تحریر : سید انور محمود پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان لاہور کے ایک مقامی ہوٹل کی لفٹ میں پھنس گئے ۔ عمران خان ہوٹل میں ہونیوالی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے اور لفٹ کے ذریعے متعلقہ فلور پر جارہے تھے کہ لفٹ راستے میں ہی رک گئی اور چیئرمین پی ٹی آئی اپنے ساتھیوں سمیت لفٹ میں ہی رہ گئے ۔ پانچ منٹ کے انتظار کے بعد لفٹ کادروازہ کھلا اور وہ سیڑھیوں کے ذریعے تقریب میں پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق لفٹ میں پانچ افراد کی گنجائش تھی لیکن آٹھ افرادداخل ہوگئے ۔اب اگر آپ اس واقعے کو سامنے رکھیں اور عمران خان کی گذشتہ 19سال کی سیاست کا جائزہ لیں تو آپکو ایسا ہی لگے گا کہ خان صاحب اپنی 19سال کی سیاست میں غلط لفٹوں میں سوار ہوتے رہے ہیں، وہ کبھی لغاری کے ساتھ تھے تو کبھی مشرف کے ساتھ ۔ عمران خان نے 25 اپریل، 1996ء کو تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر تو کوئی کامیابی نہ ملی لیکن وزیراعظم بننے کی تمنا ضرورت سے زیادہ تھی، 2002ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو صرف ایک نشست پر میانوالی سے کامیابی ملی اور یہ نشست عمران خان نے جیتی تھی۔ 2008ء کے الیکشن کا بایئکاٹ کیا جو بعد میں ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا۔
عمران خان کی تحریک انصاف نےگیارہ مئی 2013ء کے الیکشن میں حصہ لیا، سونامی اور انقلاب کے نعرئے لگائے تو نوجوان ساتھ ہوئے لیکن زیادہ ترکی حمایت سوشل میڈیا پر تھی اور ہے، لہذا وزیراعظم بننے کی تمنا اب بھی پوری نہ ہوسکی۔ الیکشن میں ان کی جماعت کو توقع سے کم کامیابی ملی لیکن کے پی کے میں تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع مل گیا۔دو سال سے کےپی کے میں حکومت کررہے ہیں مگر بڑئے بڑئے دعوئے کرنے کے باوجود کوئی انقلابی تبدیلی نہ لاسکے۔ گیارہ مئی 2014ء سے حکومت کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاکر جلسے شروع کیے اور اور ہر جلسے میں الیکشن میں دھاندلی کا مختلف لوگوں پرالزام لگاتے رہے۔ عمران خان نے گذشتہ سال رمضان سے پہلے اپنے آخری جلسہ 27 جون 2014ء کوبہاولپور میں کیا اور الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اور حکومت سے تحریک انصاف نے چھ مطالبات کئے، جو مندرجہ ذیل تھے:۔ پہلا مطالبہ : وزیراعظم نوازشریف استعفی دیں دوسرا مطالبہ : دوبارہ انتخابات کرائے جائیں تیسرا مطالبہ : انتخابی اصلاحات کی جائیں چوتھا مطالبہ : غیرجانبدار حکومت قائم کی جائے پانچواں مطالبہ : تمام الیکشن کمشنرز استعفی دیں چھٹا مطالبہ :دھاندلی کے ذمہ داروں کو سزائیں دی جائیں
تحریک انصاف نےان مطالبات کو تسلیم کرنے کےلیے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا اور ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ یا تو ہمارے مطالبات پورے کئے جائیں بصورت دیگر 14 اگست کو اسلام آباد کی جانب سونامی مارچ ہو گا۔ اگست 2014ء میں عمران خان احتجاجی دھرنے کی غلط لفٹ میں اپنے مطالبات کے ساتھ جنکا منوانا ناممکن تھا اورانتخابات میں دھاندلی کے الزامات کےساتھ سوار ہوئے اور 126 دن کے دھرنے میں پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد میں روز مظاہرے کیے، عمران خان نے پر تشدد تقاریر کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جس میں تہذیب کا دور دور پتہ نہیں تھا، اپنے رہنما کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے ورکروں نے اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میڈیا ورکروں کے ساتھ بدتمیزی شروع کردی جس میں خاصکر جیو نیوز کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کراچی ، لاہور اور ملتان میں خاتون صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کی، خاتون صحافیوں کو ہراساں کرنے کے ایڈونچر میں پی ٹی آئی کی خواتین کارکن بھی اپنے ساتھیوں سے آگے بڑھنے میں کسی طور کم نہ رہیں۔ اخلاقیات کس چڑیا کا نام ہے؟خواتین کا احترام کیا ہوتاہے؟تمیز کس بلا کو کہتے ہیں؟تحریک انصاف کے کارکنوں کی بلاجانے۔
Army Public School
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو چار ماہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے اور جس میں عام لوگوں کی شرکت روز بروز کم ہورہی تھی پشاور سانحہ سے پورا فائدہ اٹھایا اور بنی گالہ سے پشاور پہنچ گئے، یہ بات نوٹ کی گئی کہ موصوف کو اپنے گھر سے نکلنے میں پانچ گھنٹے لگ گئے۔پشاور روانگی سے قبل عمران خان نے نواز حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیااور اُسکے ساتھ ہی 18 دسمبر کو ہونے والےملک گیر احتجاج کو بھی منسوخ کردیا۔ سترہ دسمبر کی شام عمران خان نے واپس اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا، اُنکے کارکنوں نے دھرنا ختم کرنے پراحتجاج بھی کیا، لیکن عمران خان بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ دھرنا ختم کرنے میں ہی اُنکا سیاسی فائدہ ہے۔
پشاور کےاتنے بڑے سانحے کے باوجود پی ٹی آئی کی توجہ اپنےالزامات پر ہی رہی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی، 35 پنکچر کی وجہ سے ہم الیکشن ہار گئے وغیرہ وغیرہ۔ پی ٹی آئی نے اپنی توجہ دوبارہ وفاقی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر لگا دی۔ صدارتی آرڈیننس کے نتیجے میں بننے والے جوڈیشل کمیشن نے یکم اپریل کو انکوائری کمشن تشکیل دیا، کمیشن نے 39 اجلاسوں میں 69 گواہوں کے بیان ریکارڈ کرتے ہوئے 87 سماعتیں کیں جبکہ فریقین وکلاء نے گواہان پرجرح بھی کی اور دلائل بھی دیئے تھے۔ کمشن کی پہلی سماعت 9اپریل جبکہ آخری سماعت 3جولائی 2015ء کو ہوئی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جسٹس امیرہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل تین رکنی کمیشن نے کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے لگائے گئے تین الزامات کہ “عام انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی ہے”، “انتخابات شفاف نہیں ہوئے” اور “عوامی مینڈیٹ کو چوری کیا گیا ہے”، انکوائری کمیشن نے ان تمام الزمات کویکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ انتخابات قانون کے عین مطابق ہوئے، دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، مجموعی طور پر ان انتخابات میں عوام کا مجموعی مینڈیٹ ہی عوام کا صحیح اظہار رائے ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے سامنے 78حلقوں میں دھاندلی سے متعلق 125000 صفحات پیش کئے گئے، مگر عمران خان کی جانب سے بہت سےالزامات ایسے تھے جن کے ثبوت جوڈیشل کمیشن میں پیش نہیں کئے گئے۔ 35 پنکچر والی بات کو صرف ایک سیاسی بیان کہا گیا۔ عمران خان کو بطور گواہ پیش کرنے سے اُن کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے انکار کر دیا۔
Judicial Commission
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کے حامی حلقوں میں جشن کی سی کیفیت ہے جبکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے حامی کسی قدر سکتے کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے پاکستان کے عدالتی نظام سے انصاف حاصل کرنے کے لیے لمبی عمر اور صابر ہونا بہت ضروری ہے، جبکہ ساتھ ساتھ دولت کی ریل پیل بھی ضروری ہے۔ یاد رہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں بھی جب صدر غلام اسحٰق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی تو سپریم کورٹ نے ان کی حکومت کو بحال کر دیا تھا جبکہ اس سے اڑھائی برس قبل عین انہی الزامات اور انہی آئینی اختیارات کے تحت ہٹائی گئی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بحال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر مرحومہ نے ”چمک“ کی پھبتی کسی جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔
بہر حال یہ تو طے ہے کہ پاکستان کی عدلیہ ایک بار پھر سامنے نظر آنے والی کرپشن یا دھاندلی کو گرفت میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ ثبوت ہے ہمارے ناقص عدالتی اور قانونی نظام کا جس میں آپ کو صرف دلائل ہی نہیں، شواہد بھی خود مہیا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر آپ مطلوبہ شواہد موجودہ قانون کے قواعد کے مطابق فراہم نہیں کر سکتے تو آپ کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو تحریک انصاف کے ساتھ ہوا ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان کو ہتکِ عزت کے کیسز تو بھگتنا پڑیں گے۔ اگر عمران خان کے پاس الزامات کے ثبوت نہیں تھے تو عمران خان کو چیخ چیخ کر الزامات لگانے کا کس نے مشورہ دیا تھا؟ کیا سیاست اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک سنی سنائی بات کو عام کردینا، اس پر لوگوں کی تذلیل کرنا، دھرنے سے لے کر پی ٹی آئی کی قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم نے نجم سیٹھی پر الزامات کی بوچھاڑ کردی، جس حامد میر کے ساتھ جیو پر روزانہ بیٹھ کر اپنی بات کیا کرتے تھے، اُس جیو پر اچانک الزامات کی بارش کردی اور فوج کے ہمدرد بن بیٹھے۔
افواج پاکستان کےطالبان دہشت گردوں کےخلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد اُسکی بھی حمایت کردی اور یو ٹرن لینے کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو اس دور سے اپنی بات منوانے کی عادت ہے جب وہ کرکٹ کے میدان میں ہوا کرتے تھے، ان کی یہ عادت سیاست کے میدان میں آنے سے بھی ختم نہیں ہوئی جبکہ سیاست میں ایسا ناممکن ہے یہ ہی وجہ ہے کہ اُن کی پارٹی میں عین اسوقت بغاوت ہورہی تھی جب پارٹی کو بہت مستحکم ہونے کی ضرورت تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اہم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور میں عمران خان کے نظریات اور موقف میں غیر مستقل مزاجی نمایاں رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج انکی پارٹی گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ 126 دن کے دھرنے میں عمران خان جو کچھ اپنے مخالفین کے بارئے کہتے رہے اور کرتے رہے آج اُنکے مخالفین کسی صورت اُنکو معاف کرنے کو تیار نہیں، بہتر ہوگا عمران خان اپنی سیاسی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور سیاست کی غلط لفٹ میں چڑھنے سے بچیں۔