تحریر : عماد ظفر بالآخر عمران خان فرشتوں کی مہربانی اور حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی ناقص اور احمقانہ سیاسی حکمت عملی کے باعث پاکستان کے سیاسی افق پر وہ واحد سیاستدان بن کر ابھرے ہیں جنہیں “صادق” اور “امین” ہونے کی سند باقاعدہ طور پر عدالت سے حاصل ہو گئ ہے۔۔گو موجودہ عدالتی فیصلے میں کئ قانونی سقم موجود ہیں۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ جہانگیر ترین کی قربانی کر کے عمران خان کو بچا لیا گیا ہے۔اس امر کا اندازہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو پہلے سے ہی تھا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف اور ان کے مشیروں نے سمجھتے بوجھتے عمران خان کو ان حالات میں، جب عدلیہ اور ایسٹیبلیشمنٹ نواز شریف کے سخت خلاف ہیں ، کیونکر ان کے خلاف پیٹیشن دائر کی؟ اگر اس ہیٹیشن کے ذریعے اپنے ووٹ بنک کو یہ بتانا مقصود تھا کہ انتقام یا احتساب کا واحد نشانہ نواز شریف ہے تو شاید یہ ایک انتہائ بچگانہ فیصلہ تھا۔ کیونکہ اس فیصلے میں سقم ہونے کے باوجود بہرحال اب یہ بات حقیقت ہے کہ عمران خان عدالتوں سے کلین چٹ ملنے کے بعد ایک طرح سے سیاسی اور اخلاقی برتری حاصل کر چکے ہیں۔دوسری جانب حدیبیہ ہیپر مل کے مقدمے کو ناقابل سماعت قرار دلوا کر پس پشت قوتوں نے شہباز شریف کو ایک طرح سے این آر او جاری کر دیا ہے۔ ایسے میں نوشتہ دیوار صاف طور پر پڑھا جا سکتا ہے کہ اگلے عام انتخابات میں مقابلہ عمران خان اور شہباز شریف کے مابین ہو گا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں دو لنگڑے گھوڑے انتخابی ریس میںں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے۔
عمران خان کے سر پر نیازی سروسز اور ٹیرن وائٹ کی صورت میں نااہلی کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہے گی اور جونہی انہوں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا تو یہ کیسز کھول کر انہیں باآسانی گھر بھیجا سکتا ہے۔دوسری جانب شہباز شریف کے سر پر سانحہ ماڈل ٹاون کی تلوار ہمہ وقت موجود رہے گی۔یعنی پس پشت قوتیں باآسانی “کنٹرولڈ جمہوریت” کے ذریعے حکمرانی جاری رکھیں گی۔ چونکہ شہباز شریف اور عمران خان دونوں ایسٹیبلیشمنٹ کو قابل قبول ہیں اس لئیے اگر اگلے عام انتخابات کو مشرف دور میں منعقد ہونے والے 2002 کے انتخابات سے تشبہیہ دی جائے تو اس میں ہر چند کوئ بھی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ بہرحال ان متوقع انتخابات میں بھی مشرف دور میں کروائے گئے انتخابات کی مانند صرف ایسٹیبلیشمنٹ کے پسندیدہ مہروں کو میدان میں اترنے کا موقع دیا جائے گا۔ شہباز شریف مسلم لیگ قاف تو وجود میں نہیں لائیں گے لیکن اپنی ایسٹیبلیشمنٹ کے آگے جھکنے والی سیاست کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو ہی بالکل قاف لیگ بنا ڈالیں گے۔ دوسری جانب انتخابی مہم چلانے کیلئے بھی شہباز شریف قطعی طور پر ایک آئیڈیل لیڈر نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کوئ خاص عوامی پذیرائ کے ملنے کی کوئ توقع ہے۔
مریم نوازاور حمزہ کی سرد جنگ بھی حکمران جماعت کی انتخابی مہم کو متاثر کرے گی۔ ایسے میں نواز شریف کس حد تک شہباز شریف کو پارٹی امور چلانے کی اجازت دیں گے یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ جہاں تک بات تحریک انصاف کی ہے تو جہانگیر ترین کی نااہلی سے عمران خان کو تنظیمی طور پر جماعت کے امور چلانے میں تو مشکلات کا سامنا ہو گا لیکن سیاسی طور پر اب وہ اس فیصلے کو خوب کیش کروائیں گے۔ نااہلی کے بعد جہانگیر ترین کا اپنی جماعت کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہو جانا بھی نہ صرف عمران خان کو اخلاقی برتری دلوائے گا بلکہ نواز شریف پر سیاسی و اخلاقی دباو بھی بڑھے گا کہ وہ اپنی جماعت کی صدارت سے استعفی دیں۔ سیاست اور طاقت کے اس کھیل میں اگر جہانگیر ترین جیسے پیادے کو قربان کر کے نواز شریف کی قربانی لی جا سکتی ہے تو ایسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کیلئے یہ سودا ہرگز بھی مہنگا یا برا نہیں ہے۔
شاید اب نواز شریف کو احساس ہوا ہو گا کہ اپنی ہی جماعت کے اندر جمہوری روایات کو پنپنے نہ دینا اور خوشامدی ٹولے کی باتوں کو سچ مان لینا کتنے بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ عمران خان اور شہباز شریف کو بچا کر اگلی بساط سجانے کا انتظام تو کر لیا گیا ہے لیکن اس کی قیمت ریاست اور اداروں کی ساکھ کی کمزوری کے طور پر وطن عزیز کو ادا کرنی پڑی ہے۔ جس طریقے سے نادیدہ قوتوں نے الیکٹرانک میڈیا اعلی عدلیہ اور مذہب کو اس طاقت کے کھیل میں استعمال کیا ہے اس کے بعد اب نادیدہ قوتوں سمیت ان تمام اداروں اور ستونوں کو سخت عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ادوار میں اس طرح کے گھناونے کھیل کھیلنے کے بعد میڈیا پر قابو پا کر معاملات پر قابو پا لیا جاتا تھا۔ لیکن دور جدید میں جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے توسط سے خبر یا آرا پل بھر میں دنیا بھر میں پھیل جاتے ہیں ، ان حالات میں ریاستی اداروں کو استعمال کر کے “سیاسی انجئنرنگ” کرنے کے عمل کو نہ تو عام عوام سے چھپایا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کے جذبات اور اظہار کو دبایا جا سکتا ہے۔ آپ 2014 کے دھرنوں سے لیکر آج کی تاریخ تک حالت و واقعات کا بغور جائزہ لیں تو آپ باآسانی یہ اندازہ لگا سکتے ہیں اس تمام عرصے میں کمزور دراصل ریاست اور ریاستی ادارے ہوئے ہیں۔ عدلیہ نے وکلا تحریک کے بعد جو تھوڑی بہت عزت کمائ تھی اس کو خود معزز عدلیہ نے سیاسی کیسز کی سماعت کر کے گنوا دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ خود چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک تقریب کے درمیان یہ کہنے کی ضرورت پیش آ گئ کہ عدلیہ کسی گریٹر پلان یا گیم کا حصہ نہیں ہے ۔ معزز چیف جسٹس کو خود یہ سمجھنا چائیے تھاکہ عدالتیں سیاسی لڑائیوں میں نہ تو فریق بنا کرتی ہیں اور نہ ہی فیصلوں میں قانون کی تشریح کے بجائے افسانوی ناولوں یا اشعار کے حوالے دئیے جانا کوئ قابل تعریف عمل ہے۔ویسے عدلیہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا فوری خاتمہ کر کے ناقدین کے منہ بند کر سکتی ہے اگر مشرف کیس ،لاپتہ افراد کا معاملہ اوکاڑہ فارمز، ڈیفینس ہاوسنگ ،بحریہ ٹاون یاسانحہ ماڈل ٹاون کے کیسز کی بھی فوری سماعت کرتے ہوئے ان کا بھی فیصلہ کر دیں۔ بہر حال چونکہ سیاسی رائے ہمیشہ منقسم ہوتی ہے اس لئیے معززعدلیہ کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی معاملات میں دخل دینے کی وجہ سے تنقید تو بہرحال برداشت کرنا ہی پڑے گی۔
طاقت کے اس کھیل میں الیکٹرانک میڈیا اور صحافی بھی استعمال ہوئے اور عام آدمی کا یقین الیکٹرانک میڈیا اور صحافیوں سے بھی اٹھ گیا۔ خود عسکری قیادت کے خلاف بھی ایک بیانیہ تیار ہوا اور عام آدمی نے عسکری ادارے کے ایک حصے یا چند افراد کی سیاسی عمل میں دلچسپی اور سیاست میں مداخلت پر بھی تنقید شروع کر دی۔ اس،وقت صورتحال یہ ہے کہ عدلیہ کی مانند عسکری قیادت کو بھی آئ ایس پی آر کے ذریعے صفائ دینا پڑتی ہے کہ موجودہ صورتحال پر ادارہ اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتا۔ بدقسمتی سےجب ریاستی ستون خود ہی طاقت کے حصول کی جنگ کے کھلاڑی بن جائیں تو پھر بہرحال تنقید تو اانہیں برداشت کرنا پڑتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے کم عقل لوگ روز اول سے ہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ خدارا سیاست میں دخل مت دیجئے جس ادارے کے ذمہ جو فرائض ہیں وہ ذمہ داری سے ادا کئیے جائیں اور سیاست دانوں کا احتساب عام آدمی پر چھوڑا جائے۔ اس کے برعکس چونکہ ہر ادارے نے اپنی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کیا چنانچہ نتیجتا اب عوامی حلقوں کی جانب سے ریاست کے تمام اداروں کو شکوک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ من پسند مہروں عمران خان اور شہباز شریف کو بچانے اور ناپسندیدہ فریقین کو پچھاڑنے کی کوشش میں خود ریاستی اداروں کی ساکھ کو داو پر لگانا بھلا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ؟ اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار کر یا اپنی ہی جڑوں کو کمزور کر کے اقتدار کی لڑائ جیتنا دراصل ریاست اور ریاستی اداروں کی ہار ہے۔اگر وطن عزیز کی مقتدر قوتیں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو مضبوط کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کریں تو وط عزیز کے اصل مسائل کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی راہ نکل سکتی ہے۔