اسلام آباد (جیوڈیسک) ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا انتخاب آج عمل میں لایا جائے گا جس کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف میدان میں ہیں۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوگا جس میں ملک کے اگلے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔
اس بار خفیہ رائے شماری کے بجائے ڈویژن کے ذریعے ووٹ دیے جائیں گے، عمران خان کے حامی ایک لابی اور شہباز شریف کے حامی دوسری لابی میں جائیں گے۔
تحریک انصاف کی جانب سے چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
بظاہر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے میدان صاف ہوگیا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت تو کرے گی لیکن انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی اور عمران خان اور شہباز شریف میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کا ووٹ نہیں دے گی۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کے الیکشن سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ سے وزیراعظم کا امیدوار بدلنے کا کہا گیا اور اس حوالے سے ن لیگ کو تحفظات سے بھی آگاہ کردیا گیا تھا، جس پر لیگی رہنما سعد رفیق بولے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے شہباز شریف کے نام پر اتفاق کیا اور بعد میں زرداری صاحب کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئی۔
دوسری جانب شہباز شریف کے صاحبزادے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے کہا کہ ہم ہر جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ڈٹ کر اپوزیشن کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی کا ووٹ دیا تھا۔
قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناؤ کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اس کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، بی این پی مینگل کے 4، جی ڈی اے کے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے، جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176 بنتی ہے۔
چار آزاد امیدواروں کا جھکاؤ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔
ہم خیال جماعتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس 81 نشستیں ہیں جبکہ انہیں متحدہ مجلس عمل کے 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 1 ممبر کی سپورٹ حاصل ہے، اس طرح اپوزیشن کی عددی قوت 97 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 ارکان ہیں تاہم پی پی پی نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم کی نشست کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
342 کے ایوان میں 2 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی، 2 نشستیں ق لیگ اور 1 نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئیں۔
اسی طرح ایک نشست این اے 215 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دیا گیا مگر اب تک ایسا نہ ہوسکا، یوں ایوان 330 ارکان کا ہوگا۔
وزیراعظم کے چناؤ کے روز اگر 330 ممبران موجود ہوتے ہیں تو اس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کی حمیات درکار ہوگی، یعنی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئے گی اور اپوزیشن کے مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔
قائد ایوان کے 2013 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو اُس وقت میاں نواز شریف نے دو تہائی سے زائد یعنی 244 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم نے 42 ووٹ اور جاوید ہاشمی نے 31 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی 339 ووٹوں میں سے 221 ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔