وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ پر بہت سے لوگوں نے حسب توفیق لکھا جلنے والے زیادہ تھے خوش ہونے والے کم لگ رہے تھے کیونکہ آج بھی میڈیا پر مافیا کا راج ہے وہ جو ایک سمت ان کے لیے متعین کی گئی ہے وہ اسی پر چل رہے ہیں کیوں کہ اس پر ان کی پر آسائش زندگیوں کی منزل کھڑی ہے لیکن سوچنا چاہیے کیا ایک قوم کی منزل یہی ہوتی ہے کہ جس کو جہاں موقع ملے وہ دوسرے کو لوٹ لے ؟اپنے لیے گھر گاڑی بنگلہ دوسرے ملکوں میں جائیدادیں ،سرکاری خرچوں پر حج عمرے فارن ٹوورز مہنگی شاپنگیں ،یہ تو خواہشات ہیں اور خواہشیں تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں کسی نے یہ نہیں سوچا ہمارا ملک ترقی کرے اس کی نیک نامی ہو اس کے پاسپورٹ کی عزت ہو اسے کوئی دہشت گرد نہ کہے کوئی اس کی سالمیت کے درپے نہ ہو کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے ہماری آنے والی نسلیں سر اٹھا کے چلیں ،یہ تو پاکستان میں رہنے والا کوئی فرد نہیں سوچتا تیس پینتیس برسوں سے ہماری دنیا ہی بدل گئی ہے اور جب ایک شخص اس خواب کو پورا کرنے نکلا تو اس کی منزل کھوٹی کرنے والے ہمقدم ہو گئے وہ جھکا نہیں بکا نہیں لیکن اس کے خواب کو چکنا چور کرنے والے اس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اللہ اس شخص کی مدد کرے گا کیونکہ وہ بد دیانت نہیں ہے لیکن اس کے آس پاس کوئی بھی امانت دار نہیں یہ وہ چوہے ہیں جو تیزی سے اس درخت کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں جس کی چھائوں میں بیٹھے ہیں۔
اگر کسی کو قدر ہے تو وہ لوگ جو دوسرے ملکوں میں اس آس پر زندگیاں گذار رہے ہیں کب ہمارا ملک اس ہمیں ّواز دے گا کہ آئو اب میں تم سب کے خواب پورے کرنے کے قابل ہو گیا ہوں پاکستان کی بے عزتی ان کے دلوں پر آنسو بن کر گرتی ہے وہ ان لمحوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب ان کے لیے عزت و وقار کا کوئی لمحہ آئے جب دیار غیر میں ان کے ملک کا ترانہ گونجے وہ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کریں کتنا عرصہ ہو گیا تھا انہیں لوگوں کے طعنے سہتے کھیل کے ہر میدان میں مایوسی ،قرض کا طوق گلے میں سجائے لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بننے والے تارکین وطن جو اس لیے اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں کہ ایک وہی ادارہ ہے جس نے ان کا سر جھکنے نہیں دیا ورنہ جو اینٹ اٹھائو اس کے نیچے سے صرف گند نکلتا ہے ،میں ان لمحوں کے آنکھوں دیکھے احوال کو سننے کی منتظر تھی کہ میرے ملک کے وزیر اعظم کو لوگوں نے کس طرح سر آنکھوں پہ بٹھایا ،کس طرح اس کی پزیرائی کی وہ جو قوم کا پیسہ بچانے کے لیے عام سی فلائٹ میں عام مسافروں کے ساتھ عام سے کپڑے پہن کر بغیر کسی پروٹوکول کے ایک سپر پاور کے در پر جا پہنچا ،وتعزو من تشائو تزلو من تشائ۔۔کیا ہم نے سوچاکہ اس شخص کو عزت کیوں ملی؟
بہت سے تبصرے اور تحریریں پڑھی ہیں میں نے اس دورے سے متعلق لیکن جو مزہ ٹورنٹو سے روحی ثمینہ کی تحریر پڑھ کر آیا ہے آنکھوں دیکھا وہ احوال روح میں ٹھنڈک سی اتار گیا لکھتی ہیں 19جولائی کی شام کو جب میں نے واشنگٹن ڈی سی جانے کے لیے کنیڈین بارڈر کراس کیا میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں ایسے لمحات کا حصہ بننے جا رہی ہوں جو ہمیشہ کے لیے میری یاد اور تاریخ کا حصہ بن جائیں گے کس خاص قومی دن ،واقعے یا کھیل میں جیت کے موقع پر جوش و خروش ،ولولہ نعرے اور جذبہ حب الوطنی تو ساری زندگی دیکھا ہے لیکن جو ولولہ ،جوش و جذبہ اور محبت میں نے ان تین دنوں میں عمران خان کے لیے لوگوں کے چہروں اور آنکھوں میں دیکھی ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا عمران خان کے استقبال کے لیے پاکستان ایمبیسی کے باہر جمع ہونے والا مجمع ہو ،اس کی تقریر کو سننے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب لوگوں کی بھیڑ ہو یا اس کی White houseآمد پر سڑکوں کے کنارے اور پارکوں میں جگہ جگہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے اور نعرے لگاتے لوگوں کی ٹولیاں ہوں یوں لگتا تھا جیسے انتہائی گرمی کی وارننگ کے باوجود تپتی دھوپ اور تپش میں گھنٹوں کھڑے ہو کر جلنے کا کسی کو احساس ہی نہ ہو کسی سیاسی لیڈر سے اتنی محبت اور اس کی اتنی پزیرائی پر غیر بھی دم بخود تھے۔
ہم سے جگہ جگہ پوچھتے تھے کون آیا ہے ؟روک روک کر وڈیوز بناتے تصویریں کھینچتے وہ بھی حیران تھے سارا میڈیا امڈ آیا تھا ہم جیسے عام سے لوگوں سے خان کے طفیل انٹر ویو ہو رہے تھے کیمرے میں لیا جا رہا تھا 21جولائی کو ایرینا کے باہر ایک ہجوم تھا جو بڑھتا جا رہا تھا وہیل چیئر پر بیٹھی گرمی سے بے حال ہوتی بزرگ خواتین ، گھنٹوں سے کھڑے بوڑھے اور بچے ،جوان !انہیں نہ قیمے والے نان لائے تھے نہ بریانی یہ وہ تھے جو نہ جانے کہاں کہاں سے اپنے خرچے پر لمبی ڈرائیو یا فلائٹ لے کر خود پہنچے تھے کسی کے ماتھے پر شکن نہیں تھی کسی کو گرمی یا تھکن کا گلا نہیں تھا سب کو صرف خان کا انتظار تھا ایرینا کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی جو رپورٹس کے مطابق کبھی باسکٹ بال کے فائنل میں بھی ایسے نہیں بھرا تھا لوگ قومی ترانہ گاتے ناچ اور جھوم رہے تھے عمران خان کے سٹیج پر آنے کے بعد تو جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی لوگوں نے نعرے لگا لگا کر آسمان سر پہ اٹھا لیا شائد میری طرح کسی کو احساس ہی نہ تھا کہ ہمارے آس پاس کتنا شور ہے عمران خان کی زندگی کی جدو جہد کی داستان کی دکھائی جانے والی وڈیو میں جب اسے کینٹینر سے گرتے اور پھر اسے ہاسپٹل میں بستر پر پڑے ہوئے دکھایا گیا تو لوگوں کو اپنی طرح روتے بھی دیکھا اس کی ایک ایک بات پر تالیاں بجاتا ہزاروں کا مجمع اس کی چھوٹی سی شرارتی بات پر قہقہے لگاتا لوگوں کا ہجوم ،جب اس سفر کے اختتام پر ہم واپس کینیڈا میں داخل ہوئے تو ہمارے بتانے سے پہلے ہی بارڈر پر بیٹھے آفیسر کو علم تھا کہ ہم واشنٹن کس سے ملنے گئے تھے۔
کسی نے مجھ سے کہا عمران خان سے پہلے لوگوں کو محبت تھی اب عشق ہو گیا ہے یہ تین دن اس بات کی سچائی کا ثبوت تھے اس لاوارث ،لٹی ہوئی ،بار بار بے قصور بے عزت ہوئی قوم کو ایک وارث مل گیا ہے جو ذاتی مفاد اور بھیک کی خاطر جھوٹ کو سچ نہیں کہتا جو سر جھکا کر بھکاریوں کی طرح ان آقائوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا بلکہ سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمارا سچا اور صحیح مقدمہ لڑتا ہے جو امین ہے جو مخلص ہے جو نہ جانے کیسے بار بار لوٹی گئی قوم کو کسی نیکی کے صلے میں مل گیا ہے اللہ کی رحمت کی طرح سر کا سائیبان ہو گیا ہے لوگ اس سے عشق کریں تو کیوں نہ کریں۔