تحریر: غلام رضا آج کل سیاسی رہنمائوںاور کارکنوں کی زبان پر صرف اور صرف ایک سوال ہے کیا عمران خان کا 24 ستمبر کو ہونے والا رائے ونڈ مارچ کامیاب ہوگا یا نہیں، اس کا ایک لفظ میں جواب دیا جائے تو وہ ہے نہیں۔جی ہاں عمران خان کا 24 ستمبر کو ہونے والا شو مکمل ناکام رہے گا۔اب اس سے مزید سوالات جنم لیں گیوہ یہ کہ کیوں؟ ایسی کیا وجہ ہے جس کے باعث خان کا شو ناکام ہوگا؟جواب ہے۔
تحریک انصاف کی پھوٹ۔ہر کوئی اپنی رائے دے رہا ہے،کوئی اگلے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے تو کوئی رائیونڈ مارچ کی تیاری میں اور جو بچ گئے وہ دیکھو اور صبر کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔رائے ونڈ میں جو ہو گا وہ پاکستان نے 6 ستمبر کو کراچی میں دیکھ لیا تھا جب عمران خان خالی کرسیوں سے خطاب کرتے نظر آئے،تحریک انصاف کا ایک مسئلہ ہر جگہ پایا جاتا ہے چاہے وہ لاہور ہو کراچی،پشاور،کوئٹہ یا پھر کشمیر اور وہ ہے ”مس مینجمنٹ”۔کسی کوآخری وقت تک کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اب کیا کرنا ہے یا کیا ہوگا،خان صاحب کو اندرونی اجلاس میں ایک بات سمجھائی جاتی ہے اور وہ جلسے میں کچھ اور ارشاد فرما دیتے ہیں،ماضی میں جایا جائے تو 2013 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان نے لاہور کے منٹو پارک میں بہت بڑا جلسہ کیا تھا جس کے بعد خان صاحب کے ذہن میں ایک بات بیٹھ گئی تھی کہ اب تو وزیراعظم میں ہی ہوں۔
PTI Rally
الیکشن ہو گئے، ن لیگ جیت گئی، ساڑھے تین سال بھی گزر گئے مگر خان صاحب ابھی بھی منٹوپارک کے جلسے کیاردگرد گھوم رہے ہیں۔خان صاحب نے پچھلے دنوں شاہدرہ سے چیئرنگ کراس تک ریلی بھی نکالی جس میں تحریک انصاف کے مطابق 5 ہزار کے قریب لوگ شریک تھے۔خان صاحب کو مجھ سمیت ان کے ناقدین اور چاہنے والے ہزاروں بار کہہ چکے ہیں کہ کے پی کے میں کچھ کر کے دکھائیںاسے رول ماڈل صوبہ بنائیں ایسے کام کئے جائیں کہ جوآپ کو ووٹ نہیں بھی دینا چاہتا وہ بھی مجبور ہو جائے کہ ووٹ خان کا ہی ہے مگر خان صاحب ناقدین کی سنتے ہیں نہ ہی چاہنے والوں کی،عمران خان کو پھر کہا گیا کہ جہاں جہاں آپ کے ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوئے ہیں وہ حلقے کیلئے کچھ کر کے دکھائیں مگر وہاں بھی کارکردگی صفرہے،خان صاحب کو کسی ادارے پر یقین بھی نہیں ،کہیں سے ان کی مرضی کا فیصلہ آجائے تو سب خیر نہ آئے تو نواز شریف نے خرید لیا۔
سپریم کورٹ پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے کوئی بھی سمجھدار سیاستدان اور انسان عدالت عظمیٰ پر تنقید نہیں کریگا مگر خان صاحب کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،ایک دوست سے بات ہو رہی تھی تو وہ کہنے لگا یار خان صاحب تو جھوٹوں کے آئی جی ہیں میں نے کہا وہ کیسے تو پھر اس نے ایسی ایسی باتیں کر دیں ایسی ایسی دلیلیں دیں کہ میں بھی ماننے پر مجبور ہوگیا۔ایک بات سے تو سب اتفاق کریں گے کہ عمران خان کبھی میچورسیاست دان نہیں بن سکتے۔پاکستانی عوام کی بات کی جائے تو وہ بھی عمران خان کی سیاست میں اب دلچسپی نہیں لیتے،ہر بار ایک بات سن سن کر تنگ آچکے ہیں،دھاندلی ،دھاندلی اور دھاندلی سے عمران خان کی سیاست باہر ہی نہیں نکلتی،پاکستانی عوام کے مطابق عمران خان نے ہمیشہ اپنے اقتدار کیلئے جدوجہد کی کبھی یہ نہیں سوچا کہ آٹا ،چینی ،دال کے نرخ کم کرنے کا بھی مطالبہ کروں اور پاکستانی عوام کا یہ سب کہنا بلکل جائز ہے۔خان صاحب نے اپنی سیاست نہ بدلی تو 2018 میں بھی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
24 September
خان صاحب نے کھوٹے سکوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے جن کا کوئی مستقبل نہیں ان سے جان چھڑانا ہوگی، سیاست اور ہسپتال کو الگ رکھنا ہوگا اگر خان صاحب سیاسی رہنمائوں سے ہی شوکت خانم ہسپتال کیلئے اپنی ڈیمانڈ کے مطابق فنڈز لیتے رہے تو پھر اے ٹی ایم مشینوں والے ہی تحریک انصاف میں رہ پائیں گئے باقی شریف اور ایماندار اپنا راستہ بدل لیں گے۔خیر 24 ستمبر کے ہونے والے رائے ونڈ مارچ کے اعلان پر بات چلتی رہنی چاہئے،24 ستمبر کو ممکنہ طور پر دو کام ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ خان صاحب مارچ منسوخ کر دیں 24 ستمبر سے قبل ہی اعلان کر دیں گیکہ ہم نے مارچ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے وجہ کوئی بھی بتا دیں اس سے مجھ سمیت عوام کو کوئی لینا دینا نہیں سوائے کچھ ممی ڈیڈی بچوں کے،مارچ ختم کرنے کا ایک فائدہ تحریک انصاف کو ضرور ہوگا اور وہ یہ کہ جو پارٹی کے اندر پھوٹ پڑی ہوئی ہے اس کا کافی حد تک خاتمہ ہو جائے گا اگر خان صاحب نے رائے ونڈ کا پلان ختم نہ کیا تو پھر وہی ہوگا جو اسلام آباد میں 126 دنوں کے دھرنوں میں ہوا اور دن کا اختتام پھر ناکامی پر ختم ہوگا۔
اب خان صاحب کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنی ڈوبتی ہوئی پارٹی کو بچانا ہے یا پھر ناکامی کا سامنا کرنا ہے، میرے مطابق عمران خان مارچ کو ختم کرنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں مگر وہ ضدی سیاست دان بھی ہیں اس کے باوجود بھی اگر انہیں پیار سے سمجھایا جائے کہ نواز شریف سے وزیراعظم بننے کا بدلہ اپنی پارٹی کو ڈبو کر نہ لیا جائے تو ممکن ہے وہ مارچ ختم کر دیں اور اسی میں پاکستان کی جیت ہے۔خان صاحب کی پارٹی اس وقت انتشار کی شکار ہے اور اس کے ذمہ دار صرف اور صرف عمران خان خود ہیں اور انہیں چاہئے کہ دھرنے ،احتجاج ،توڑپھوڑ،جلائو گھیرائو کی سیاست چھوڑ کر صرف اورصرف اپنی پارٹی کو سنبھالیں کیونکہ ایک صوبہ تو ان سے سنبھالا نہیں گیا ملک کیا خاک سنبھالیں گے۔
Ghulam Raza
تحریر: غلام رضا ای میل: hurmateqalam@gmail.com فون نمبر:0331-4260460 فیس بک آفیشل پیج: hurmateqalam/www.fb.com