تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم آج قارئین حضرات ..!! میرایہ کالم پڑھنے سے پہلے میری یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ ” سیاست میں کبھی بھی کوئی سیاستدان اور کوئی دن کوئی ہفتہ اور کوئی جملہ اور جملوں پر مشتمل سیاسی تقاریر اور اِسی طرح کسی بھی سیاست دان کی جماعت کے سیاسی حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں۔
یہاں میں نے اپنی یہ بات گزشتہ دِنوں اوکاڑہ میں جلسے عام سے خطاب کے دوران عمران خان کے کہے ہوئے اِس جملے پر کہی ہے جو عمران خان نے کہے تھے کہ” نواز شریف کرپٹ ترین وزیراعظم ہیں اِن سے بہترتو سابق صدرآصف علی زرداری تھے“۔ جبکہ اِس سے کسی کو اِنکارنہیں ہے کہ ماضی القریب میں یہی عمران خان تھے جنہوںنے دورِزرداری میں زرداری کو پبلک مقامات اور میڈیامیںکھلم کھلاتنقیدوں کا نشانہ بنانے کا جیسا سلسلہ جاری رکھاہواتھاآج تک اِسے بھی قوم اور میڈیانہیںبھولے ہیں اِس پر میں یہ ضرورکہوں گاکہ آج لگتاہے کہ جیسے عمران خان کو سیاست کی روح اچھی طرح سمجھ آگئی ہے تب ہی تو عمران خان اپنے جملوں اور لفظوں سے بُنی گئی تقاریروں سے میدانِ سیاست میں سیاسی داو¿ پیچ کھیلنے میں مہارت حاصل کرتے جارہے ہیں۔
بہرحال..!! آج عمران خان کے کہے ہوئے اِس جملے سے تو میری قوم کو اتنااندازہ اور یقین ضرورہوگیاہے کہ حقیقتاََ”سیاست میںکوئی سیاستدان اور کوئی دن اورکسی کے لئے کہاگیاکوئی جملہ اور کسی کے لئے سیاسی حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہیں۔ اَب ایسے میں میرایہ کہناہے کہ آج میری قوم کے جتنے بھی سیاست دان ہیں یہ میری قوم کے قول وفعل اورکردار کو پرکھنے کے لئے بہت ہیں کیوں کہ کسی دانا کا کہناہے کہ” اگرکسی قوم کو پر کھنا ہے تو اِس قوم کے سیاست دانوں کے کردارکو پرکھو، جبکہ شہیدِرانی محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا سیاست سے متعلق کہاگیایہ جملہ ہماری مُلکی سیاست میں تاریخ کا ایک ایسا اہم اور عظیم باب رقم کرگیاہے کہ آج اگر ہمارے سیاستدان اِس جملے کی روح کو جان جائیں تو اِن کی سیاست کی ہر کل سیدھی اور قوم کے لئے کارآمد بن سکتی ہیںاُنہوں نے فرمایاتھاکہ ”سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُوررَس ذمہ داریاں ہوتی ہیں سیاست قوم کے وجود میں اِس کی احیاکی بنیادہوتی ہے“اور اِسی طرح سیاست ہی کے بارے میں ”وی آئی لینن “ کا کہناہے کہ”افلاس زدہ لوگوں کو سیاسی آزادی حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر اِنہیں یہ آزادی مل بھی جائے تو اِنہیںاِس سے کچھ فائدہ بھی کم ہی ہوتا ہے“۔
اگرچہ اِن دِنوں میرے مُلک میں کہیں ضمنی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں تو مُلک کے کئی صوبوں میں سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان و جانثارانِ جماعت اپنے قائدین کے اشاروں پر بلدیات انتخابات میں کامیابیوں کے لئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے قائدین اور جانثارانِ جماعت کا رویہ اپنے اپنے حلقوں کے ووٹروں کے ساتھ خادم بن کر پیش ہونے کا ہے یعنی یہ کہ آج ضمنی اور بلدیاتی انتخابات سے قبل بقول ” چارلس ڈیگال“ سیاستدان آقابننے کے لئے نوکروں کے انداز اپناتے ہیں“یقینا ایساہی کچھ میرے دیس میں دکھائی دے رہاہے ووٹریادرکھیںکہ ایساصرف انتخابات میں ووٹ لینے کی حد تک ہی ہے بعد میں جو ہوگاکہ وہ سب اِس کے یکدم اُلٹ ہوگا۔
Elections
بہرکیف ..!! اِس میں شک نہیں کہ کھیل کے میدان میں بے لچک اور نڈررویہ اپناکر شہنشاہ کالقب پانے والے عمران خان کو میدان ِ سیاست میں بھی اپناایساہی رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے تھی مگر چونکہ سیاسی میدان کھیل کے گراو¿نڈکی طرح نہیں ہوتاہے اِس میں بے لچک اور نڈررویہ کبھی بھی اورکہیں کہیں بھی کام نہیں آتاہے بلکہ میدانِ سیاست میں تو اول روز سے ہی مفاہمتی اور افہام وتفہیم کا رویہ اپنانے والے ہی کامیاب ترین سیاستدان ٹھیرائے جاتے ہیں۔ اَب ہماری پچھلی حکومت کے صدرآصف علی زرداری کو ہیں دیکھ لیں کہ اِن کے پاس اور اِن کے دامنِ سیاست میں سوائے مفاہمتی اور افہام وتفہیم کی سیاست کے دوتین پہلوو¿ں کے کیاتھایہ اِن نکات پر قائم رہ کر پانچ سال تک عمل پیرارہے اور اپنے پانچ سال سب کو چے بناکر ہنسی خوش گزارگئے اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زرداری مفاہمت پرستی اور افہام وتفہیم کی سیاست کے رموز سے خوب واقف تھے اورمگر اِس کے ساتھ ہی قوم بھی یہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ یہ اتنے اچھے سیاسی کھلاڑی تو نہیں تھے مگر تعجب ہے کہ زرداری بھی صدرِ پاکستان کی نشت پر پانچ سال گزارکر چلے گئے ہماری مُلکی سیاست میں پانچ سالہ دورِ زرداری بھی قوم کو حیران اور پریشان کردینے والاایک عجوبہ دورِ حکومت جانااور پہنچانا جاتا رہے گا۔
آج اگردورِ زرداری کے پانچ سالہ اقتدار پر غیرجانبداری سے تبصرے کئے جائیں تو صرف تبصروں پر مبنی سیکڑوں اور ہزاروں کتب لکھی جاسکتی ہیں اِس لئے آج دورِزرداری کو اچھایابُراکہنے والے اِس رٹ سے نکلیں اور اِس کا جائزہ لیں کہ آصف علی زرداری کس طرح اپنی حکومت کے پانچ سال گزارکر مُلکی سیاست میں امر ہوگئے ہیں آج اِس لئے لازم ہے کہ موجودہ سیاست دانوں کو زرداری جیسی مفاہمتی اور افہام وتفہیم کی سیاست کے روشن ابواب سے بہت کچھ سیکھنے اور سیکھانے کی اشدضرورت ہے۔ چلیں عمران خان نے تو اوکاڑہ کے خطاب میں نوازشریف کا موازنہ زرداری سے کرتے ہوئے سابق صدرزرداری کوموجودہ وزیراعظم نوازشریف سے لاکھ درجے بہترقراردیاتھاآج اِس پر جس طرح حکومتی جماعت کے بہت سے چہتے اور جانثارانِ وزراءاور کارکنان سینہ گوبی کرتے اور سرپر خاک ڈالتے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے دروازے کھٹکٹاتے اپنے مذمتی بیانات کا چھڑکاو¿ کرتے پھر رہے ہیں یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں ہے۔
حالانکہ یہ سب تو سیاسی میدان میں بیچارے عمران خان کی سیاست کے مقابلے میں بہت پرانے چاول ہیں اِنہیں تو کم از کم عمران خان کے ایک ذراسے بیان پر یوں دم نہیں لگناچاہئے یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہماری مُلکی ”سیاست میںکوئی سیاستدان اور کوئی دن اورکسی کے لئے کہاگیاکوئی جملہ اور کسی کے لئے سیاسی حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے ہیں“۔ مگرپھر بھی افسو س تو اِس بات کا ہے کہ عمران خان بیچارے کے اِس ایک جملے اور بیان نے توجیسے ہمارے موجودہ وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت کے جانثارانِ وزراءو ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلیاںاور ن لیگ کے عہدیداران و کارکنان کے تن بدن میں عمران خان کے خلاف سیاسی جملے بیازیوں کی آگ بھردی ہے۔
تب ہی تووزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے انتہائی سنجیدہ اور نرم گواور خوش مزاج وفاقی وزیراطلاعات سینیٹرجناب محترم عزت مآب پرویزرشیدبھی عمران خان کے خلاف کچھ اِس طرح لب کشاہوئے کہ” عمران خان چور، پاکستان کا دُشمن اور غدارہے، یہودی اور ہندولابی کے فنڈز پارلیمنٹ پر حملے کے لئے استعمال کئے“ اِن کے عمران خان کے خلاف ایسے بیان پر قوم ششسدر ہے اور انگشت بدندان ہے جس پر قوم کو ایسالگ رہاہے کہ جیسے بیچارے پروزرشیدبھی اپنے قائد نوازشریف کے لئے میدانِ جملے بیازی میں گود کر یہ ثابت کرنے کی ہرممکن کو شش کررہے ہیں کہ خبردارکوئی ہمارے قائد اور مُلک کے موجودہ وزیراعظم نوازشریف کو ہرگزتنہانہ سمجھے اِن کے خلاف بیان بازی کرنے والو ں کا مقابلہ کرنے کے لئے اِن کے بھی جیالے اور جانثارانِ حبِ نوازشریف ابھی زندہ ہیں جو اپنے قائد نوازشریف کے خلاف بیان بازی کرنے والوں کی زبانیں گدیوں سے پکڑکرکھیچ لینے کی طاقت بھی رکھتے ہیں اور ایساکرنابھی خوب جانتے ہیں۔
آج ن لیگ والے عمران خان اور عمران خان اور دیگر کسی کے خلاف چاہیں جیسی بھی زبانیں استعمال کرلیں مگر اِنہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ جمہوری سیاست میں ہر زبان ہر کسی کے لئے استعمال کرنے ہی میں تو جمہوریت کا حُسن ہے اور ویسے بھی میدانِ سیاست تو ہے ہی جھوٹ بولنے اور سچ کا گلاگھونٹ کرجھوٹ کے سروں کا مینار بناکر کامیابیوں کے دعوے کرنے کانام ہی سیاست ہے یہ میراکام تھاجو میںنے سمجھانے کی بزورقلم کوشش کی ہے مگر اَب دیکھنایہ ہے کہ میرے لکھے کو کون پڑھتاہے..؟؟ اور کون اِس سے کیا اور کتناسمجھ کر اپنی اصلاح کرتاہے…؟؟ اور اپنی سیاسی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیوں میں ضائع کرنے کے بجائے اِس مُلک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کتنا استعمال کرتا ہے…؟؟
اَب میں اپنے کالم کا اختتام شہیدِ رانی متحرمہ بے نظیربھٹوکے اِس قول پر کرناچاہوں گا کہ” صحافی سیاست دانوں کو بتائیں کہ وہ سیاست کرناچاہتے ہیں تو وی سی آر، ٹی وی دیکھنے کے بجائے کتابیں اور تاریخ پڑھیں “اِس میں شک نہیں کہ شہیدبینظربھٹوکے اِس قول میں سیاستدانوں کے لئے اپنی اصلاح کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے بشرطیکہ ہمارے نئے پرانی سیاستدان اِس قول پر عمل کریں تو مُلک میں ہر رخ سے مثبت اور تعمیری سیاست پروان چڑھ سکتی ہے جس کا فائدہ سیاستدانوں، مُلک اور عوام سب ہی کو پہنچے گا۔