عمران خان اور ریحام خان کا شادی ڈرامہ

Imran Khan And Reham Khan

Imran Khan And Reham Khan

تحریر: سید انور محمود
جمعہ 30 اکتوبر 2015ء کو پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے میڈیا کو ایک بیان جاری کیا جس میں اُنکا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ریحام خان کے درمیان طلاق ہو گئی ہے۔ عمران خان کی بہنوں نے بھی اس خبرکی تصدیق کردی تھی۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا کہنا تھا کہ طلاق میں عمران خان اور ریحام خان کے خاندانوں کی مرضی شامل تھی۔ عمران خان اورریحام خان کی شادی 7 جنوری 2015ء کوہوئی تھی، دونوں کی شادی 9 ماہ 22 دن قائم رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی یہ خبر دنیا کی ایک بڑی خبر کی شکل میں امریکہ، یورپ اور ایشیا کے میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر بار بار نشر ہورہی تھی۔ اور اسکے بعدہی میڈیا پر عمران خان کا کیا ہوا ایک ٹوئٹ نشر ہورہا تھا جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ “یہ میرے، ریحام اورہمارے خاندان کے لیےبہت تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ مالی ادائیگیوں سے متعلق رپورٹس اور قیاس آرائیاں جھوٹی اور شرمناک ہیں۔ میں ریحام خان کی دل سےعزت کرتاہوں، تمام افراد سے گذارش ہے ہماری ذاتی زندگی کاخیال رکھیں۔

ریحام کاکردار،کام سےلگاؤ،غیرمراعات یافتہ طبقے کی مدد کے جذبے کااحترام کرتا ہوں”۔ (کیا جذبات ہیں آپکے خان صاحب زبردست ، لیکن جن عورتوں کے شوہر اُنکی دل سے عزت کرتے ہیں اُنکو کبھی طلاق نہیں دیتے) جبکہ برطانیہ میں موجود ریحام خان نے بھی ایک ٹوئٹ میں طلاق کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں نے راہیں جدا کرنے اور طلاق کا فیصلہ کرلیا ہے۔عمران اورمیں نےعلیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔

ہمارے ملک کی سیاست بہت بے رحم ہے، عمران خان کی طلاق کی خبر آنے کے فوراً بعد ہی تبصرے شروع ہوگئے، مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنا اللہ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ عمران خان کے ساتھ کسی کا بھی رہنا مشکل ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ معاملہ نجی ضرور ہے لیکن عمران خان کے لوگوں کےلیے اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنا مشکل ہوگا ۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے عمران خان اور ریحام خان کی طلاق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ صورتحال اس وقت بھی نظر آرہی تھی جب شادی ہوئی تھی، عمران خان کو سب جانتے ہیں کہ وہ مستقل مزاج نہیں ہیں، میں ہمیشہ کہتا آیا ہو ں کہ عمران خان میں مستقل مزاجی نہیں ہے۔

Khurshid Shah

Khurshid Shah

ایک خاتون کے ساتھ نکاح ہو اور کسی دباوُ کے تحت طلاق ہوجائے یہ اچھی روایت نہیں۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ شادی کے وقت دعا کی تھی کہ یہ شادی کامیاب ہو جائے، مگر ایسا نہیں ہوسکا، سیاست دان پبلک پراپرٹی ہوتا ہے، طلاق سے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں فرق پڑے گا۔ جبکہ عمران خان کی ٹوئٹ کے جواب میں پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے ٹوئٹ کی کہ عمران خان اور ریحام خان کی طلاق سے افسوس ہوا ہےلیکن اگر یہ عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے تو پی ٹی آئی کا ترجمان کیوں اس خبر کا اعلان کررہا ہے؟

تحریک انصاف کو اس وقت سب سے زیادہ جو شکایت ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی ذاتی زندگی کو یوں بھرے بازار بحث کیا جا رہا ہے مگر شاید شکایت کرنے والوں اور خود عمران خان کو یہ یاد نہیں کہ اس شادی کا اشارہ سیاسی دھرنے میں دیا گیا تھا، یہ قطعی ذاتی نہیں۔اورظلم یہ ہے کہ جب آپ شادی کے بندھن میں بندھ رہے تھے تو اس وقت ٹی وی و اخبارات کی کوریج پر آپنے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، کیا یہ اس وقت ذاتی معاملہ نہیں تھا اور کیا یہ بہتر نہ تھا کہ شادی کی تقریبات کو ذاتی ہی رکھا جاتا۔ حالانکہ اس وقت سانحہ پشاور عوام کے ذہنوں میں تازہ ہی تھا آپنے اُسکا بھی قطعی خیال نہیں کیا۔ آپ نے ریحام خان کو قوم کی بھابھی بنا کر اُن کو تحریک انصاف کے حلقوں میں کوریج دلوائی اور اب طلاق کی صورت میں آپ بے لگام میڈیا کو اخلاقیات کا سبق دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا میڈیا کےلیے کافی مشکل کام ہے۔

سینئرصحافی عارف نظامی وہ صحافی ہیں جنہوں نے عمران خان اور ریحام خان کی شادی سے تین مہینے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ دونوں کے درمیان شادی ہوگئی ہے تاہم اس کی تردید آتی رہی 7 جنوری 2015ء کو عارف نظامی کی بات سچ ثابت ہوئی اور دونوں کی شادی کا اعلان کردیا گیا۔عارف نظامی نےجنوری 2015ء میں اپنے ایک مضمون “عمران ریحام شادی اور میڈیا” میں لکھا تھا کہ “جب میں نے اوائل نومبر 2014ء میں ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں عمران خان کی شادی کی خبر بریک کی تو میڈیا میں خان صاحب کے بعض حواریوں کے علاوہ پی ٹی آئی میں بھی ہاہاکار مچ گئی ۔پی ٹی آئی کے جیالوں کے بنائے ہو ئے بے نام ٹویٹر اکائونٹس کے ذریعے مجھے خوب برابھلا کہا گیا اور یہاں تک کیچڑ اچھالا گیا کہ خان صاحب کی ریحام خان کے ساتھ شادی کی بے پر کی خبرنواز شریف کے ایماء پر اڑائی جارہی ہے۔

Anchor Reham Khan

Anchor Reham Khan

کیونکہ میں بھی خدانخواستہ ‘شریفوں کا تنخواہ دار’ ہوں۔ دوسری طرف ایک چینل کے اینکر کو ریحام خان جو خود ‘ڈان ٹی وی’ کی اینکر تھیں انٹرویو کے لیے بلا کر خبر کی بالواسطہ تردید کرانے کی کوشش کی۔ اس پروگرام میں محترمہ کا ارشاد تھا کہ بعض بزر گ اینکرزان مجھ جیسی نوجوان اینکرز کے آنے سے خوفزدہ ہیں کیو نکہ اُن کی روزی خطرے میں پڑ گئی ہے ۔خبر کی تردید کرنے کے بجائے انھوں نے محض یہ کہنے پر اتفاق کیا کہ وہ ایسی مکھیوں کو بائیں ہاتھ سے ماردیتی ہیں”۔ طلاق کی خبر آنے کے بعد سینئر صحافی عارف نظامی نے دعویٰ کیا ہے کہ دو روز قبل بنی گالہ میں عمران خان اور ریحام خان کے درمیان ایک لڑائی ہوئی تھی جس پہ ریحام خان نے عمران خان پر ہاتھ اٹھایا تھا خدشہ تھا کہ ریحام خان برطانوی خفیہ ایجنسی کی ایجنٹ ہے جوکہ عمران خان کو کھانے میں زہر دیکر مارنا چاہتی تھی۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں معید پیرزادہ نے عارف نظامی کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے 22ستمبر کو بتایا تھا کہ عمران خان اور ریحام خان کے اختلافات پوائنٹ آف نو ریٹرنڈ پر پہنچ چکے ہیں عمران خان اور ریحام خان کی شادی جلد ختم ہونیوالی ہے۔ عارف نظامی کے انکشافات جہاں میڈیا کی زینت بننے وہاں عمران اور ریحام خان کی جانب سے اس کی تردید آتی رہی لیکن 29 اکتوبر کو طلاق کی خبریں آنے کے بعد عمران خان اور ریحام خان نے ان انکشافات کی خود تصدیق کردی۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے فی الحال منفی تبصرئے اُنکے رہنماوں کی ہدایت کی وجہ سے نہیں ہورہے ہیں لیکن میڈیا کو کون روکے گا جسکے لیے یہ خبر انکی آمدنی بڑھانے کےلیے بہت اہم ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی طلاق ایک عام بات ہے اور یہ اُن کا ذاتی مسلہ ہے اور تحریک انصاف اور پاکستان کی سیاست پر اسکا کوئی اثر نہیں پڑئے گا تو وہ صرف حالیہ سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے نتایج کو دیکھ لے اُسکو خود معلوم ہوجائے گا کہ کیا اثر پڑا ہے اورتحریک انصاف سیاست کی سیڑھی پر کسقدر نیچے آگی ہے۔ اس طلاق کا یہ اثر ہوا ہے یا ہوگا کہ پاکستان میں ایک جماعتی حکومت وجود میں آگی ہے اسوقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کسی بھی اپوزیشن کا سامنانہیں ، کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری خود ملک سے فرار ہیں، سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت قائم ہے وہاں وزیر اعلیٰ سے لیکرنچلے درجے کے سرکاری ملازموں سمیت سب کے سب بدعنوان ہیں لہذا وہ فوج کے ڈر سے دبکے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم خوداپنے رہنما الطاف حسین کے بیانات کی وجہ سے عتاب میں ہے اور اُسکے ممبران استعفی دیکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے باہر ہیں، جبکہ تحریک انصاف کے کافی ممبران عمران خان سے باغی ہیں۔

PML N

PML N

باقی جو ہیں وہ راتب نواز شریف سے لے رہے ہیں اس لیے اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت آزاد ہے کہ جہاں اور جب چاہے ترقی کے نام پر کرپشن کرئے، جتنے چاہے مزید نندی پور پاور پراجیکٹ جیسےمنصوبے بنائے اور لوٹ مار کرئے۔ کرکٹر سے سیاستدان بننےوالے عمران خان کے بارئے میرا یہ بڑا پختہ خیال ہے کہ وہ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اُس پر کوئی ہوم ورک نہیں کرتے چاہے وہ کام اُن کی “ذاتی زندگی” سے تعلق رکھتا ہو یا اُنکی سیاسی پارٹی “پاکستان تحریک انصاف” سے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اُنکی باتوں میں تضادات کی بھر مار ہوتی ہے، یقیناً ہم میں سے کوئی بھی اُنکے 126 دن کے ناکام دھرنے میں اُنکے مسلسل متضاد بیانات یا انتخابی دھاندلی سے جڑی اُنکی 35 پنکچر کی کہانی کو نہیں بھولا ہوگا۔ عمران خان نہ صرف سیاست بلکہ اپنی ذاتی زندگی کو بھی کرکٹ کی طرح سے چلارہے ہیں ۔

لیکن اُنکو معلوم ہونا چاہیے کہ کرکٹ کے فیصلے کرکٹ کے میدان میں ہی ہوتے ہیں اور فوراً ہی ہوتے ہیں، وہاں ہوم ورک اورسوچ بچار کا وقت نہیں ہوتاجبکہ سیاست اور ذاتی زندگی کے فیصلے شطرنج کی بساط پر ہوتے ہیں، جہاں ایک چال چلنے کےلیے اگلی سولہ چالیں سوچنی پڑتی ہیں، جسکے لیے ہوم ورک اور سوچ بچار کا وقت موجود ہوتا ہے۔ افسوس عمران خان اور ریحام خان کے درمیان طلاق ہونے کے بعد یہ بات اور یقین میں بدل جاتی ہے کہ عمران خان نہ تو کوئی کام شروع کرنے سےپہلے کوئی ہوم ورک کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی سوچ بچار، بلکل ایسا لگ رہا ہے کہ پوری قوم عمران خان اور ریحام خان کا شادی ڈرامہ دیکھ رہی تھی جو اب ختم ہوگیا۔ ذاتی طور پر مجھے عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کا بے انتہا افسوس ہے۔ عمران خان کےلیے نیک خواہشات کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ آئندہ وہ کوئی بھی فیصلہ “ذاتی زندگی” یا اپنی سیاسی پارٹی “پاکستان تحریک انصاف” کےلیے کریں تو سوچ بچار ضرور کریں، ویسے بھی اب وہ 36 سال کے جوان نہیں بلکہ 63 سال کے بوڑھے ہیں۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود