تحریر : طارق حسین بٹ شان ایمپائر کی انگلی اٹھنے والے عمران خان کے اعلان سے مختلف دھرنوں اور احتجاجوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ختم کرنے کے کئی حربے آزمائے گے لیکن وہ سارے ثمرات دینے سے قاصر رہے کیونکہ پاکستانی عوام جمہوریت سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ عمران خان نے شدید عوامی دبائو کی وجہ سے اپنی انگلی والی حماقت کو خدا کی انگلی سے تشبیہ دے کر گلو خلاصی کروانے کی بڑی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی کیونکہ کسی بھی غیر حقیقی ،بچگانہ ،بے سرو پا ،اور بے تکی منطق کو غلط دلائل سے صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ انگلی کی غلط تشبیہ عمران خان کو لے ڈوبی کیونکہ ان کا اعلان جمہوریت کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ تھا لہذا اور انھیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا جبکہ رہی سہی کسر باغی نے پوری کر دی۔حکومت تو نہ جا سکی البتہ میاں محمد نواز شریف ٢٨ جولائی کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے سے نا اہل قرار پائے ۔جس کے بعد بڑے جتن ہوئے،بڑا شور مچا ،بڑی سازشیں ہوئیں، بڑے منصوبے بنے،بڑے پاپڑ بیلے گے کہ کسی نہ کسی طرح سے سینٹ کے انتخابات کوالتوا میں ڈال دیا جائے اور مسلم لیگ (ن) کی واضح برتری کے خواب کوخاک میں ملا دیا جائے تا کہ اسٹیبلشمنٹ کی قوت کو زک نہ پہنچے اور سارے سٹیک ہولڈرز اس کے سامنے سر نگوں رہیں۔ لیکن حالات کے جبر اور مسلم لیگ (ن) کی دیدہ دلیری سے اس طرح کی ساری کاوشیں ناکامی سے ہمکنارہو تی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
اگرچہ اس بارے میں حرفِ آخر کہنا ابھی بھی آسان نہیں ہے کیونکہ انتخابات رکوانے کی کاوشیں اب بھی زورو شور سے جاری و ساری ہیں اور پاکستانی سیاست اپنی عجوبہ پسندی اور غیر یقینی پسِ منظر سے بھری پڑی ہے ۔ جو سوچا نہیں ہوتا وہی ہو جاتا ہے اور سارے اس انہونی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔کسے معلوم ہے کہ کب چھڑی گھوم جائے اور ایک اور طالع آزما اقتدار کی دیوی کو اپنے چرنوں میں رکھ کر اس کے حسن کے جلووں سے اپنی دنیا روشن کر لے ۔ہر بار وعدے اور یقین دہا نیاں کروائی جاتی ہیں کہ غیر جمہوری اقدام سے گریز کیا جائے گا لیکن پھر آنا فانا میرے ہم وطنوں کی سریلی آواز سے پاکستان کے دشت و جبل اور گلیاں گونج اٹھتی ہیں اور جمہوریت کو کسی کونے کھدرے میں پھینک دیا جاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف کو زچ کرنا اور انھیں عدالتوں میں گھسیٹنا سینیٹ میں ان کی اکثریت کو تہہ و بالا کرنے کی مختلف کڑیاں ہیں لیکن قرائن سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سینیٹ انتخابات شائد اب رکوائے نہ جا سکیں اور میاں محمد نواز شریف کو سینیٹ میں اکثریت سے محروم نہ کیا جا سکے۔در اصل میاں محمد نواز شریف نے سیاست میں ایک نیا بیانیہ اختیار کر کے سب کو حیران کر دیا ہے ۔ وہ لوگ جو میاں محمد نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کا پر وردہ اور بغلی بچہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے ان کیلئے نیا نواز شریف نا قابلِ فہم ہوتا جا رہا ہے ۔میاں محمد نواز شریف نے اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور بصیرت سے ساری بازی ہی پلٹ کر رکھ دی ہے ۔عمران خان کے پاس ٢٨ جولائی ٢٠١٧ کو سنہری موقعہ تھا کہ وہ نا اہل نواز شریف کو اپنے تابڑ توڑ حملوں سے مزید بے ہمت کر کے ناک ڈائون کردیتے لیکن ان کی کاہلی اور غلط حکمتِ عملی کے سبب میاں نواز شریف صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ مریم نواز نے اپنے والد کو جس طرح حوصلہ دیا اور انھیں ڈٹ جانے کا مشورہ دیا وہ سب کے اذہان سے ماوراء تھا۔کوئی اس بات سے لاکھ اختلاف کرے لیکن یہ بات اظہر من الشس ہے کہ مریم نواز کی للکار سے پاکستان کی فضا دلکش اور پر کشش ہو گئی ہے اور عوام مریم نواز کی جراتوں کے مداح بنتے جا رہے ہیں۔
جرات مند انسان ہی تاریخ کا دھارا بدلا کرتے ہیں اور مریم نواز کی جراتیں ایک نیا باب رقم کر رہی ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے ظلم و جبر سے خوفزدہ ہو کر سعودی عرب جلا وطن ہو جانے والے نواز شریف سے یہ امید کیسے کی جا سکتی تھی کہ وہ جمہوری شمع کا پاسبان بن کر ابھرے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑا ہوجائیگا۔وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہر اس قوت کو للکارنے کی جسارت کرے گا جن کے سامنے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان بزمِ خویش یہ سمجھ رہے تھے کہ میاں محمد نواز شریف ایک بھولی بسری داستان بن گئے ہیں اور پاکستانی سیاست سے ان کا کردار ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے اور اب ان کی فتح کی راہ میں کوئی شہ مزاہم نہیں ہو سکتی لیکن جی ٹی روڈ مارچ اور عدلیہ کو للکارنے کے بیا نیہ نے سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیاہے۔در اصل عمران خان سیاست کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر رہے اور بر وقت فیصلہ کرنے سے معذور رہے جس سے میاں محمد نواز شریف کو نئی زندگی مل گئی اور جس کا انھوں نے بھر پور فائدہ اٹھا یا اور خود کو زیادہ مضبوط اور معاملہ فہم ثابت کیا۔
عمران خان فتح کے جشن میں ایسے الجھے کہ بنیادی فیصلے کرنے کی صلا حیت کھو بیٹھے اور فوری انتخابات کے نعرہ کو حقیقت نہ بنا سکے۔برادرم سہیل وڑائچ نے اپنے کئی کالموں میں فوری انتخابات کے مطا لبے کو شدو مد سے اٹھا یا لیکن جھنیں اٹھا نا چائیے تھا وہ اسے اٹھانے میں ناکام رہے اور اپنی خود ساختہ فتح کے تصور میں مگن رہے۔٢٨ جولائی ٢٠١٧ کا وقت ہی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر وزنی ہتھوڑا مارنے کا تھالیکن پی ٹی آئی کی اندرونی سیاست اور وزیرِ اعلی پرویز خٹک کی ضد ،ہٹ دھرمی اور انکار کی وجہ سے فوری انتخابات کا نعرہ پھسپھسا ہو گیا جس سے اقتدار کی ڈور کا سرا عمران خان کے ہاتھوں سے کھسکنا شروع ہو گیا۔ اور اب حالت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے گڑھ پشاورمیں تاریخی جلسے کے انعقاد سے انھیں مشکل میں ڈال دیا ہے اور ان کی مقبولیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔وہ شہر جہاں سے پی ٹی آئی نے اے این پی جیسی مضبوط جماعت کو ناکوں چنے چبوائے تھے وہاں پر اسے مسلم لیگ (ن) جیسی کمزور جماعت سے خطرات محسوس ہو رہے ہیں۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کسی پر کشش بیانیہ کی عدم موجودگی میں سیاسی گرائونڈ کھوتی جا رہی ہے اور ٢٠١٨ کے انتخابات میں پشاور سے اس کی کامیابی پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔،۔
کیا ایک ناا ہل شخص اتنا طاقتور ہو سکتا ہے کہ وہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو للکارے اور وہ صفائیاں پیش کرتے رہیں ۔جو عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باوجود بھی عوامی عدالت میں خود کو بے گنا ثابت کر دے اسے ایک شاطر،چالاک اور ذہین سیاستدان ہی کہا جا سکتا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میاں محمد نوازشریف کے بارے یں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ بات کو بآسانی سمجھنے کے جو ہر سے نا بلد ہیں لیکن جب کوئی بات ان کی سمجھ میں آ جاتی ہے تو پھر انھیں اس سے روکنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔مریم نواز نے اپنے باپ کے کان میں جو سر گوشی کی ہے اسے انھوں نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا ہے اور فتح و شکست سے بے نیاز اس ڈگر کے مسافر بن گے ہیں جس کی آخری منزل وہ نظامِ عدل ہے جس میں منتخب وزیرِ اعظم کو نکالا نہ جا سکے ۔سینیٹ کے انتخابات سے بہت سی جماعتیں اور گروہ پریشان ہیں کیونکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی واضح برتری کے امکانات پوشیدہ ہیں۔
ہارس ٹریڈنگ سے مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکا جا سکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو پنجاب اور وفاق سے کس طرح روکا جائے کیونکہ وہاں کے ممبران اپنی بولی لگوانے اور سرِ عام بقائو مال بننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔وہ اب بھی میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں اور سینیٹ میں اپنی جماعت کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف بنیادی طور پر پنجاب کے لیڈر ہیں بالکل ویسے ہی جیسے پی پی پی سندھ کی جماعت ہے، پی ٹی آئی کے پی کے کی پارٹی ہے اور ایم کیو ایم کراچی کی جماعت ہے۔ان کے اپنے گڑھ میں انھیں کمزور کرنا اور ہارس ٹریڈنگ سے ووٹ ہتھیا لینا شائد آسان نہیں ہے۔کوششیں تو بہت کی جا رہی ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو پنجاب میں کمزور کیا جائے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔پیر سیالوی کا کارڈ اور ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کا شوشہ بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو عدمِ استحکام سے ہمکنار نہ کر سکے جس سے مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو مزید استحکام نصیب ہوا۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال