ہر دوسرا شخص کہہ رہا ہے عمران جو چاہے کر لے وہ اس فرسودہ نظام کو اکھاڑ کے نہیں پھینک سکتا وہ عمران خان جو کہا کرتا تھا میں انہیں رلائوں گا اقتتدار میں آنے کے نو ماہ کے اندر اندر ہی ان طاقتوں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھ رہا ہے نہ صرف وہ بلکہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام دیکھ رہے ہیں کہ جنہیں انہی عدالتوں نے کاذب اور خئان قرار دیا تھا انہوں نے نواز شریف کو ضمانت دے دی ہے۔کون سی شق اور کون سی رعائت یقینا ہمارے قانون میں سقم ہو گا جس نے نواز شریف شہباز شریف حمزہ مریم صفدر سب کو چھوٹ دے دی۔فیصلہ یہ بھی کہتا ہے کہ چھ ہفتے کے بعد دیکھا گیا کہ مریض کی ٹینشن ختم نہیں ہوئی تو پھر دیکھا جائے گا۔گویا کہ یہ خوش خبری ان قیدیوں کے لئے بھی ہے جو جیلوں کے اندر ایک عرصے سے بند ہیں یا تو انہیں کوئی ٹینشن نہیں ہے اور اگر کوئی ٹینشن ہے تو فاضکل عدالت عالیہ ایک از خود نوٹس لے کر انہیں چھ چھ ہفتوں کے لئے گھر بھیجے جو بیچارے دس بیس ہزار کے لئے قید ہیں انہیں کہاں کو خواجہ حارث ملے گا جو ان کی ضمانت کرائے گا۔
قارئین لوگوں نے عمران خان پر اعتماد کیا تھا اسے کامیابی دلائی تھی امید ہے شریف خاندان جسے عدالتوں نے ہمیشہ رعائت دی جس کے لئے بھٹو خاندان کو بڑے دکھ سہنے پڑے خود بڑے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا جس کے بارے میں عام لوگ کہتے ہیں وہ سیاسی بندے کا عدالتی قتل تھا پیپلز پارٹی شاکی رہی کے حکومتیں ہماری ختم ہوئیں با با ہمارے شہید ہوئے اور اب ہم در بدر ہیں ہمیں نامی اور بے نامی اکائونٹس کے نام پر ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔
وہ خواب جو اکرام اللہ نیازی کے بیٹے نے لوگوں کو دکھائے جب ان کی تعبیر کا وقت آیا تو لوگ دانت دکھا کر بیرون ملک چلے گئے۔خاندان شریفیہ نے ہمیشہ کہا کہ ہمارے اچھے دن لوٹ کے آئیں گے اور وہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ تین بار وزیر اعظم منتحب ہونے والے نواز شریف کے لئے چوتھی بار کے دروازے کھولے جا رہے ہیں وہ نہ سہی شہباز شریف سہی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔بڑے یقین سے کہا جا رہا ہے کہ دونوں کا بیانیہ مختلف ہے نہیں جی یہ بیانئے ہم نے پاکستان میں عام دیکھے ہیں۔
ایک ہی گھر میں ایک شریف اور دوسرا بدمعاش ہوتا ہے بد معاش کا کام یہ ہوتا ہے وہ لوگوں کی زمینیں جائدادیں قبضے کرے لوگوں کو کٹ پھنڈ لگائے اور شریف کا کام یہ ہوتا ہے وہ معاملات کو رفع دفع کرے۔معاش بد ہے کیا کہ آپ کی برانڈرتھ روڈ پر ایک دکان تھی اور اب آپ کی جائدادیں لندن مدینہ منورہ جدہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں ہیں آپ اپنی رہائیش گاہوں کو وزیر اعظم بیس کیمپ کہتے ہیں وزیر اعلی کا کیمپ قرار دیتے ہیں وہاں تک پل بناتے ہیں اخراجات سرکاری جیب سے کرتے ہیں۔پیڈسٹل فین کی ہوائوں میں میں ناطے جوڑتی یہ فیملی ہیلی کاپٹرز جیٹ ایسے استعمال کرتی ہے جیسے چنگ چی۔ سچ پوچھئے پاکستان ایک افسردہ ہے ہر پاکستانی اداس ہی نہیں اب سمجھ رہا کہ عمران خان کو باندھ کے مارا جا رہا ہے۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ این آر او کس نے کیا ہے لیکن یہ چیز تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ این آر او ہوا ہے۔عمران کی چیخیں آسمانوں تک جا رہی تھیں کہ این آر او نہیں دوں گا اور مسلم لیگ ن بھی سچی تھی کہ ہم آپ سے این آر او لیں گے بھی نہیں۔سیدھا سادہ آدمی دیکھ رہا ہے کہ این آر او مل گیا۔
پاکستان تحریک انصاف انتحابات میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی اسے حکومت بنانے میں ان پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا جن سے ماضی قریب میں قائد تحریک کہتے رہے کہ ڈاکوئوں اور چوروں سے اتحاد نہیں ہو گا۔کرنا پڑا اس لئے کہ کہا یہ جاتا رہا کہ عمران خان لیڈ کرے گا۔ جمہوریت حسین بھی بہت ہے مگر اس کے چہرے پر کالک یہ بھی ہے کہ عددی گیم کے اثرات عرصہ ء اقتتدار میں رہتے ہیں۔اکھڑ مزاج اور موڈی دلہن کی طرح زیادہ وقت تو اتحادیوں کو منانے میں گزر جاتا ہے۔
ایک چھوٹی کابینہ کا اعلان کرنے والے کو آدھی اسمبلی کو نوازنا پڑ گیا ہی۔یہ ہیں پارلیمانی جمہوریت کی خر مستیاں۔ پاکستان کے حالات کیسے بہتر ہوں گے ۔اس صورت میں جب حالات سدھارنے کے لئے پولیس کے ٣٦ ایس پی پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو دوسرے دن عدالت سے بحال ہو کر آ جاتے ہیں۔کر لئو گل اور درست کر لو پنجاب پولیس۔ایسی پولیس جس کے منہ کو ماڈل ٹائون کے شہداء کا خون لگا ہوا ہے جو سانحہ ء ساہیوال میں ملوث ہے اور جو دن دیہاڑے قانون شکنی کر رہی ہے۔عمران خان کا تقابل شوکت عزیز معین قریشی سے نہ کیجئے وہ انقلاب کی نوید لے کر آیا ہے اسے تبدیلی دکھانی ہے کے پی کے میں وہ بندھے ہاتھوں کے ساتھ بہت بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے اس شورش زدہ کے پی کے کو امن کا گہوارہ بنایا رشوت چورستانی کو کم کیا اسے سر سبز و شاداب بنایا صحت تعلیم کے شعبوں میں بہت کچھ کیا۔کے پی کے کے لوگوں نے اپنے ریکارڈ توڑے اور عمران خان کی پارٹی کو دو تہائی اکثریت دلوا کر ایک پیغام بھی دیا کہ تبدیلی کیسے آتی ہے۔
مرکز میں چند ووٹوں کی اکثریت سے بنی حکومت کو چیلینجز کا سامنا ہے ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت تو وزیر اعظم کے پاس ہے لیکن قوت نہیں۔جمہوری پارلیمانی نظام میں عدد بڑا معنی رکھتے ہیں۔یہ کھیل تماشہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے اسی ملک میں راتوں رات جگتو فرنٹ بنتے رہے۔سپیکر تک قتل ہوئے اور نہرو کو کہنا پڑا کہ اتنی تو میں دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے وزیر اعظم پاکستان نے بدلے ہیں۔
عمران خان کا متحان لینے والو آپ نے اسے ٹرمپ کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے دیکھ لیا اس نے مودی جیسے ہمالیہ کو چیونٹی بنا کے رکھ دیا۔محدود جنگ کی بات ہوئی تو بہترین کمانڈر کا رول ادا کیا اور ایک جانب میدان میں دشمن کی ناک رگڑوائی اور دوسری جانب ایک دلیر بہادر کا کردار ادا کر کے پائیلٹ کو واپس کیا ۔اس کی واپسی میں تیزی پاکستان کو سفارتی محاذ پر کامیابی دے گئی۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر نبی اکرمۖ کے خاکوں کے انسداد روک تھام کی تجاویز پیش کیں کشمیر اور فلسطین کی بات کی مودی کے بھارت کی دہشت گردی کو ننگا کیا اور وہ مودی جس کے بارے میں کبھی نواز شریف کو توفیق نہ ہوئی اسے چھوٹا کیا۔وہ کلبھوشن جس کا نام بھی نہیں لیا جاتا تھا اس کی سازشوں کا بھانڈا پھوڑا۔ اس عمران خان کو میدان میں شہہ زوروں جیسی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے سب نے دیکھا ۔لیکن اب اس شہہ پر پر قینچی کیوں چلائی جا رہی ہے۔
قوم نہیں مانتی کے چور اور سادھ کے ساتھ ایک سلوک ہو یہ نہیں چاہتی کہ پاکستان کو لوٹنے والے سر عام عیاشیاں کرے۔اس فرسودہ اور بد بو دار نظام کو جڑ سے اکھڑتا دیکھنا چاہتی ہے یہ قوم۔مہنگائی آسمان تک پہچ رہی ہے لیکن لوگ اس جذبے کے ساتھ خان کے ساتھ ہیں کہ وہ سچا ہے اس نے چوروں اور ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالا ہے ۔آج جب یہ خبر چلتی ہے کہ فلاں بندہ پکڑا گیا ہے اس کے گھر سے اربوں روپے اور ڈالر پکڑے گئے ہیں فلاں کے بے نامی اکائونٹ ہیں ۔فریال تالپور زرداری اس کے ساتھیوں کے پاس سے سونا ڈالر برآمد ہوئے ہیں تو سچ پوچھیں اسی وقت یہ بھی کہتے ہیں ڈالر سونا تو ڈاکٹر عاصم سے بھی برآمد ہوئے تھے ایان علی سے بھی یہی کچھ برآمد ہوا تھا ۔شرجیل میمن سے شراب برآمد ہوئی تھی جو شہد بن گئی ۔حضور یہ سب فراڈ جھوٹ ہے کوئی نہیں مانتا جب تک ان لوگوں کو سزائیں نہیں ملتیں۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایک جانب جب شریفوں کو آپ رعائت اور ڈھیل دیں گے تو کیا سندھی یہ نہیں سوچے گا کہ پنجابی اشرافیہ ہمیں ہمیشہ ہی دکھ دیتی ہے۔ناکام ٹرین مارچ سے کسی غلط فہمی میں نہ رہئے گا۔
کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلاول کی چیخیں اور حمزہ کی لندن میں مستیاں اس پاکستان پر کوئی اثر نہیں ڈالیں گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
ڈر کس بات کا اور خوف کیوں کیا پاکستان کے فیصلے مجرموں کی طاقت کو دیکھ کر ہوں گے۔برونائی دارلاسلم اب ہاتھ کاٹنے کی طرف جا رہا ہے کیوں اس لئے کہ اسے علم ہے کہ لوٹ مار اور چوری کرنے اور ملکی وسائل کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے والے کئے کہ نشان عبرت بنا کر لوگوں میں گھومنے دیا جائے۔
پاکستان میں سچ پوچھیں اگر ریاست مدینہ کا نظام لانا ہے تو حدود کا نفاذ ضروری ہے۔میں کالم لکھتا ہوں اپنی سوچ اور اپنی فکر کے ساتھ۔اس ملک میں اگر ہر شہر میں دو ٹنڈے گھومیں پھریں تو دیکھ لیجئے گا کوئی درانی کوئی زرداری کوئی شریف پاکستان کو نہیں لوٹے گا۔
نام آقائے نامدارۖ کا لینا ماننا اسے رسول خدا مگر اس کی کوئی ایک بھی نہ ماننا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ترقی کے راستے پر چل نکلا ہے یا چل سکتا ہے اس لئے کہ جب جزا و سزا نہیں ہے تو ترقی کیسی۔
یہ تو سنا ہو گا کہ تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ کر دی گئیں کہ وہ امیر کے لئے الگ قانون اور غریب کے لئے الگ رکھتی تھیں۔سوچ لیجئے کہ زرداری اور نواز شریف کے لئے جو قانون ہے وہ آپ کے لئے بھی ہے تو سوچنا بھی نہیں اور یہ غلطی بھی نہ کرنا کہ بھول کے بھی سرکاری مال پر ہاتھ نہ ڈالنا دس بیس ہزار کے ہیر پھیر پر لمیاں پا لئے جائو گے یقین نہیں تو پاکستان کی جیلوں میں جا کر دیکھ لو۔
پاکستان کو تیزی سے صدارتی نظام کی جانب جانا ہو گا۔صدارتی نظام جماعتوں کی بلیک میلنگ سے نجات دلوائے گا۔ اس کی مدت بھلے سے پانچ سے چار سال کر دیجئے لیکن لائیے اس نظام کو جو سربراہ مملکت کو بھان متی کے کنبے کی ناجائز خواشوں کا مغلوب نہ بنا دے۔یہ میری ذاتی رائے ہے۔میں جب کالم لکھتا ہوں تو کالم نویس ہوتا ہوں۔مجھے عمران خان اچھا لگا تو اپنا سب کچھ قربان کیا میں اسے کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی پنجاب میں کم از کم بلیک میلنگ کا شکار ہے اور مرکز میں کون سی آزاد ہے اس کے ہاتھ پائوں باندھ کر دوڑ لگانے کو کہا جا رہا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندروں کے سفر پے کیا روانہ مجھے