گیارہ مئی سے قبل پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کے احتجاج سے متعلق جتناشروع مچایا گیاتھااُس سے تویہی اندازہ ہورہاتھاکہ جیسے عمران خان اسلام آباد کے ڈی چوک پر ہونے والے اپنے کامیاب جلسے اور اِس میں اپنے کئے جانے والے خطاب کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے مگر گیارہ مئی کے جلسے اور خطاب کے بعد یوں لگ رہاہے کہ اَب جیسے سب کچھ اُلٹاہوگیاہے ،وہ عمران خان جو حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے نکلے تھے ،بقول ِ حکومت ڈی چوک والے اُن کے اُوٹ پٹانگ خطاب اور بے ضبط جلسے کے بعد حکومت نے عمران خان کو ٹف ٹائم دے دیاہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کے بعدیہ بھی لگ رہاہے کہ جیسے عمران خان کو آئندہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے اپنے اتنے کارندے جمع کرنابھی دشوارسے دشوارترہوجائے گا،یعنی یہ کہ آج کے بعد عمران خان کو کسی خوش فہمی میں مبتلاہوئے بغیرفوری طورپر اپنااحتساب کرناہوگا اور اِسی کے ساتھ ہی جہاںعمران خان کو ا پنے جلسے اور خطاب میں پائی جانے والی خامیوں کوبھی دورکرنے کی اشدضرورت ہے تو وہیں عمران خان پر یہ بھی لازم ہوتاہے کہ اَب عمران خان اپنا ایک لائن ایجنڈادیںاور کسی کے کہے پر کان دھرنے کے بجائے اپنے ایجنڈے پر کاربندرہ کر باہر نکلیں تو سارے محب وطن پاکستانی اِن کے ساتھ ہوں گے۔
اگرچہ آج عمران خان نے علامہ طاہر القادری کے ایجنڈے پر لبیک کہتے ہوئے اِن کے پیغام پر نہ صرف خودعمل کیا بلکہ اپنے ساتھ اپنے لاکھوں کارندوں کو بھی لے کر حکومت مخالف تحریک چلاکر یہ ثابت کرنے میں متحرک رہے کہ اِن کے جلسے اور خطاب سے حکومت کا دھرن تختہ کردیاجائے گا،مگرایساتونہیں ہوسکاہے ہاں البتہ ..اَب یہ ضرورہوگیاہے کہ عمران خان نے اپنے اور اپنے کارکنوں کے لئے مشکلات ضرورپیداکردی ہے۔
اُدھرکینیڈاسے علامہ طاہر القادری نے بھی اپنے ٹیلی فونک خطاب میں مُلک میں انقلاب کے لئے ایک نئی اور ولولہ انگیزتحریک چلانے کا اعلان اپنے دس نکاتی ایجنڈے کے بعد کرکے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر قوم میں مزید شعوربیدارہوجائے توبہت جلدمُلک میں انقلاب آجائے گا جیساکہ آج کے جلسے اور ریلیوںسے محسوس کیاجاسکتاہے کہ پاکستانی قوم میں شعورکی منزلوں نے کروٹیں لینی شروع کردیں ہیںاور اَب وہ دن دورنہیں کہ مُلک میں نصف صدی سے زائد فرسودہ نظاموں کی تبدیلی کے لئے بھرپورانقلابی تحریک چلاناضروری ہوگیاہے،اِس موقع پر علامہ طاہرالقادری کا کہناتھاکہ اگرقوم نے اِن کی آوازپر لبیک کہاتو جلدہی وہ کینیڈاسے تیرہ گھنٹے کاسفرکرکے مُلک واپس آئیں گے اور مُلک میں رہ کرہی موجودہ فرسودہ نظاموں کی تبدیلی کے لئے انقلاب کی کال دیں گے اور پھریہ انقلاب کی کال اُس وقت تک واپس نہیں لی جائے گی جب تک مُلک میں رائج ایسے فرسودہ نظاموں اور اِن نظاموں کو پروان چڑھانے والے اداروں کی کایانہیں پلٹ دی جائے گی۔
اگرچہ اِن دنوں علامہ طاہر القادری جی تو کینیڈامیں ہی مقیم ہیں مگراِن کی نظرمُلک میں پل پل رت بدلتی سیاست اور پلتے پھولتے عوام کا خون نچوڑتے فرسودہ نظاموں اور اِن نظاموں کو پروان چڑھانے اور اِنہیں مددفراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی مرکوزہے،آج یہی وہ خاصیت ہے جو ہر محب وطن پاکستانی کی دل کی آوازبن کر اُبھررہی ہے، اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج مُلک میں رائج فرسودہ نظاموں کی وجہ سے مُلک کے غریبوںکو کسی بھی شعبے میں ایک رتی برابربھی ریلیف نہیں مل رہاہے، یہی وجہ ہے کہ آج مُلک میں رائج فرسودہ نظاموں کی وجہ سے مُلک کا غریب توغریب ترہوتاجارہاہے اور دوسری جانب امیرآدمی امیرترہوگیاہے،آج نظامِ حکومت چندخاندانوں کے ہاتھ کی چڑیابن کررہ گیا ہے۔
جس کے مزے صرف چندہی لوگ لوٹ رہے ہیں ، یہ جس طرح اپنی مرضی سے چاہتے ہیں حکمرانی کے تخت پر آن دھمکتے ہیں اور جب اِن کا جی بھر جاتا ہے یہ اقتدار کی مسندپر اپنے جیسے کسی نااہل اور کرپٹ کو بیٹھاکر نکل جاتے ہیں اقتدار کا یہ گورکھ دھندا کوئی نصب صدی سے ہی چل رہاہے اور کبھی کبھی اقتدار کی بہتی گنگامیں ہمارے وردی والے بھائی بھی گنگا اشنان کرلیتے ہیں،غرض کے گزشتہ 67 سالوں سے اقتدار کی دوڑ میں سول اور وردی والے یہی اُلٹ پلٹ کر حصہ لیتے آرہے ہیں اقتدارکے اِس کھیل میں غریب کے حصے میں مایوسی آرہی ہے۔
Pakistan
یہ ٹھیک ہے کہ آج اگر مُلک میں رائج فرسودہ نظاموں کو تبدیل کرنے کے لئے ہرلحاظ سے کوئی پوتر آجائے توکوئی حرج نہیں ہے کہ مُلک میں رائج فرسودہ نظاموں کو تبدیل کرنے کے لئے قوم شعورسے بیدارہوکر اِس کی کمرکے پیچھے،دائیں بائیں اور سامنے نہ کھڑی ہوجائے،تو بس آج ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ قوم کسی پوتر کا انتظار کئے بغیر خود بھی نظاموں کو تبدیل کرنے کے لئے باہر نکلے اور مُلک کو فرسودہ نظاموں اور اِن نظاموں کی معاونت کرنے والے اداروں کے خلاف تحریک چلائے اور فرسودہ نظاموں کو بدل کررکھ دے۔
ہاں تو میں مندرجہ بالا سطورمیں مسٹرسونامی عمران خان یا عمران کان کے جلسے اور اِس جلسے میں کئے جانے والے اِن کے خطاب کے بارے میں بات کررہاتھا یہ سلسلہ وہیں سے جوڑرہاہوںکہ اَب کوئی میری یہ بات مانے یہ نہ مانے مگر میں اپنے مشاہدات اور تجربے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچاہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین مسٹرعمران خان یا عمران کان کا گیارہ مئی کا جلسہ حکومت اور مُلکی سیاست میں کسی تبدیلی کے لحاظ سے کسی بھی سونامی کے خطرات سے پوری طرح عاری تھااِس میں کہیں بھی یہ نظرنہیں آیاکہ مسٹرعمران خان کا سونامی مُلکی سیاست یا نظاموں کی تبدیلی کے لئے بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوگابلکہ اول تاآخربس یہی لگاکہ جیسے عمران خان کے جلسے اور اِن کے خطاب میں جابجاخامیاں ہی خامیاں ہیں،اور ایسی خامیاں جنہیں تحریرکرنے بیٹھوں تو ایسے بہت سے کالمز لکھ ڈالو ں مگر عمران خان کے جلسے اور اِن کے خطاب کی خامیاں بیان نہ کی جاسکیں۔
بہرحال ..!پھر بھی چلتے چلتے حکومت کو مخاطب کرکے اتناضرورکہناچاہوں گاکہ عمران خان نے علامہ طاہرالقادری کی آوازسے اپنی آوازملاکر مُلک میں فرسودہ نظاموں اور اِن نظاموں کو مضبوط کرنے والے اداروںماضی و حال اور مستبقل کے حکمرانوں کے خلاف باہر نکل کر یہ ثابت کردیاہے کہ عوام میںشعوربیدارہوچکاہے اور اَب یہ عمران خان یا علامہ طاہر القادری یا کوئی اور حکمرانوں کے رائج کردہ نظاموں اور اِن نظاموں کو ہوادینے والے اداروں کا دھرن تختہ کرسکتاہے لہذااَب حکمران بھی اپنا قبلہ درست کرلیں ورنہ اپنے انجام کو پہنچنے کے لئے تیاررہیں۔