پوزیشن میں ہے۔
پختونخوا میں در اصل سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کے مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کی دکانیں بند ہو گئیں ایک پختون ازم کے نام پر ہٹی کھولے بیٹھے تھے دوسرے اسلام کے نام پر۔ایسے میں ایک مردی جری اٹھا اور اس نے چھابڑیاں الٹ دیں۔ اور پاکستانیت کو زندہ کیا۔عمران خان کو ایک اور چیلینج کا بھی سامناہے ڈی آئی خان میں ہمیشہ خبروں میں رہنے والے علی امین گنڈا پور شریفاں بی بی کیس میں سرپرست ٹھہرائے جا رہے ہیں اس الزام کا نہ کوئی سر ہے اور نہ ہی پیر۔ایک انتہائی شرمناک واقعے میں ایک غریب خاتون کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کے کپڑے اتار کر بازار میں پھرایا گیا۔واقعے کی اطلاع ملتے ہیں پہلے چوبیس گھنٹوں میں نو میں سے سات اور اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں نو نامزد ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے ریکارڈ مدت میں چالان عدالت میں پیش کر دئے گئے ہیں۔منہ زور میڈیا ایک دم پولیس پر چڑھ دوڑا۔در اصل مخالفین کے پی کے پولیس کو دوسروں صوبوں کی پولیس جیسا بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں انہیں علم ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی مثالی پولیس کا کریڈٹ لیتے ہیں۔مثال خان کیس میں بھی میڈیا پی ٹی آئی پر چڑھ دوڑا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس آزادانہ فیصلے کرتی ہے ۔پولیس ایک زبردست پولیس بن کر سامنے آئی ہے۔پی ٹی آئی کے لوگ بھی بعض اوقات پولیس سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن عمران خان نے بواسطہ وزیر اعلی آئی جی پولیس سے کہہ رکھا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں چاہے کوئی بھی ہو اسے قانون کے مطابق ڈیل کریں۔شریفاں بی بی کا کیس ایک انتہائی اہم کیس ہے ۔اس بار مختاراں مائی کی طرح این جی اوز اپنے مقاصد میں کامیاب نظر نہیں آتیں۔خود ایک این جی او کی خاتون کا کہنا ہے کہ ڈی پی او اس کیس میں تعاون کر رہے ہیں۔
ایسے میں ایک منہ زور سماجی کارکن جن کا نام ریحام خان ہیں وہ بھی جلتی پر تیل ڈالنے وہاں گئیں مگر اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔علی امین گنڈا پور کو بدنام کرنے میں گھر کے ایک اور بھیدی رکن اسمبلی داوڑ کنڈی کا بھی ہاتھ ہے جسے مقامی لوگوں نے عائئشہ گلہ لئی کا مردانہ روپ قرار دیا ہے۔داوڑ کنڈی ایک عرصے سے پارٹی میں اپنے رویوں کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔گنڈا پور اور کنڈیوں میں ویسے بھی نہیں بنتیں۔علی امین نے مشرف دور میں ہتھیائی گئی زمینوں کو نام نہاد ملائوں اور مقامی قبضہ گروپوں سے چھڑوا کر حوالہ ء سرکار کیا ہے اور وہ عوامی سطح پر ایک مقبول لیڈر بن کر سامنے آئے ہیں۔لگتا ایسا ہے داوڑ کنڈی کو قومی اسمبلی کی سیٹ گنڈاپور کو جاتے دکھائی دیتی ہے اس لئے وہ اس قسم کا کیس ان پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔علی امین گنڈا پور کو سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے ایک دو کیسوں سے بچ نکلنا اپنی جگہ کوئی بھی کیس ان کی سیاسی زندگی کی سانسوں کی ڈور ختم کر سکتا ہے۔لمبے تڑنگے اور لمبی زلفوں والوں کو تو ویسے بھی زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔فیض آبادی دھرنہ،مولانا سمیع الحق اور شریفاں بی بی دیکھئے یہ تین اونٹ کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔اور عمران کس طرح اس چو مکھی لڑائی میں کامیاب ہوتے ہیں وقت کا انتظار کیجئے۔