عمران خان صاحب، وزیر اعظم پاکستان کو ذاتی حیثیت میں اپنے اور مخالف سب ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نہ مغرب کا پسندیدہ ہے نہ ہماری اسٹبلیشمنٹ کانہ ہی پاکستان کی مورثی،مفاداتی اور سیکولر سیاسی پارٹیوں کا۔ وجہ اِس کی ایک ہی ہے کہ عمران خان پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ مخلص ہے مگر معاملات کا باریکی سے تجزیہ کرنے سے عاری ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو عمران خان دھن کا پکا اورنا ممکن کو ممکن بنانے کا عزم رکھنے والا،مغرب میں گزاری اسلام مخالف پرانی زندگی سے توبہ کر کے اسلام کی بتائی ہوئی زندگی گزانے پر گامز ن ،تیسری بیوی، خاتون اوّل کا اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شرعی پردے میں رہنا۔عمران خاں کا لباس قومی، رہائش اور ملکی معاملات میںکفایت شعاری پر ممکن حد عمل کرنا، کردار مومن نانہ ،کرپشن سے بل لکل پاک، اقرابا پروری سے کوسوں دور، فلاحی کاموں کو ریکارڈ حد تک پایا تکمیل تک پہنچانے والا، پاکستانی عوام کی دل کی دھڑکنوں اور امنگوں کے مطابق پاکستان کو شاعر اسلام علامہ شیخ محمداقبال کے خواب اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق، مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے لیے کوششیں کرنے والا، صبح شام ہر تقریب میںبہ دبنگ دہل بغیر کسی معذرتانہ یا احساس کمتری کے اللہ کے بروصہ پر بار بار ملک کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کرنا۔کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ سخت رویہ اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے عزم پرقائم۔ ساری باتیں صحیح بلکہ سو فی صد صحیح ہیں۔ مگر عمران خان کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اپنی نیک خواہشات کو آپ اکیلا پورا نہیں کر سکتے۔اس کے لیے ہمیشہ ایک مخلص اور با کردار ٹیم کی ضرور ت ہوتی ہے۔مگر آپ کے وزیر تو وہی ہیں جو کل کرپشن کرنے والے زرداری صاحب اور نواز شریف کے ساتھ تھے۔
سابقہ دور میں ان ہی کی چشم پوشی کی وجہ سے مدینہ کی فلاحی ریاست کی طرف پیش قدمی نہیں ہوئی۔ بلکہ کرپٹ سیاست کی کرپشن میں مدد مدد کار رہے۔ کیا آپ بھی ایسے کرپٹ لوگوں کی ٹیم کے ساتھ مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست اور کرپشن فری پاکستان بنا سکتے ہیں؟ کرپشن کا پیسہ واپس لے کر غریب عوام کے خزانے میں ڈال سکتے ہیں؟ اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بنو اُمیہ میں، عمر بن عبدالعزیز ایک نیک دل بادشاہ گزرا ہے۔جسے علمائے اسلام اور امت پانچواں خلیفہ راشد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب وہ تحت بیٹھا تو بادشاہی طور طریقے چھوڑ کر اس نے با لکل وہ ہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو خلفاء راشدین نے کامیابی سے کی تھی۔ اس کے پاس بادشاہوں والے اختیارت بھی تھے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے پاس اصلاح کا کام کرنے والی ٹیم نہیں تھی بلکہ بنو امیہ کے پہلے والے باشاہوں والی ہی ٹیم تھی۔ جو پرانے نظام سے مستفید ہونے کی عادتیں لیے ہوئے تھی۔
عوام کے اسلامی طرز کی تربیت کا کام کرنا تو دور کی بات، بادشاہت کو واپس مدینہ کی اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی نیت بھی نہیں تھی۔پھر ان ہی ظالموںنے عمر بن عبدالعزیز کو جلد ہی راستے سے ہٹا دیا تھا۔عمران خان آپ کی نیت پر شک کرنے کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے سارے کرپٹ لوگوں کو اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔آپ کو اتنا بھی ادراک نہیں کہ ان ہی لوگوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ بدنام ہوئی ہیں۔ بین القوامی اہل کاروں اور ان لوگوں آپ کے گرد گیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔آئی ایم ایف کے ملازموں کا پاکستان کے اداروں میں آنا آپ کے خلاف جائے گا۔ ملک میں مہنگائی جو آپ کے پہلے وزیر خانہ کے دور میں بڑھی ، اس کو یہ لوگ سونامی کی حد تک لے جائیں۔ عوام کی چیخیںنکلے گیں۔ آپ کے نیک ارادے دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے آپ کے سارے وعدے سچے اور کھرے تھے ۔ آپ اس میں مخلص بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہترہے خود کشی کر لی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے حکومت نے ٣٢ ارب ڈالر کے قرضے آپ کی حکومت کے کھاتے میں ڈالے۔ جب آپ کو اقتدار ملا توملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ قرضے ادا کرنا تو کجا اس کا سود ہی ادا کرنا ہی مشکل تھا۔
آپ دوست ملکوں کے پاس گئے اور کچھ مدد حاصل کی جو قابل تعریف ہے۔کیونکہ اس سے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔مگر یاد رکھیں آپ کے دوست ملایشیا ء کے موجودہ حکمران کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے ہے کہ جس ملک کا دیوالیہ نکالنا ہو اسے آئی ایم ایف کے حوالے کر دو۔کیا یہ بات درست نہیں ثابت ہو رہی کہ نون لیگ حکومت کو آئی ایم ایف ہی نے دیوالیہ تک پہنچایا۔ اب آپ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔ معاہدہ ہونے والا ہے۔ آپ نے آئی ایم ایف کے ملازموں کو پاکستان کے اداروں میں لگا دیا ہے۔ سراج الحق صاحب سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی صحیح کہتے ہیں کہ اب آئی ایم ایف والے لوگ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے مذاکرات کریں گے۔جیسا اوپر عرض کیا ہے ،یہ لوگ اس سے ملک میں مہنگائی کے طوفان کوسونامی میں بدل دیں گے۔ جس کے سامنے آپ کی حکومت نہیں ٹھر سکے گی۔نون لیگ نے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کی بجائے اور ملک میں انڈسٹری کو فحال کرنے کے بجائے میگا پروجیکٹس پر روپیہ خرچ کیا۔ جس سے واپس منافع حاصل نہیں ہوا۔ صرف شہر کے کچھ طبقات کو سہلولت اور آرام ملا ۔میگا پروجیکٹس کی بجائے ملک کی انڈسٹری کو فحال کیا جاتا تو زر مبادلہ ملتا۔جب تک ملک کی ایکسپورٹ نہیں بڑھتی ملک کے اندر زر مبادلہ یعنی سونا نہیں آتا۔جب تک آپ اپنے ملک کی اشیاء باہر ملکوں کو ایکسپورٹ نہیں کرتے ہیں تو آپ کو زر مبادلہ نہیں ملتا ہے۔ جب انڈسٹری کام کرتی ہے تو ملک میں بے روزگاری ختم ہوتی ہے۔
عوام میں قوت خرید بڑھتی ہے۔ لوگ خوش حال ہوتے ہیں۔ جب ملک میں قرضے میگا پروجیکٹس کی بجائے ترقیاتی پرجیکٹس پر خرچ ہوتے ہیں تو ملک ترقی کرتا ہے۔نواز شریف دور میں پاکستان میں ترقیاتی کاموں کے بجائے ایسے میگاپروجیکٹس لگائے گئے جس سے چند لوگوں کو تو آرام ضرور ہوا،ملک کی کثیر آبادی تک ان پروجیکٹس کے فواہد نہیں پہنچے۔ نہ ہی ان پروجیکٹس سے واپس آمدنی ہوئی ۔ جس کی وجہ سے ملک کا خزانہ نہیں بھرا کہ جس سے قرضے واپس کیے جاتے۔ملک کی کپڑے کی انڈسٹری جو پاکستان کی بنیادی انڈسٹری ہے بیٹھ گئی۔پاکستان زرعی ملک ہے مگر زراعت پر دھیان نہیں دیا گیا۔صرف نمائشی کام کیے گئے یا اپنی مشہوری کے لیے صرف اعلانات کیے۔زرعی اشیاء ضرورت بھارت سے امپورٹ کی گئیں۔ اس سے ملک کی زرعی اشیاء بھارت کی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر سکیں۔ اس سے کاشت کار بدحال ہوا۔آئی آئی ایم ایف اگر ایسی انڈسٹری کے لیے قرضے دیتی جس سے ملٹی پلایئیر کام کرتا واپس منافع ملتا۔ ملک میں اشیا ء تیارکر کے باہر ایکسپورٹ کی جاتیں تو زر مبادلہ ملتا۔ جس سے قرض اُترتا۔مگرمیٹرو بس اور گرین ٹرین اور موٹر وایز سے لوگ سفر تو کر رہے ہیں۔
لوگوں کے لیے آسانیاں تو پیدا ہوگئیں، مگر ملک کے خزانے میں کچھ بھی جمع نہیں ہوا۔ یہ ہے کمال آئی ایم ایف کا ،کہ عوام کا معیار زندگی تو بڑھ گیا مگر ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا گیا، بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے آپ کے دماغ میں تھا کہ کرپشن کا پیسہ جو بیرون ملک پڑا ہوا ہے ۔ اسے واپس لا کر ملک کے خزانے میں جمع کریں گے اورسارے قرضے ادا ہو جائیں گے۔ مگر کرپشن کا پیسا واپس لینے والے اداروں کی قانونی پروسیجر کی وجہ سے دیر لگ رہی ہے۔ اس لیے ابھی تک پیسہ ریکور نہیںہوسکا۔ آپ کے اسلامی ذہن اور ملک کو آگے بڑھانے کی سوچ کے خلاف گریٹ گیم کے اہلکار، جو پاکستان کو نہ ایٹمی اور نہ ہی اسلامی اور نہ ہی ترقی کرتا ہوا دیکھانا چاہتے ہیں، یہ لوگ آپ کو کامیاب نہیں ہونے دیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مقامی اوع اسلام دشمن بیرونی طاقتوں نے بھی آپ کے گرد گیرا تنگ کر دیا ہے۔
اس لیے آپ کو انقلابی قدم اُٹھانے پڑیں گے۔ سب سے پہلے ملک سے لوٹا ہوا پیسا واپس لانے کے لیے ملک میںکوئی خاص انتظام کریں۔ یہ چائنا ٹائپ یا سعودی ٹائپ نظام بھی ہو سکتا ہے۔اپنے اِرد گرد سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لوگوں کو ہٹا کرپیٰ ٹی آئی کے نظریاتی لوگ جو آپ کے نظریات کے قریب ترین ہیں ،کو لگانے چاہیے۔ آئی ایم ایف سے آئے ہوئے لوگوں کو فوراً ہٹا کر ملک میں موجود ایسے ٹیکنوکریٹ کو لگائیں جو پاکستان سے مخلص ہیں۔اخباری خبرکے مطابق آپ کے چین کے دورے پر کڑوروں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ ملک کے صدر صاحب کے لیے خبر لگی کہ مشاعرے پر لاکھوں خرچ کیے ،کیا یہ کفایت شعاری میں آتا ہے۔ اخبار نے فوٹو کے ساتھ خبر لگائی کہ پابندی کے باوجود پنجاب حکومت کے اہلکاروں نے حکومتی خرچے پر افطار ڈنر کا انتظام کیا۔ ہر حکومتی ذمہ دار کو کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔
ملک میں کوئی بھی میگا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے کہ اس سے عوام کوکتنا فاہدہ ہو گا۔جیسے سستی بجلی اور آبی ذخاہر کے لیے ڈیم کا بننا۔ملک میں انڈسٹری کو فوراً اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ انڈسٹری کی پیداوار باہر ملکوں کو ایکسپورٹ کی جائیں اور ملک کو زر مبادلہ ملے۔ملک کے سارے سیاسی لیڈروں، فوج کے آفیسروں،بیرو گریٹس ، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کھاتے پیتے لوگوں سے ملک کے لیے قربانی مانگنی چاہیے۔ آئی ایم ایف سے مذید قرضے لینے کے بجائے پرانے قرضے ادا کرنے کے لیے مناسب وقت مانگنا چاہیے اور کرپٹ لوگوں سے کرپشن کا پیسا واپس لے کر قرضے ادا کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے سپریم کورٹ میں ٤٣٦ آف شور کمپنیوں میں نام آنے والوں کے خلاف درخواست داہر ہے۔ اس پر فوراً کاروائی شروع کر کے سب سے ناجائز دولت واپس لے کر قرضے ادا کیے جائیں۔
صاحبو!ویسے تو نظر آتا ہے کہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں،جو چالیس سال سے بدل بدل کے حکمرانی کرتی رہی ہیں ملک کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ عوام کے حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔عوام پریشانی، مہنگائی ، بے روز گاری ،لا اینڈ آڈر،بجلی گیس کی لوڈ شیدنگ اور دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ دکھوں کے مارے لوگوں نے پی ٹی آئی کے منشور کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا۔ نئی پارٹی اقتدار میں آئی ہے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے۔ عمران خان ذاتی طور پر تو ٹھیک ہیں۔ مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لوگ اپنے ساتھ ملا کر مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے۔ پہلے دو پارٹیوں کی طرح تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کی نوید سنانے والی ،پی ٹی آئی بھی عوام کے مسائل حل نہیں کر سکے گی۔لہٰذا اب آنے والے الیکشن میں عوام کوایسی پارٹی کو سامنے لانا چاہیے جو پارٹی اپنے آپ کو کرپشن فری ثابت کر چکی ہے جس کی سند سپریم کورٹ نے بھی دی۔جس کے اندر پڑھے لکھے ، ایثار سے لبریز،کفایت شعار لوگ کثیر تعداد میں موجودہیں۔ اس پارٹی کے لوگ سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں۔اس پارٹی کے لیڈروںکو عوام کی خدمت کا اجر اپنے رب سے چاہیے۔ جو صحیح معنوں میں مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنے کے قابل بھی ہیں۔ یہ پارٹی اسلامی کی فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے پچھلی پون صدی سے تیاری کر رہی ہے۔ یہ پارٹی حقیقی معنوں میں علامہ اقبال کے خوابوں اور قائد اعظم کے اسلامی وژن اور دو قومی نظریہ کی جان نشین ہے ۔اس نے اس کام کے لیے ہوم ورک بھی مکمل کیا ہوا ہے،بس عوام کی رائے کی منتظر ہے۔دیکھتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں پاکستان کے عوام ایسی پارٹی کو اپنی فلاح کے لیے منتخب کرتی ہے؟اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔