اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اُن کے تمام وعدے ایک ایک کر کے صرف ایک سال میں اپنی موت آپ مر گئے، چاہے وہ سیاسی ہوں یا کوئی اور یعنی جن جن سیاسی پارٹیوں پر وہ کھل کر الزامات لگاتے رہے، الیکشن کے بعد جب ان کو حکومت بنانے کی ضرورت پڑی تو وہ یہ بھول گئے کہ ماضی میں انہوں نے کیا کہا تھا۔
ان کے نعروں کی بدولت قوم ان کے ساتھ ہوتی گئی اور پی پی پی حکومت کے پچاس سال بعد ایک سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کو پورے ملک میں اقتدار ملا مگر اپنے تمام بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر سوائے اپنے سب سے بڑے مخالف مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی کو چھوڑ کر انہوں نے ہر جماعت سے اتحاد کیا۔
سب سے پہلے ایم کیو ایم کی مخالفت سے ابتدا کرنے والے عمران خان نے اسی ایم کیو ایم کو اپنی حکومت میں نہ صرف شمولیت کی دعوت دی بلکہ سب سے زیادہ وزراء بھی اسی جماعت سے لئے حتیٰ کہ وزیر قانون جیسا اہم ترین عہدہ بھی ایم کیو ایم کو دے دیا گیا۔
چوہدری برادران کو بھی پنجاب میں اہم منصب دیا جبکہ پنجاب بینک اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باوجود ان کی بھی نیب سے گل خلاصی کروا دی۔ شیخ رشید کو ماضی میں برا بھلا کہنے والے عمران خان نے ریلوے کا محکمہ ان کے حوالے کر دیا۔ نیب زدگان پارٹی کے افراد کو نہ صرف اپنی آغوش میں رکھا بلکہ وزارتیں بھی سونپیں، معاون خصوصی اور مشیر اطلاعات جو پارٹی کا ترجمان تصور کیا جاتا ہے، ایک ایسی خاتون کو لگا دیا گیاجو خود الیکشن ہار چکی تھیں اور ان پر سابق دور میں وزیر صحت کی حیثیت سے کرپشن کے الزامات لگے تھے اور نیب نے ان پر ہاتھ ڈالنے کی پوری تیاری کر لی تھی مگر آج وہ وزیراعظم کی ترجمان ہی نہیں بنی ہوئیں بلکہ پی ٹی آئی کی معزز ترین حیثیتوں میں تمام اُن پرانے افراد سے آگے نکل چکی ہیں، جنہوں نے پی ٹی آئی کے لئے اصل قربانیاں دیں۔ الغرض اقتدار حاصل کرنے کے لئے اتنے یوٹرن لئے کہ آج وہ خود کہتے ہیں کہ جو سیاست دان یو ٹرن نہیں لیتا وہ مکمل سیاستدان ہو ہی نہیں سکتا۔
اب ہم معیشت کے میدان کی طرف چلتے ہیں، وہ ہمیشہ کھل کر فرماتے تھے کہ ہم مر کر بھی آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لیں گے مگر اپنا قیمتی سرمایہ اور سابق وزیر خرانہ اسد عمر کو قربانی کا بکرا بنا کر اس کو فارغ کر کے آئی ایم ایف کی طرف چلے گئے اور آج اس کی من مانی شرائط پر قرضے حاصل کر رہے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ تمام کی تمام صنعتیں زوال پذیر ہیں اور 30ستمبر کے بعد دما دم مست قلندر پھر شروع ہوگا۔ تاجر اور صنعتکار دوبارہ ایف بی آر سے دو دو ہاتھ کر رہے ہوں گے۔
درآمدات اور برآمدات گرنے سے خود حکومت کا بجٹ پہلے ہی خسارے میں جا چکا ہے اور مزید نیچے جائے گا۔ بیروزگاری کا ایک سیلاب جو 30ستمبر تک رکا ہوا تھا، دوبارہ کاروبار کا بھٹہ بٹھائے گا مگر کسی کو بھی فکر نہیں۔ روزانہ نئے نئے قوانین، آرڈیننس کابینہ بنا بنا کر ہر ایک سے دو دو ہاتھ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ صرف ایک میڈیا ہی آزاد تھا، اس کے پائوں میں بھی بیڑیاں ڈالنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ وہ بھی اب اکھڑا اکھڑا ہے۔ وہ تمام خرابیاں جو ماضی کی حکومتوں میں تھیں، آج وہ تمام بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہیں۔
نااہل وزرا ماضی کے وزرا کی طرح اپنے دوستوں، اقربا کو نواز رہے ہیں۔ لسٹ اٹھا کر دیکھ لیں، میڈیا ان کو بے نقاب کر رہا ہے مگر ہمارے وزیراعظم عمران خان خاموش ہیں اور قرضوں پر قرضے لئے جا رہے ہیں۔ جبکہ گزشتہ 1سال سے کوئی بھی ترقیاتی کام یا نیا پروجیکٹ نہیں شروع کیا گیا۔ صوبے بھی اپنا رونا رو رہے ہیں کہ وفاق ہمیں فنڈز مہیا نہیں کر رہا، ہم کیسے اپنے صوبے میں ترقیاتی کام جاری رکھیں۔ اسٹاک ایکسچینج نیچے کی حدیں چھو چکی ہے۔ سب سے اہم بات حکومت نے تمام کرپٹ سیاستدانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ صرف یہ ایک وعدہ ہے جو وزیراعظم عمران خان نے پورا کیا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا، کیا 1روپیہ بھی ان سے وصول ہوا؟ ان کو الٹا مراعات مل رہی ہیں، ائرکنڈیشنر اور گھر کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، اسمبلیوں میں بھی ان کی حاضریاں ہو رہی ہیں۔ روزانہ ایک بندے کو نیب قابو میں کر کے یکطرفہ اقدام کر رہا ہے، پھر بھی لا حاصل نتائج سب کے سامنے ہیں۔ قوم مایوسی کے عالم میں پہلے پریشان تھی اور اب پی ٹی آئی کو سپورٹ کر کے متفقہ طور پر پچھتا رہی ہے۔
ہر طرف مایوسی کا دور دورہ ہے اور وزیراعظم دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے ایک سال میں کوئی کرپشن کا اسکینڈل نہیں بننے دیا۔ اب اگلے سال آپ کو معیشت میں بہتری نظر آئے گی۔ کیا خاک نظر آئے گی؟ ڈالر بے قابو ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کے دام بغیر بجٹ پالیسی ہر ماہ بڑھ رہے ہیں۔ عام اشیاء دودھ، دالیں، گھی، آٹا، چاول، صابن، کھانے پینے کی اشیاء بشمول گوشت، پھل، سبزیاں تمام کی تمام 30سے 40 فیصد مہنگی ہو چکی ہیں اور نااہل وزراء کامیابیوں کی داستانیں سنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لاقانونیت پھر سر اٹھا چکی ہے عوام دوبارہ غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں ڈاکوئوں کی حکومت شروع ہو چکی ہے اور اگر مزید چند ہفتے اسی طرح گزر گئے تو عوام سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہیں۔ حالات بری طرح تباہی کے راستے پر قوم کو لے جا چکے ہیں، تبدیلی ایک طعنہ بن چکی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران بیڈ گورننس، اقربا پروری، کینہ پروری اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے کے نہ جانے کتنے ریکارڈ توڑنے والی سرکار اپنے کسی بھی وزیر کو فارغ کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
اب تو بوم بوم آفریدی بھی قصور اور چونیاں میں معصوم بچوں کے اغوا اور درندگی کے واقعات پر پھٹ پڑے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم صاحب سے سوال کیا ہے کہ کیا پنجاب میں آپ کے پاس کوئی بہتر اور تجربہ کار بندہ نہیں ہے۔ شاہد آفریدی کے اس سوال کے بعد وزیراعظم صاحب کے لئے کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔