تحریر : محمد اشفاق راجا کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کے دھرنے میں اگر ریحام خان شریک ہوں گی تو پھر ”پاپا رازیوں” کا کیمرہ تو انہیں ہی فوکس کرے گا، ویسے بھی اب وہ ایک ٹاک شو کی میزبان بھی ہیں، جس کا ہدف تبدیلی ہے۔ اس لئے ان کا حق بنتا ہے کہ وہ ہر اس لہر کے ساتھ ہوں جو تبدیلی لانے کا موجب بنے۔ کرپشن فری پاکستان بھی اسی صورت بنے گا جب وطن عزیز میں تبدیلی کی ہوائیں تسلسل کے ساتھ چلیں گی۔ ریحام خان اس سے پہلے ایک تبدیلی لانے کے لئے شادی کے راستے تحریک انصاف میں گئی تھیں، لیکن خان صاحب سے ان کی شادی زیادہ دیر تک نہ چل پائی۔ اب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے یکم مئی سے جن ریلیوں کا اعلان کیا ہے، امید ہے ریحام خان انہیں بھی رونق بخشیں گی اور یوں کرپشن کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گی۔
24 اپریل کا اتوار اس لحاظ سے ”سپر سنڈے” تھا کہ اس روز لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بیک وقت رونقیں لگی تھیں۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سراج الحق ان پر گرج برس رہے تھے جو بقول ان کے دانہ پاکستان میں چگتے ہیں اور انڈے کہیں اور جا کر دیتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ان کا اشارہ بظاہر حکمرانوں کی طرف تھا۔ اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں تحریک انصاف کا یوم تاسیس عام پبلک جلسے کی شکل میں منایا جا رہا تھا، روایت کے مطابق یوم تاسیس عموماً اسی شہر میں منایا جاتا ہے جہاں کوئی جماعت قائم ہوئی ہو۔ لیکن عمران خان نے جب سے اسلام آباد کو اپنے خوابوں کا شہر بنایا ہے، وہ لاہور کم آتے ہیں۔ لاہور میں ان کا گھر اگرچہ نہر کنارے خوبصورت لوکیشن پر ہے لیکن بنی گالہ کے فارم ہاؤس سے تو اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
اس لئے ان کا دل وہیں اٹک کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے ایف نائن میں جلسے پر بھی غالباً اسی لئے اصرار کیا تھا کہ یہ اسلام آباد کے پورے ایک سیکٹر پر محیط ہے، لیکن عقلمندی یہ کی گئی کہ جلسے کے لئے پارک کا ایک کونہ مخصوص کیا گیا جہاں سکیورٹی کے لئے آمد ایک ہی دروازے سے ہو رہی تھی۔ ٹی وی کیمرے بار بار پرہجوم جلسہ دکھا رہے تھے جو حاضری کے لحاظ سے بڑا جلسہ تھا۔ جی ٹی روڈ پر خیرآباد کے پل کے اس پار تحریک انصاف کی عملداری شروع ہو جاتی ہے، اس لئے جب بھی اسلام آباد میں تحریک انصاف کی کوئی اہم سرگرمی ہوتی ہے، کے پی کے سے بڑی تعداد میں لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس جلسے میں بھی ان کی حاضری محسوس کی جاسکتی تھی۔
MQM
جہاں تک کراچی کا تعلق ہے، ایم کیو ایم اور اس سے بغاوت کرکے علیحدہ سیاسی جماعت (پاک سرزمین پارٹی) بنانے والے بیک وقت سرگرم عمل تھے۔ ایم کیو ایم تو اپنے کارکنوں کی گرفتاری پر احتجاج کر رہی تھی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس بھی جانا تھا، لیکن اس سرگرمی کا دوسرا مقصد مصطفی کمال کے جلسے کے مدمقابل اپنا پروگرام کرنا تھا۔ اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ یہ جناح پارک میں ہو رہا تھا اور اس میں پاکستان کے قومی پرچم بڑی تعداد میں لہرا رہے تھے۔ پاک سرزمین پارٹی نے ابھی تک اپنا کوئی پرچم نہیں بنایا اور وہ اس کی جگہ پاکستانی پرچم کو ہی سربلند رکھتی ہے۔
اس لئے اس جلسے میں بھی پاکستانی پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ نئی پارٹی میں زیادہ تر لوگ تو ایم کیو ایم کی چھتریوں سے اڑ کر ہی آئے ہیں، لیکن تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے سید حفیظ الدین نے بھی نئی جماعت کا رخ کرلیا ہے، جن کے خلاف جماعت اسلامی کے ہارنے والے امیدوار انجینئر عبدالرزاق نے جعل سازی کا الزام لگایا تھا۔ الیکشن ٹربیونل سے ان کے خلاف فیصلہ آگیا لیکن انہوں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا۔ اب تک وہ اس حکم کے تحت سندھ اسمبلی کے رکن چلے آرہے تھے، انہوں نے اب رکنیت بھی چھوڑ دی ہے۔ چار ارکان پہلے سندھ اسمبلی چھوڑ چکے ہیں، سید حفیظ الدین پانچویں رکن ہیں۔ جوں جوں ان کے استعفے منظور ہوں گے، ان حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ ان تمام حلقوں میں ایک ہی روز ضمنی الیکشن ہو جائے۔
بغاوت کے بعد مصطفی کمال کا یہ پہلا جلسہ تھا، حاضری کو اس لحاظ سے کافی معقول کہا جاسکتا ہے کہ دو روز سے کراچی میں گرمی کی شدید لہر آئی ہوئی ہے اور ماہرین لوگوں کو مشورے دے رہے ہیں کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ اتنی شدید گرمی میں لو لگنے کا خدشہ ہے، لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ اگر جلسے میں آئے تو یہ ان کی نئی جماعت سے وابستگی کی علامت ہے۔ ایم کیو ایم نے بھی کراچی میں اپنے گرفتار کارکنوں کی رہائی کیلئے مارچ کیا، شدید گرمی میں یہ مارچ بھی بڑے حوصلے کی بات ہے۔
Government
عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی کمیشن پھر مسترد کر دیا، البتہ یہ مطالبہ کیا کہ وہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن چاہتے ہیں، حکومت کی جانب سے تو چیف جسٹس کو خط لکھا جاچکا ہے، لیکن وہ اپنے غیر ملکی دورے پر ترکی میں ہیں، جہاں سے وہ یکم مئی کو واپس آئیں گے۔ اس دوران قائم مقام چیف جسٹس، کمیشن کی تشکیل نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیشن کی تشکیل اگر ہونی ہے تو اب چیف جسٹس کی واپسی پر ہی ہوگی۔ حکومت نے جو خط چیف جسٹس کو لکھا تھا اس میں درخواست کی گئی تھی کہ جو کمیشن تشکیل دیا جائے بہتر ہے اس کی سربراہی جناب چیف جسٹس خود ہی کریں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان کے تازہ مطالبے اور حکومت کے موقف میں زیادہ فرق تو نہیں۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ کمیشن کب تشکیل پاتا ہے اور کون سربراہی کے منصب پر سرفراز ہوتا ہے۔
عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میاں صاحب! آپ ہمیشہ بچ جاتے ہیں، اب آپ کو جانا پڑے گا” انہوں نے آئندہ اتوار کو لاہور آنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ وہ چیئرنگ کراس میں جلسہ کریں گے۔ البتہ انہوں نے اپنا (اگلا پروگرام) ابھی طشت ازبام نہیں کیا۔ لاہور آکر کیا وہ رائے ونڈ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس پر شاید وہ پارٹی رہنماؤں سے مزید مشاورت کریں گے۔ ایسے لگتا ہے کہ رائیونڈ کا حتمی پروگرام ابھی نہیں بنایا، ورنہ وہ جلسے کے پرجوش کارکنوں کو یہ خوشخبری تو ضرور سناتے، اب جو لوگ ان کی زبان سے ”اگلا شرطیہ نیا پروگرام” سننے آئے تھے، انہیں تو اس سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی ہوگی۔ جہاں تک مصطفی کمال کا تعلق ہے۔
ان کا ہدف مختلف ہے۔ وہ نہ تو کسی وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں، نہ انہیں پانامہ لیکس سے کوئی سروکار ہے، وہ تو کراچی کے مخصوص حالات میں بات کرتے ہیں۔ جلسے میں انہوں نے کہا کہ یہ شہر اب ”را” کے ایجنٹوں کا شہر نہیں ہوگا، کراچی کو امن کا شہر بنائیں گے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی سفر عمران خان سے زیادہ تیزی کے ساتھ طے کر رہے ہیں۔