تحریر : افتخار انجینئر افتخار چودھری عمران خان کی جلدی تو ایک عام آدمی کو بھی سمجھ آتی ہے کہ سیاست میں انہوں نے کوئی جانشین نہیں دیا شائد یہی وجہ ہے کہ اس خالی نشست کے لئے ان کے قریب ترین لوگ سر پھٹول کرتے نظر آتے ہیں بادی النظر میں تحریک انصاف کی موجودہ صورت حال کوئی اچھا تآثر نہیں دے رہی۔ایک اور بات جو پاکستان کے لوگوں نے عمران خان میں دیکھی تھی وہ ایک امید تھی کہ وہ روائتی سیاست سے الگ ایک نئی فکر کے ساتھ معاشرے کے اس طبقے کو کارزار سیاست میں لے آئے تھے جنہوں نے کبھی ووٹ ڈالا کیا اس کا اندراج تک نہیں کرایا تھا۔عمران کو وہ سب سے الگ دیکھنا چاہتے تھے۔جو صاف وشفاف دلیر انوکھا لاڈلا جس کی ہر بات میں انفرادیت کا عنصر غالب ہے۔ وہ اسے الگ کیوں دیکھنا چاہتے تھے اور ہیں اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں ۔سیاست دانونںسے مایوس لوگ جانتے تھے کہ ان کا ووٹ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا وہ الیکشن والے دن گھر میںبچوںکے ساتھ یا کسی تفریحی مقام پر نکلنا پسند کرتے تھے۔لیکن عمران خان نے ٢٠١٣ میں ان لوگوں کو مئی کی گرمی میں پولنگ اسٹیشنوں پرلا کھڑا کیا۔خلیج اور یورپ سے لوگ جوق در جوق ووٹ ڈالنے نکلے۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پولنگ اسٹیشنوں پر تجربے نے انہیں چاروں شانے چت کر دیا۔ووٹ پاک و پوتر لکڑی سے بنے بلے کا ایک وحشی جانور کے لئے نکلا۔لیپ ٹاپ پر دی گئی پریزینٹیشنز اس گرمی کے ہاتھوں مار کھا گئی۔کچھ لوگون کا خیال تھا کہ عمران اگر اس الیکشن میں صوبے یا شہروں کی حد تک جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرتے تو وہ جماعت کی تربیت یافتہ ٹیم کی مدد سے اپنا ووٹ بچا سکتے تھے۔کراچی کی حد تک تو کم از کم جماعت سے اتحاد فائدے مند رہتا۔شائد اس میں جماعت کی حد سے زیادہ خود پرستی آڑے آئی ہو مگر نتیجہ جب سامنے آیا تو کم از کم ان دو جماعتوں کو احساس ہو گیا ہو گا کہ بھلا اسی میں تھا کہ ایک دوسرے سے مل کر الیکشن لڑتے ۔خیر اب موجودہ صورت حال پی ٹی آئی کے کارکنوںکے لئے پریشان کن ہے کہ سولو فلائٹ کے طعنے سے بچنے کے لئے پیپلز پارٹی جیسی جماعت کے ساتھ تعاون کی بات کی جا رہی ہے۔بلاول زرداری کے حالیہ بیانات کوئی حتمی بیانات تھوڑے ہیں۔جب کرپشن کی بات کی جائے گی اور اس میں پیپلز پارٹی کو جانچا جائے گا تو کہنے دیجئے پھر لڑائی کسی کرپشن کے خلاف نہیں ہے بلکہ صرف نواز شریف کے خلاف ہے۔یہ مو ء قف وزن رکھتا ہے معروف صحافی مجیب شامی کا کہنا ہے اور بہت سے لوگ جن میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت بھی شامل ہے اس کی سوچ بھی یہی ہے۔ لوگ جب سوال کرتے ہیں تواس اعتراض کا جواب تحریک انصاف کے کارکن کے پاس نہیں ہوتا۔
Nawaz Sharif
لوگ پارٹی کی قیادت سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمیں بتایا جائے۔رہی بات ١٢٦ کے دھرنے اور اس میں اکیلے رہ جانے کی تو دوستو! ساری پارٹیوں کو جانچ لیجئے وہ اخلاقی معیار پر پورا اترتی تھیں؟کیا انہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے تھے؟۔دیکھئے عمران خان کو لوگوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے زیادہ عزت و احرام اس لئے دیا کہ وہ ایک صاف انسان ہے۔اور اس بات کا پرچار خود پی ٹی آئی کرتی ہے کہ لیڈر قوم بناتا ہے فیکٹریاں نہیں۔اس سلسلے میں نیلسن مینڈیلا مہاتیر کی مثالیںدی گئیں۔اور ان بیس سالوں میں عمران خان کا تصور عام سیاست دانوں سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔آپ اسے سولوفلائٹ نہیں کہہ سکتے۔لیکن ذرا اسمبلی کی صورت حال کا جائزہ لیں۔
ان میں کون سی ایسی پارٹی ہے جس کو دھرنے میں پی ٹی آئی نے دھرا نہیں تھا۔کیا زرداری ،ایم کیو ایم،اسفند یار ولی،محمود اچکزئی،مولانا فضل،شیر پائو اور دیگر عمران خان کے تیز وتند بیانات جو وہ کنٹینر سے دیا کرتے تھے بھول گئے ہیں؟یہ پارٹیاں اب کرپشن کے خلاف متحد ہو رہی ہیں۔ایک عام شہری یہ سمجھتا ہے کہ کرپشن کے خلاف یہ اتحاد رواںسالوں کا سب سے بڑا مذاق ہے۔سامنے چاہے قمر زمان کائرہ اور اعتزاز احسن ہوںگے لیکن لوگوں کو یہ علم نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی صرف زرداری کا نام ہے اور شہنشاہ کرپشن کا اعزاز ابھی بھی ان کے پاس ہے ۔
PPP
یقین کیجئے کوا ہنس کی چال چلے گا تو وہ اپنی بھی بھول جائے گا۔تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی پارٹی میں سیاست کے حوالے سے سب سے تجربہ کار ہیں۔ایک بات ان کے مشورے کے لئے عرض ہے کہ دیکھئے پیپلز پارٹی کو جب بھی موقع ملا وہ ہاتھ دکھا دے گی۔وہ ایک چال چل رہی ہے آئیندہ دوماہ بعد آزاد کشمیر میں انتحابات ہو رہے ہیں شنید یہ ہے کہ نون لیگ وہاں اس سے مک مکا کر لے گی اور دوستوں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کے انتحابات میں پیپلزپارٹی اک وار فیر کا موقع لے کر پرانی تنخوا پر کام کرے گی۔
نئے ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرینس) نہ تو حکومتی منظور کئے گئے اور نہ ہی حکومت اپوزیشن کے مان رہی ہے۔لگتا ہے حکومت کے اس رویے سے جمہوریت کی گاڑی وی او آر(وہیکل آف روڈ) ہونے کو ہے۔ویسے بھی میاں صاحب کو جب تک میاں صاحب نہ ماریں وہ نہیں مرتے(اللہ عمر دراز کرے،میں سیاسی موت کی بات کر رہا ہوں) قصہ مختصر اگر اپوزیشن کی باگ دوڑ پیپلز پارٹی سنبھالتی ہے تو دیکھ لیجئے گا میاں صاحب اس پتن سے بھی پار ہو جائیں گے۔
عمران خان اپنی شناخت پر ڈٹے رہیں تو قوم ان کا ساتھ دے گی۔حاجی خادم صاحب اتحاد گروپ کے بانی جب دیوان موٹرز کے ہاتھوں زچ ہوئے تو کہا کہ ہم نے کروڑوں دے کر مونچھیں ان کے ہاتھ دے دی ہیں ۔پی ٹی آئی کی طویل جد وجہد کے ثمرات پی پی پی کے حوالے کر کے لگتا ہے پی ٹی آئی کی مونچھیں بھی اسی کو سے دی گئی ہیں۔اعتزاز احسن سے میری یاد اللہ ہے پہلے لانگ مارچ کی ٹیوب سے ہوا نکالنے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔پی ٹی آئی اپنی مونچھیں اپنے پاس ہی رکھے تو بہتر ہے۔ہم اگر اس دنیا سے چلے بھی گئے تو اللہ ہم سے نہیں پوچھے گا کہ پانامہ لیکس کے مسئلے پر آپ نواز شریف کو کیوں نہیں ہٹا سکے سوال صرف جد و جہد کا ہو گا جو پی ٹی آئی کو اکیلے سے کرنی چاہئے۔