وزیراعظم عمران خان نے مستقبل میں رموز مملکت چلانے کے لیے کئی ایسے فیصلوں کا عندیہ دیا ، جس سے لگتا ہے حکومت گومگو مشکلات سے نکلنے کے لیے جُزوقتی اقدامات آرڈیننس کے ذریعے کرے گی، تاہم اس کے نتائج مثبت نہیں ہوں گے۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ فوج کے کھڑے ہونے کا متنازع بیان بھی دیا۔ یہ تو ملکی ادارہ ہے کیا وزیراعظم یہ کہنا چاہتے تھے کہ فوج دیگر سیاسی جماعتوں کے منشور کو تسلیم نہیں کرتی؟ اُن کا یہ بیان غیر ذمے دارانہ تصور کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے یوٹرن لینے کو بھی پسند نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹس (اعظم سواتی، زلفی بخاری) پر لاعلمی بھی حیران کن رہی، کیونکہ وزیراعظم ان اداروں کی وزارتوں کے سربراہ بھی ہیں۔ وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ انہیں پاکستانی روپے کی تنزلی کی خبر میڈیا سے ملی، یعنی انہیں اپنے محکموں و وزراء کی کارکردگی کا علم میڈیا سے ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک ’خود مختار ادارہ‘ ہے جو کسی کے ماتحت کام نہیں کرتا اور وزیر خزانہ بھی اسٹیٹ بینک کے معاملات میں کچھ نہیں کرسکتے، لیکن وزیر خزانہ تو اعتراف کرچکے تھے، روپے کی قدر کی تنزلی کے حوالے سے آگاہ تھے کہ روپے کی قدر گرانا ناگزیر ہے۔ حکومت بار بار کہتی رہی ہے کہ ماضی میں مصنوعی طور پر ڈالر کی اُڑان کو روکا گیا لیکن جس طرح موجودہ حکومت نے ملک کی نچلی ترین سطح پر روپے کی قدر میں کمی کی، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ وزیراعظم نے تو صاف کہہ دیا کہ وہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بے خبر تھے، لیکن وزیر خزانہ کا کہنا کہ انہوں نے وزیراعظم کو آگاہ کردیا تھا، ان کے مطابق دو شخصیات کو روپے کی قدر کی کمی کا علم پہلے سے تھا اور یہ دو شخصیات وزیراعظم اور خود وزیر خزانہ تھے۔
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
لگتا ہے کہ عمران خان اپنے وزراء کی کارکردگی سے خود بھی مطمئن نہیں، لیکن اس کا برملا اظہار نہیں کرسکتے۔ اگلے برس اگر بلدیاتی انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے ہیں تو کم ازکم اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ وزیراعظم کسی وزیر، مشیر یا معاون خصوصی کو ناراض کریں گے۔ اتحادی جماعتوں کو اَن دیکھے بندھن میں باندھا گیا ہے، تاہم وہ بھی بلدیاتی انتخابات تک حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہلکا پھلکا دبائو بڑھانے کی کوشش تو کرتی رہیں گی۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ کم ازکم آئندہ بلدیاتی مرحلے تک کوئی چھوٹی اتحادی جماعت وفاقی حکومت سے علیحدگی کا رسک لے گی۔ چھوٹی اتحادی جماعتوں کو موجودہ حکومت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، لیکن اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے اور اپنی قیادتوں کو احتسابی عمل سے باہر نکالنے کے لیے اِن ہائوس تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ حزب مخالف جماعتوں کی یہ کوشش تو ضرور ہوگی کہ حکومت کو اُلجھایا رکھا جائے، لیکن چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اِن ہائوس تبدیلی کے لیے اس وقت حالات کو سازگار نہیں سمجھا جارہا۔
دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ میں شور شرابے کی وجہ حکومتی بیانات ہیں، جس سے پارلیمان کا ماحول کشیدہ ہوجاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قیام کے حوالے سے اگر تحریک انصاف سنجیدگی سے کام کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے بہت بڑے فریم ورک کی ضرورت ہے، کیونکہ بڑی اپوزیشن جماعتیں صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کا کریڈٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس لیے توقع ہے کہ بہاول پور، سرائیکی اور جنوبی پنجاب صوبوں کے قیام کی سیاست چلتی رہے گی، تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام پر الائنس بنانے والے اراکین پنجاب اسمبلی نے ان 100 دنوں میں جنوبی پنجاب سے زیادہ اپنی وزارتوں پر توجہ دی ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگر صوبہ تقسیم کی عملی صورت میں بالفرض آبھی جاتا ہے تو وسطی پنجاب میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے مڈٹرم انتخابات بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ یہاں اینکر پرسن کے سوال کے جواب دینے پر ابہام پیدا ہوا کہ وزیراعظم نے مڈٹرم انتخابات کا عندیہ صرف صوبے کی حد تک دیا ہے یا پھر ملک بھر میں وسط مدتی انتخابات کا اشارہ دیا ہے۔ یہاں چھوٹی اتحادی جماعتوں کو باور کرانا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ اگر وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت گرانے کی کوشش کریں گی تو عمران خان انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
گزشتہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنے اقتدار کی مدت نامساعد سیاسی حالات کے باوجود مکمل کرکے تیسری ’’جمہوری‘‘ حکومت کو پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل تو کردیا، لیکن عمران خان اس کے لیے تیار نظر نہیں آتے کہ انہیں پارلیمنٹ میں اپنی مرضی کا قانون منظور کرانے کے لیے مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے کوئی مفاہمت (یوٹرن) کرنی پڑے۔
حکومت کو دومہینے بعد ایک بار پھر مالیاتی توازن کو برقرار اور قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف یا کسی دوسرے دوست ملک کی شرائط ماننا ہوں گی، کیونکہ واضح نظر آتا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین پاکستان کی جتنی ’’اصولی‘‘ مدد کرسکتے تھے انہوں نے کردی۔ پاکستان کو وقتی مشکلات سے باہر نکالنے کی یقین دہانی بھی کراچکے اور سعودی عرب نے اپنے وعدے پر عمل بھی کردیا، لیکن جب تک پاکستان میں درآمدات و برآمدت میں توازن نہیں بنتا اور مملکت میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوتی، پاکستان کی موجودہ حکومت بار بار معاشی دشواریوں کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات ماننے کے لیے پس پردہ شرائط پر عمل درآمد کرتی رہے گی اور اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا رہے گا۔ ڈالر کی اونچی اڑان، گردشی خسارہ اور بیرونی قرضوں میں ازخود اضافے سے حکومت کو مستقل مشکلات کا سامنا رہے گا۔
ایک اندازے کے مطابق430 ارب روپے کا اضافی قرض پاکستان پر چڑھ چکا ہے اور وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں ڈالر ہی ڈالر ہوں گے، عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا مجھ جیسا ناقص العقل یہ سمجھے کہ جس طرح سوویت یونین کے خلاف امریکا کے لیے پرائی جنگ میں کودا گیا تھا اور امریکا نے ڈالروں کی بارش کردی تھی، کہیں ایسا تو نہیں کہ پھر ایک نئی جنگ کے دروازے پر بیٹھ کر سوچا جارہا ہو کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں، وزیراعظم تو ویسے بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’یوٹرن‘‘ لیے بغیر کوئی لیڈر بڑا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ توکیا اس بار ڈالروں کے ساتھ ریالوں کا بھی سونامی آنے والا ہے؟
عمران کئی بار کہہ چکے کہ اچھا ہوا انہیں 2013میں حکومت نہیں ملی ورنہ ناکام ہوجاتے کیونکہ ان کے پاس ’تجربہ‘ نہیں تھا، تاہم اب بھی ان کے گرد تجربہ کاروں کی فوج سے امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مملکت کو مزید بحرانی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ممکن ہے عوام نوجوان قیادت کو بہت جلد اپنے سامنے دیکھنے کے نئے تجربے کا سامنا کریں، جن کا تعلق پنجاب یا سندھ سے ہوسکتا ہے۔ اس بات پر غور ضرور ہورہا ہے، اس بار چہرے ہی نہیں بلکہ نظام بھی بدل سکتا ہے۔
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا