تحریر: سید انور محمود یکم جولائی کو لاہور کے علاقے گلبرگ تھری میں آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب، چوہدری عاصم گجر کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر پہنچے، آزاد کشمیر کے صدر کے ساتھ وی آئی پی پروٹوکول بھی تھا۔ اس دوران ہی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھیں کہ چوہدری عاصم گجر کے مکان کے سامنے پروٹوکول کے اہل کاروں نے پہلے ان کی گاڑی کو زبردستی روکا اور سائڈ پر ہونے کا حکم سنایا، گاڑی سائیڈ پر کرنے کے باوجود سامنے سے آنے والی ایک دوسری سیاہ گاڑی نے اووراسپیڈنگ کے ساتھ ڈاکٹرعظمیٰ کی کار کو نہ صرف ہٹ کیا بلکہ پولیس اہل کاروں نے ان پر اسلحہ بھی تان لیا، اسلحہ بردار اہل کار ڈاکٹرعظمیٰ کو مخاطب کرکے چلی جاؤ، یہاں سے چلی جاؤ کا شور مچاتے رہے۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے جب گھر کے مکینوں سے وی آئی پی پروٹوکول کے بارئے میں معلوم کیا تو چوہدری عاصم گجر نے پہلے تو ان کو نقصان پورا کرنے کی تاویلیں پیش کیں، لیکن ڈاکٹر صاحبہ کےاصرار کرنے پر عاصم گجر نے بتایا کہ یہ مریم نواز کا پروٹوکول تھا جو وہاں تعزیت کے لیے آئی تھیں۔
عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ کوچوہدری عاصم گجر نے بتایا تھا کہ یہ مریم نواز کا پروٹوکول تھا جو وہاں تعزیت کے لیے آئی تھیں۔ چوہدری عاصم گجرکی غلط بیانی کے بعدڈاکٹرعظمیٰ نے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے پروٹوکول پر تعینات پولیس کی طرف سے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا، دوسری طرف کراچی میں انکے بھائی عمران خان کو اپنی بہن پرمریم نواز کے پروٹوکول کے حملے کا پتہ چلا تو قدرتی طور پر انہوں نے بھی احتجاج کیا جو بہت سخت تھا۔ دوسری طرف مریم نواز نے اس بات کی تردید کی اور ڈاکٹرعظمیٰ کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے بتایا کہ جس وقت میڈیا یہ خبر دے رہا تھااس وقت وہ اسلام آبادمیں تھیں اور بعد ازاں اسلام آباد سے لاہور کیلئے روانہ ہوئیں ۔ مریم نواز کے مطابق عمران خان کی بہن کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر افسوس ہے، واقعہ کی خبرملی تو میں اسلام آباد میں تھی، میں دوپہر4بجکر 30منٹ پر اسلام آباد سے لاہور پہنچی،کم ازکم رمضان المبارک میں جھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ مریم نواز کی تردید کے بعد بات ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ ہی تو وہ موقعےہوتے ہیں جب نواز شریف کے وفادار اپنی اپنی وفاداریوں کے ثبوت دیتے ہیں۔
ترجمان شریف فیملی نے کہاکہ اس واقعہ کے وقت مریم نواز اسلام آباد میں موجود تھیں۔ عمران خان کی بہن اپنے بھائی کی طرح جھوٹ بولنا چھوڑ دیں اور حقیقت کو حقیقت رہنے دیا جائے ۔ ترجمان نے مزید کہاکہ مریم نواز ان کے اعصاب پر اتنی سوار ہیں کہ ان کو خواب میں بھی مریم ہی دکھائی دیتی ہیں۔مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشیداور نواز شریف کےسمدھی وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار سب نے ہی عمران خان اور ان کی بہن کے خلاف بہت کچھ کہا اور مطالبہ کیا کہ وہ مریم نواز سے معافی مانگیں۔ اسحاق ڈار نے اپنی گھٹیا سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان سے کہا کہ ’’خان صاحب اپنے بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کے ہمراہ بھی کچھ وقت گزاریں تاکہ ان کے وقار کا احساس ہو‘‘۔لیکن افسوس نہ ہی مریم نواز نے اور نہ ہی ان کے خوشامدیوں میں سے کسی ایک نے بھی عمران خان کی ہمشیرہ ڈاکٹرعظمیٰ خان سے اس بات کا اظہار کیا کہ انکے ساتھ چوہدری عاصم گجر کے مکان کے سامنے آزاد کشمیر کے صدر کے پروٹوکول نے جو سلوک کیا وہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔
Ishaq Dar
دو دن بعد3 جولائی کوعمران خان کی بہن ڈاکٹرعظمیٰ خان نے اپنے بڑئے پن کا ثبوت دیتے ہوئے وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کو ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نےیکم جولائی کو پیش آنےوالے واقعے پر باضابطہ معذرت کی ہے۔ خط میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنےوالے واقعے کی تفصیلات بھی تحریر کی ہیں ،ڈاکٹرعظمیٰ کاکہناہےکہ انہوں نےپروٹوکول کی تفصیل پوچھی تو چوہدری عاصم گجر نے براہ راست بتایا کہ وزیر اعظم کی صاحبزادی آئی ہیں۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ چوہدری عاصم گجر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں، پریشانی کی حالت میں تھی، اس لیے چوہدری عاصم گجر کی بات تسلیم کرلی،مریم نواز ان کی معذرت قبول کریں۔ساتھ ہی ڈاکٹرعظمیٰ نے پروٹو کول کے تنازع پروزیراعلیٰ پنجاب کو بھی ایک خط لکھ کر پروٹوکول کے معاملے کی انکوائری کامطالبہ کیا ہے ۔ ڈاکٹرعظمیٰ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ پروٹوکول کے نام پر مسلح قافلے کے شہر میں داخلے پرپولیس کی لاعلمی انتظامیہ کی نااہلی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ پروٹوکول کس کا تھا اس میں شامل کون لوگ تھے۔ڈاکٹر عظمی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ انھیں اور ان کے بچوں کو ہراساں کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے اوربلیو بک سے ہٹ پروٹوکول لینے والی سیاسی شخصیات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
Imran Khan
یکم جولائی 2016 کو لاہور کے علاقے گلبرگ تھری میں عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان کو جس اذیت سے گزرنا پڑا اور جو ان کے اوپر گزری وہ وی آئی پی کلچر کے نام پر ہر پاکستانی پر گزرتی ہے۔ وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے ہی کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون نے بچے کو رکشہ میں جنم دیا تھا۔ ابھی لوگ کراچی کی بسمہ کو نہیں بھولے ہونگے، دسمبر 2015 میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سول ہسپتال کراچی میں بینظیربھٹو ٹراما سینٹر کا افتتاح کیا جس نے آجتک کام کرنا شروع نہیں کیا ہے۔ بلاول زرداری کی آمد کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ وی آئی پی پروٹوکول کے باعث راستے بند ہونے سے بروقت طبی امداد نہ ملنے پرلیاری سے تعلق رکھنے والی دس ماہ کی بچی بسمہ انتقال کرگئی۔بچی کے والد کا کہنا تھا کہ وی آئی پی پروٹوکول کے باعث سول ہسپتال آنے والے راستے بند تھے، جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور میرے ہاتھوں میں بچی نے جان دے دی، ڈاکٹرزکہتے ہیں اگر 10منٹ پہلے ہسپتال پہنچ جاتے تو بچی کی جان بچ سکتی تھی۔
کراچی ہو یا لاہور، پشاور ہویا کوئٹہ یا کوئی اور شہر،وی آئی پیز کے نام پر عوامی نمائندے اور ان کے محافظ اسی عوام کی عزت نفس کو کچلتے ہیں جنہوں نے ان کو اپنے ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا ہوتا ہے، لیکن بعد میں ان کا طرز عمل بادشاہوں جیسا ہوجاتاہے، پاکستان میں باضابطہ طور پر تو بادشاہت کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن نواز شریف کاحکومت کرنے کا انداز شاہانہ ہے، وی آئی پی پروٹوکول کے بغیر نہ تو نواز شریف چلتے ہیں اور نہ ہی انکے اہل خانہ میں سے کوئی ایک۔ ایک سوال یہ ہے کہ مریم نواز ہوں یا بلاول زرداری ان کو کس حیثیت میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جارہا ہے، نہ ہی مریم نواز اور نہ ہی بلاول کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے تو پھر سرکاری پروٹوکول کیوں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔حکمران طبقہ اور سیاست دان ایک بات یاد رکھیں کہ وی آئی پی پرو ٹوکول حکمرانوں اور عوام میں نفرت کو بڑھا رہا ہے، بہتر ہوگا کہ شاہانہ پروٹوکول کو ختم کیا جائے اورغریب عوام کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح نہ سمجھا جائے، ورنہ جس دن عوام اس شاہانہ پروٹوکول کے خلاف کھڑئے ہوگئے تو پھر نہ ہی کوئی پروٹوکول ہوگا اور نہ ہی پروٹوکول لینے والا۔