تحریر : انجینئر افتخار چودھری میرا سادہ سا سوال ہے ان لوگوں سے جو کہتے ہیں عمران خان نے خیبر پختونخوا میں کیا کر لیا۔آپ نے آج کی دھماکہ خیز خبر دیکھ لی ہو گی جس میں بتایا گیا کہ خیبر پختون خوا حکومت کے احتساب سیل کے کہنے کے اوپر صوبائی وزیر معدنی وسائل ضیائاللہ خان آفریدی اور ان کے کئی ساتھیوں کو قومی وسائل کی لوٹ مار کے الزام میں دھر لیا گیا ہے۔آفریدی کو گرفتار تو دوروز پہلے ہی کر لیا گیا تھا لیکن اعلان آج ہوا ہے۔ضیاء اللہ سے میری ملاقاتیں پارٹی سیکریٹیرٹ میں ہوتی رہی ہیں ہیلو ہائی تک ہی محدود رہیں۔لیکن میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ فائلوں کے انبار لئے پارٹی دفتر آتے رہے۔آج معلوم ہوا کہ شاید وہ اپنی صفائی پارٹی میں پیش کرنے آتے ہوں گے۔ظاہر ہے انہیں کہہ دیا گیا ہو گا کہ آپ اپنے آپ کو وہاں سے کلیئر کریں۔ایک آزاد اور منصفانہ احتساب سیل اس قوم کا خواب رہا ہے۔اس سے پہلے کے احتساب کے ادارے سیاسی طور پر مخالفین کو نشانہ بناتے رہے کہتے ہیں پوری ق لیگ بنی احتساب کمیشنوں کی رپورٹوں دھمکیوں اور دھونس دھاندلی کی بنیاد پر۔
ہر کسی کی فائل کھول دی جاتی اور اسے کہا جاتا یا ق لیگ جائن کرو یا جیل اور یوں جنرل مشرف کی ایماء پر جنرل احتشام ضمیر بھی حرکت میں برکت ڈالتے رہے حافظ حسین احمد نے تو یہ بھی کہا تھا کہ لوگ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ق لیگ میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں البتہ ضمیر ،جعفری صاحب کا ہے ان کا اپنا نہیں(یاد رہے جنرل احتشام ضمیر مشہور شاعر ضمیر جعفری کے فرزند ارجمند تھے) ایک صاحب سیف الرحمن تھے جنہیں احتسابالرحمن کہا جاتا ہے موصوف تو نواز شریف کے لئے دن رات ایک کئے رہے انہی کے دور میں بی ایم ڈبلیو سکینڈل مشہور ہوا پیپلز پارٹی کی ایک لیڈر کو تھانے میں رات بھر بٹھائے رکھا اس لئے کہ ان کے ابا حضور کرپشن میں شامل تھے۔آج کی مک مکا کی پارٹیاں ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ اٹ کھڑکا کئے رہتی تھیں دونوں پارٹیاں اس بات پر متفق ہو کر کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہیں کہ میں جو لوٹوں میرا اور تو جو لوٹے تیرا۔اسی سنہری اصولوں کے تحت اندرون اور بیرون ملک ان پارٹیوں نے انہی پائی ہوئی ہے۔میں ایک عرصے سے جدہ کے اسکولوں کے بارے میں لکھ چکا ہوں وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اب تو ٹی وی شوز میں بھی ذکر ہو رہا ہے خصوصا انگلش سیکشن میں قونصلیٹ کے کھرانٹ آفیسرز اور بدنام زمانہ حج سکینڈل کے لوگ پاکستانی کمیونٹی کا مال ہضم کئے جا رہے ہیں۔
کے پی کے میں کیپیکا ایکٹ اکتوبر ٢٠١٤ میں منظور ہوا جس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل جنرل ر حامد خان بنائے گئے جو پشاور کے علاقے میں اہم ذمہ داری نبھا چکے ہیں گویا وہ کے پی کے معاملات کو جانتے تھے۔وہ ایک آزاد اور با اختیا ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے ریاست کا مال ہڑپ کرنے والوں کو شکنجے میں لے لیا ہے۔یہ بات تحریک انصاف کے لئے ایک چیلینج کی حیثیت رکھتی ہے۔یہاں پارٹی کے سربراہ کی دیانت داری کی بات تو بعد کی جائے گی۔پرویز خٹک سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ آپ کی ٹیم کا ایک فرد دو سال تک آپ کی نگاہوں کے نیچے کرپشن کرتا رہا اور آپ خاموش رہے؟ڈائیریکٹر جنرل حامد خان سے میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ تفتیش کا دائرہ آگے بڑھائیں۔کوئی شخص چاہے کتنا بھی بڑا ہو احتساب سے بالا تر نہیں۔ مجھ سے سوال کیا جاتا رہا کہ کے پی کے میں تمام مائنز کا ٹھیکہ پارٹی کے ایک اہم رکن کے پاس کیوں ہیں؟میں جانتا ہوں ایک کاروباری شخص ہونے کے ناطے تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے ان کے وہاں کاروبار تھے لیکن سوال تو سوال ہے۔
PTI
پاکستان تحریک انصاف نے مملکت خدادداد کے اڑ سٹھ سالوں میں نئی تاریخ رقم کی ہے کہ سٹنگ منسٹر کے گلے میں صافہ ڈال دیا ہے۔یہ ہے احتساب جس کے ڈانڈے اسلامی تاریخ کے ان دنوں سے جا ملتے ہی جب ایک بدو کھڑے ہو کر خلیفہ ء وقت سے پوچھتا تھا کہ آپ کی قمیض کیسے بن گئی؟ میری تو نہیں بنی؟میں جب تاریخ اسلام سے حوالوں کی بات کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ آپ تحریک انصاف اور اور اس تحریک کا موازنہ کیوں کرتے ہیں۔میرا جواب سادہ سا ہے کہ کیا ہم کسی ایرے غیرے کی مثال سامنے رکھیں۔اب بتائے نہ ضیاء اللہ آفریدی کہ ہزاروں ایکڑ اراضی چند سو روپوں کے عوض کیسے لیز پر دے دی گئی اور وہاں سے بیش قیمت معدنیات کوڑیوں کے دام کیسے نکل گئیں۔اگر وہ تحقیق میں صاف بچ نکلتے ہیں تو بسم اللہ ورنہ بھگتیں۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ وزراء امراء کی لوٹ کھسوٹ پر آج تک ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
اب میں آتا ہوں اپنے ان کارکنان کی جانب جنہیں میں نے پہلے بھی کہا تھا آنے دیں سب کو اس پارٹی میں اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ چور اور لٹیرے ہیں تو آنے دیں یہ تحریک انصاف ہے اور یہاں پر جو عمران خان چاہے گا وہی ہو گا۔بہت سے دوستوں کو اعظم سواتی سے گلہ ہے اور وہ ان پر سنگین الزامات لگاتے ہیں،جائیں اعظم سواتی سے کہیں کرے کوئی واردات پھر دیکھتے ہیں عمران خان اسے تحفظ دیتا ہے یا مانسہرہ کی حولات کا راستہ دکھاتا ہے؟خدا کے لئے راستہ دیں۔خود کچھ کرنا نہیں اور کسی کو کرنے بھی نہیں دینا۔البتہ اس بات پر تو ایگری کریں کہ پرانوں نے پارٹی کو خوب لوٹا ہے ساری باتیں جسٹس وجیہ کی جھوٹی نہیں۔آپ اس بات پر متفق ہوں کہ چور چاہے نیا ہو یا پرانا اسے چور ہی کہیں گے۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں پارٹی میں پندرہ سال سے ہوں مگر پندرہ سال میں وہ لوگوں کی جیبیں کاٹتا رہا ہے تو اسے کیا کہیں گے؟اور وہ جو آتے ہیں پارٹی کا مامے خان بن جائے تم سب چور ہو میں ٹھیک ہوں ایسا نہیں چلتا۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں برداشت حوصلہ۔لیڈر کی سوچ کو آگے بڑھائیں۔آپ نے جو کچھ کیا اس کا شکریہ اور اب جو نئی ٹیم آئی ہے اس کو سپورٹ کریں۔نئے آنے والے پرانوں کی عزت نفس کا خیال کریں اور پرانے نئے لوگوں کو خوش آمدید کہیں۔اب ایک اور سوال کہ اس قسم کی سوچ کے لوگ کہاں جائیں؟کس گروپ کس گروہ کا ساتھ دیں۔نئے سے ہاتھ ملائو تو پرانا جزبز اور پرانے کا ساتھ دو تو نیا نارا ض اس سوال کا جواب اگر کسی کے پاس ہے تو مجھے ضرور دیں۔میں یہی تبلیغ کرتا رہا کہ مل جل کر رہو۔لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کوروٹی شکایت لگانے پر ملتی ہے۔میں ان سے ضرور کہوں گا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں سے میں نے ایک ماہ پیشتر ایک مری روڈ کے جلسے میں خطاب کیا تھا
Imran Khan
اس کی ویڈیو مجھے ضرور دیں جس میں صرف اتفاق اتحاد کی بات کی تھی۔عمران خان میرا لیڈر ہے میں کسی ٹٹ پونجئے کو لیڈر نہیں مانتا جو عمران کے سپاہیوں کو گروہوں میں بانٹنے کی قبیح حرکت کر رہا ہے۔لعنت بھیجتا ہوں اسمبلی کی ٹکٹوں کی سیاست کو۔نہ ٢٠٠٧ میں اس لئے پارٹی جائن کی تھی اور نہ ہی اب بھی تمنا ہے۔ایک تبدیلی کا خواب عمران نے دکھایا تھا احسن رشید نے سمجھایا تھا اس کو لے کر سیف اللہ نیازی اور کرنل یونس علی رضا جیسے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔بس دکھ اس بات کا ہے کہ آج میرا قاید لاکھوں کے ہجوم میں تنہا کھڑا ہے اس لئے کہ اتنے بڑے ہجوم میں لوگوں نے اپنی دکانداریاں الگ سے لگا رکھی ہیں اسے یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن بنی گالہ کی اترائی اتر کر اپنے من کے غلام بن جاتے ہیں۔سب اپنا اپنا سودا بیچ رہے ہیں۔خوش گپیاں کرتے ہیں اور جیسے ہی کوئی اٹھ کر جاتا ہے
اس کی غیبت کرتے ہیں مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاتے ہیں۔سب کی ریڑھی اپنی ہے۔پہاڑ کی چوٹی پر میں سب اکٹھے ہوتے ہیں۔دانٹ نکالتے ہیں جپھیاں ڈالتے ہیں۔اور پھر وہاں سے آ کر ایک دوسرے کی برائیاں کرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔میں سات دن شہر سے باہر تھا جہلم میں بھی یہی قصہ ہے گجرات میں بھی یہی رولہ اور گجرانوالہ میں بھی یہی پنڈھی۔سات دن نئے پرانوں کو یہی کچھ بتاتا رہا کہ اتفاق کرنا ہے پیار سے رہنا ہے چاہے وہ چودھری شہباز ہو،طارق گجر یا چودھری محمد علی۔خان ہم تمہارے ساتھ ہیںلیکن ضمیر اور دل کہیں اور ہیں۔
مجھے تو اس دن خان نے بھری محفل میں کہا تھا افتخار از مائی ڈائی ہارڈ ورکر آئی ایم پروئڈ آف ہم ۔میں نے ایک بار کہا تھا سب عمران خان کو لیڈر مانتے ہیں مگر اس کی ایک نہیں مانتے۔ضیاء اللہ آفریدی کی گرفتاری سے اگر کسی کو سبق نہیں ملا تو پھر وہ بھاڑ میں جانے کے لئے تیار رہے۔نام ہے اس کا عمران خان مارے گا چن چن کے۔جس پارٹی میں جاوید ہاشمی جیسا باغی داغی بن کر گیا اسے کوئی نیا آنے والا کیا کر سکے گا۔