فیض احمد فیض صاحب نے کیا خوب غزل کہی اور اقبال بانوصا حبہ نے بھی کمال خوبصورتی کے ساتھ گایا، جب بھی سنیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے بلکہ لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے۔
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوحِ ازل میں لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اْڑ جائیں گے ہم محکوموں کے پاؤں تلے یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی اور اہلِ حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی جب ارضِ خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے ہم اہلِ سفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو ناظر بھی ہے منظر بھی اٹھے گا انالحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور راج کرے گی خلقِ خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے (فیض احمد فیض)
وہ دن بھی مخلوق نے دیکھاجب خالق کائنات نے فرعون کواس بات سے باخبرکرکے کہ اسی کی سلطنت کے اندروہ بچہ پیداہوگاجو اپنے رب العزت کے حکم پرفرعون کاتاج اچھالے گا،تخت گرائے گااورپھرفرعون کوغرق کردیاجائے گا،اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے آنگن میں پرورش فرمائی اور پھر وہی ہوا جو جو لوحِ ازل میں لکھاتھا،وہی ہواجس کاوعدہ تھا،ہم نے دیکھاکہ اسی طرح میرے اور آپ کے خالق و مالک نے اپنے محبوب نبی ۖکی ناموس کے محافظ غازی ملک ممتازحسین قادری شہید کوپھانسی لگانے والوں اور سلیمان تاثیر کوگورنرلگاکرگستاخوں کی حمایت کرنے والوں کوہمارے دیکھتے دیکھتے نشان عبرت بنادیا،جس جیل کویہ لوگ اپنادوسراگھرکہتے ہیں وہ جیل اور تھی یہ جیل تو مالک کی پکڑمعلوم ہوتی ہے،ہم نے دیکھاکہ کرپشن کے مقدمات میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات دینے کی بجائے یہ لوگ جمہوریت جمہوریت پکار رہے ہیں۔
کہتے ہیںڈالر کی قیمت بڑھ گئی گرفتاریاں بندکردو،پیٹرول کی قیمت میں تیزی آئی اپوزیشن کوساتھ لے کرچلو،آئی ایم ایف سے قرض لیا چارٹرآف اکامنی کرلو،اپوزیشن کے مقدمات ختم کروتوپاکستان کوچلنے دیں گے،بھارت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی مریم بی بی کوگرفتار کیوں کیاوہ تو عورت ہیں،وہ توکشمیرآزادکروانے نکلیں تھیں،مریم بی بی سے پوچھاگیااُن کے اکاونٹ میں پیسے کہاں سے آئے وہ بولیںمجھے نہیں معلوم پہلے عمران خان بتائے اس نے بنی گالہ میں عالیشان گھرکیسے بنایا،بیشک میرے رب تعالیٰ کے عہدسچے اور عدل کھراہے،جس نے جوبویااسے وہی کاٹناپڑتاہے،یہ دنیامکافات عمل ہے۔
لوگ سمجھ رہے ہیں دنیاکی عدالتوں نے سزادی،ادارے ان کیخلاف ہوگئے ورنہ انہیں پکڑنے کی جرات کسی میں کب تھی،ظاہری طورپر یہی کہاجاسکتاہے کہ فرعون مثل حکمران طبقے کوکمزور عدالتی سسٹم نے کرسی اقتدارسے الگ کرکے سپردجیل کردیاہے جبکہ اس سارے معاملے میںاصل ہاتھ غازی ملک ممتازحسین قادری شہید کے مالکوں کاہے ورنہ یہ عدالتیں آج بھی چندکاغذ کے ٹکڑوں کیلئے پھسل جاتیں ہیں،کرسی اقتدارکے سامنے جھکی رہتی ہیں،ادارے آج بھی کسی کے ساتھ ہیں جیسے کل کے حکمران اور آج کے اہل جیل کے ساتھ ہواکرتے تھے،ادارے آج،کل کے مقابلے میںجمہوریت کے زیادہ حامی نظرآتے ہیںتویہ اداروں کی دانشمندی ہے جوماضی سے کچھ سیکھ لیاورنہ اہل سیاست توآج بھی پرانااندازسیاست اپنائے بیٹھے ہیں۔
اب امتحان ہے اُن لوگوں کا جنہوں نے گستاخہ آسیہ ملعونہ کورہاکیا،کروایااورپھرملک سے فرارکرنے میں کرداراداکیایعنی ابھی کچھ مزید تاج اچھالے جائیں گے کچھ اورتخت گرائے جائیں گے،ابھی وہ وقت دور ہے جب راج کرے گی خلق خداجومیں بھی ہوں اورتم بھی ہو،بیشک ہوگاوہی جو لوحِ ازل میں لکھا ہے ،مخلوق دیکھے گی جب ظلم و ستم کے کوہ گراںروئی کی طرح اْڑ جائیں گے، یعنی ظلم مٹ جائے گا،باطل مٹ جائے گاحق کاعلم بلندہوگا،بس نام رہے گا اللہ کاجس کے عہدسچے اور عدل کھرا ہے۔