تحریر : شاہ بانو میر “”” کبھی وہ تنہا جہاں کھڑا ہوتا منزل وہیں آ جاتی “”” جہاں جاتا لوگوں کا اژدھام سامنے سمندر کی طرح آموجود ہوتا وہ رہنما جس نے ایوان سیاست کو آتے ہی تہہ و بالا کر دیا ایسا کیا ہوا کہ طرز سیاست تبدیل کر دیا ؟ عوام اور اس کے مداح اس کمزور رہنما کے عادی نہیں ہیں۔ وہ مایوس ہو رہے ہیں۔ ٌ ان کا اصرار ہے اپنے زور بازو پر 22 سال سے چلنے والے کو ہم بیساکھی پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ کسی کی بیساکھی کا محتاج نہیں ہو سکتا قول سے انحراف کی اس تبدیلی کو پورے ملک میں ساتھیوں اور کارکنوں نے پسند نہیں کیا۔ یہ عوام قائد کی وفات کے بعد سے کسی مسیحا کی تلاش میں کبھی کسی ایک کے در پے جا گرتی ہے اور کبھی دوسرے کی تلاش میں سرگرداں؟ دہائیوں پر محیط سیاسی تلاش میں ایک نئی آواز نے سب کو متوجہ کیا طرز تخاطب سب سے منفرد سب سے ہٹ کر تھا۔
پلس پوائنٹ یہ تھا کہ ماضی کی کارکردگی کو وقت کے آمر سے لے کر جمہوری ایوانوں کے سربراہان بھی تسلیم کرتے تھے پاکستان کی کرکٹ کو جو عروج 92 کا ورلڈ کپ دلا کر دلوایا اس کے بعد آج تک صرف اسی کپ اور 92 کے ماضی پر ہی جی رہے ہیں۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے جب کسی بندے کو چنتاہے تو اسے کسی آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے۔۔ یہ آزمائش دراصل اس بندے کی کسوٹی ہے جس پر رب اس کے صبر کو ضبط کو حوصلے کو پرکھ کر پھراسے کوئی مشکل کام دیا جاتا ہے۔ یہی ہوا ماں کی بیماری اور وفات کے اذیت ناک سمندر سے ابھرا تو انسانیت کو بچانے کی سوچ نے زندگی کا عنوان تبدیل کر دیا۔
یوں وقت نے ایک عظیم رہنما تخلیق کیا جوکسی شارٹ کٹ سے نہیں مرحلہ وار حقیقی تکالیف سے گزرتا ہوا عام انسان کے درد کو پہچان سکا۔ سوچ ابھری کہ باوجود وسائل کے اپنی ماں کا یہاں موثر علاج نہیں کروا سکا ۔ تو ایک عام آدمی دیہاڑی دار مزدور درمیانہ طبقہ وہ ایسی عفریت سے کیسے نبرد آزما ہوتا ہوگا؟ پھر سوچ اوپر اٹھنے لگی اور وطن عزیز اور اس کے لوگوں کو جاننے کیلئے سیاحی شروع کی ماں کا غم بھی بھلانا مقصود تھا در حقیقت اللہ پاک شعور کھول کر اصل پاکستان کی تصویر دکھانا چاہتا تھا۔ سیر شروع ہوئی اورسفر میں ہوش اڑا دینے والی غربت کی داستانیں چشم تصور سے نہیں براہ راست خود قریہ قریہ پھر کر دیکھیں۔ یوں سیاست میں بے لوث سوچ پیدا ہوئی جس کا پہلا مقصد اس بے وقعت شہری کو باعزت مقام دینا تھا۔
فطرت ایک مقناطیس ہے ہر طرح کی فطرت کے گرد وہی لوگ جمع ہوتے ہیں جو قدرت کی طرف سے ایک جیسی سوچ پر مقرر ہیں۔ تا کہ ایک گروہ بن کر اپنے پیغام کو طاقت سے پھیلائیں۔ الحمد للہ اس سیاستدان نےسیاست میں قدم کیا رکھے گویا انقلاب بپا ہوگیا۔ اخلاص کی فطرت کے حامل افراد نے لبیک کہا اور قافلہ چلنے لگا۔ عام لوگ نہیں تھے اعلیٰ پڑھے لکھے محنت پر یقین اور تبدیلی پر ایمان رکھنے والے ملے تو فطرت کے مقناطیس کے گرد طاقتور جماعت ابھری ۔ ایسا عروج اس ملک نے بہت کم دیکھا ہو گا ۔ سوچ بدلنے لگی جو بیساکھی پر نہیں حوصلوں پر چلتا تھا۔
مدتوں سے مایوس خواب آور ادویات کے زیر اثر نیند میں گُم نوجوان نئی امید کے ساتھ بیدار ہوا اس نوجوان نے اپنی بساط سے بڑھ کر اس نئی سوچ کا ساتھ دیا۔ ملک کا نوجوان طبقہ پہلی بار اپنی قسمت پر نازاں تھا۔ راتوں رات نوجوانوں نے نئی سیاسی دنیا میں ہلچل مچا دی اور اس کامیابی کا منفی نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی منجھے ہوئے گدھ آسمان سیاست پر منڈلاتے لگے کہ اب کیسے اس تحریک سے ان نوجوانوں کو ہٹا کر کیسے اس میں شامل ہوں مگر یہاں داخلے کیلئےاصرار کارکردگی کا تھا اس لئے کچھ وقت تک وہ اس کو نہ قائل کر سکے اور ساتھ نہ ملا سکے۔ سیاسی چالبازیاں جیت گئیں پارٹی میں سیاسی گدھ بھی شامل ہونے لگے کچھ نادان دوست ملے سیاسی کینچے کھیلنے پر آمادہ کرنے لگے۔
منزل قریب تھی کہ یہ کارواں منزل کے نشاں کھو بیٹھا بیس بائیس سال ہونے کو آئے تھے اب وہ خالص سوچ وہ غریبوں کی دعویدار جماعت تھی وہ نوجوانوں کا روشن مستقبل تھی اب اپنے نعروں سے پہلو تہی برتنے لگی۔۔ ہر طرف بوڑھے جہاندیدہ لوگوں کا ریلہ دکھائی دینے لگا نوجوان جس نے اپنی زندگی کے قیمتی سال 2011 کے بعد سے اب تک اس پارٹی کو دیے وہ اب صرف جلسہ گاہ تک محدود کر دیا گیا۔ اگر ایاک نعبد و ایاک نستعین کو کہتے والا کاش مطلب سمجھ کر توکل بھی اللہ پر کرتا پھر نتیجہ دیکھتا نوک زباں پر ہی صدا رہی عمل نہ ہوا کیونکہ کرپٹ روایتی سیاستدان اصرار کر رہے تھے کہ ہم یوں محض تحریک کے سہارے کب تک خیالوں میں زندہ رہیں؟
ہمیں حکومت چاہیے یوں اس تحریک کی سچائی مدہم ہونے لگی اور روایتی سیاست زور پکڑنے لگی۔ سیاست میں طاقتور بیانات کے سہارے عوام کو بیدار کرکےخود عامیانہ سیاسی سوچ کا اسیر کیسے ہو گیا؟ سیاسی گدھ “” ورغلا رہے ہیں کہ وہ اپنی حمایت کی بیساکھی تھما کر آپکو وزیر اعظم بنوا دیں “” جس قدر تذلیل سینیٹ کامیابی کے بعد ان کا عام ورکر نظریاتی کارکن کی کر رہا ہے وہ عام رہنما کی ورکر کی تذلیل ہے۔
ان کی بیساکھیوں پر بنا وزیر اعظم پارٹی کے اندر یا عوام میں کبھی قدر و منزلت نہیں پا سکے گا؟ سیاسی مفادات کے حامل مفادات کے حصول کیلئے وقتی کامیابی کے خواہاں ہوں گے وہ ایسا ضرور چاہیں گے کہ ان کی سوچ سطحی ہے مگر دور رس کامیابی کیلئے واپس آنا ہوگا اور اپنے اسی انداز کو زندہ کرنا ہوگا ۔ یاد رکھیں آپ کو اللہ نے مقام دیا اور بار بار سنبھالا تا کہ آپ سے کوئی اہم کام لیا جائے۔تاریخی شخصیات عہدوں سے بالاتر ہو کر عوام کیلئے کچھ ایسا کرتی ہیں کہ وہ ہر دور کے وزیر اعظم سے ہمیشہ بلند و محترم دیکھی جاتی ہیں۔
التجا یہی ہے کہ موجودہ سیاست کا رخ موڑ کر اس لالچ اور اس سوچ سے باہر نکل کر عوام کو وہی طاقتور انداز سیاست دیں اس بار سینیٹ میں جو کھیل کھیلا گیا وہ دوسری جماعت کیلئے ہمیشہ کا انداز ہے مگر ایک دشمن کو گرانے کیلئے آپ نے اپنے سیاسی سیاسی خصوصیات امین اور صادق کو”” گروی”” رکھ دیا ۔ جو آپ سےنیا پاکستان امید نہیں کرتا ۔ آپ کی سیاست کا مقام ہمیشہ بلند منفرد اور اعلیٰ رہا ہے ۔ نطام کی تبدیلی وزیر اعظم کی تبدیلی نہیں ہے۔
تحریک کو جاری رکھتے ہوئے آئیندہ الیکشن میں اس عوام کو اس مبہم سیاسی مدوّجزر سے باہر نکالیں اپنی ذات کی بلندی اور اپنی عوامی اہمیت کو سمجھیں اور کمزور فیصلے کر کے صرف وزیر اعظم نہ بنیں ہم نے آپکو بلند و بالا اسٹیج سے گر کر بھی خود اپنے پاؤں پر ہی چلتے دیکھا ہے۔ پھر کیسے ان سیاسی بیساکھیوں پر آپکو چلتے دیکھیں؟