تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری عمران خان کا اسلام آباد کو سیل کر ڈالنے کا وقت قریب ترین پہنچ رہا ہے اور ملک میں افرا تفری کی فضابنی ہو ئی ہے۔دیگر سیاسی پارٹیوں کا موقف یوں ہے کہ عمران خان کا موقف تو ٹھیک ہے مگر اسلام آباد میں چونکہ مرکزی حکومت کا سیکریٹریٹ ہے اس لیے اس کا گھیرائو کرنا ور ملازمین کو کام سے روکنا غیر آئینی اور مناسب عمل نہ ہے۔دارلحکومت کا گھیرائو کرنے سے بھارتی بنیے خوشی سے الٹی چھلانگیں لگائیں گے کہ چلے تھے ہمارے خلاف لڑنے اور آپس ہی میں گھتم گتھا ہو گئے چو نکہ بھارتی بارڈر ز پر سخت ٹینشن ہے اور بھارتی افواج سارے پاکستانی بارڈرز کے ساتھ لگ چکی ہیں اس لیے اس وقت تو بھارت کا گھیرا تنگ کرنا چاہیے سفارتی سطح پر اس کی طرف سے کشمیر میں مسلسل ساڑھے تین ماہ سے کرفیو 115سے زائد افراد کی قتل و غارت گری اور ہزارو ں کو زخمی کرڈالنے پراس کے خلاف بھر پوراحتجاج ہو نا چاہیے تاکہ اس کا موقف غلط ثابت ہو جائے کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہیں اس لیے سمجھیں کہ وہ ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں نہ تو انہوں نے بیرون ممالک وفود بھیج کر کشمیر پر کیے گئے مظالم کو اجاگر کیا ا ور نہ ہی کبھی خود تشریف لے گئے وفاقی وزارتیں انجوائے کر رہے ہیں۔
حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے صرف مرکزی حکومت کی گو مگو کی پالیسی کو ہی فالو کررہے ہیں۔عمران خان نے بھی قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں نہ جا کر سنگین غلطی کی لندن کے مئیر کے انتخابات میں مسلمان امیدوار کے مقابلے میں اپنے یہودی سالے کی مدد بھی بڑا غلطان تھی۔ادھران کا ہر پارٹی سے اٹ کھڑکا مولانا فضل الر حمٰن کی نقلیں اتارنا ۔ایم کیو ایم اور نواز شریف کی مخالفت کو ذاتی مشن کے طور پر اپنانا جماعت اسلامی جو کہ کے پی کے میں اب بھی اتحادی ہے۔ اسے بڑے معرکہ پر بھی اعتماد میں نہ لے سکنا۔اے این پی سے چونکہ اقتدار چھنا اس لیے وہ خواہ مخواہ اہی ٹانگیں کھینچتے ہیں ۔اس لیے ایسے عوامل انھیں اقتدار تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹیں ہیں اسلام آباد کے گھیرائو کے اعلان کے بعد یہ کہہ ڈالنا کہ میں نے کوئی ان سے رشتہ لینا تھا کا بھی سیاسی حلقوں نے برا منایا۔مشہور” لاہوری جلسہ” میںنئی قیادت کے نعروں کو پارٹی میں نو دولتیوں نے گھس کر پیچھے پھینک ڈالا ہے۔
چو نکہ عمران خان ذاتی طور پر مخلص ،ایماندار ،غریبوں کا دکھ درد بانٹنے والے اور ملک میں فلاح و بہبود کی سیاست کرنے کے داعی ہیں۔اس لیے ہمدردی کے طور پر چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اس سے ان کی سیاست میں بگاڑ اور پٹڑی سے اتری ہوئی گاڑی دوبار لائن پر چڑھ سکتی ہے وہ اپنا دھرنا بھارتی بارڈر کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے شفٹ کرنے کا فوراً اعلان کردیں جو کہ دس ہفتوں پر مشتمل ہو۔ہر سو میل کے ایریا میں ایک ایک ہفتہ لگائیں اور یہ موقف ببانگ دھل اپنائیں کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں خودارادیت کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد نہیں کرتا میرا اور میرے کارکنوں کا پاکستان زندہ باد دھرناہمالہ سے کراچی تک جاری رہے گا۔دنیا کی کوئی فوج خواہ ہندو بنیے ہی کیوں نہ ہوں جن کا مودی لیڈر ہے ایک ہزار میل لمبے بارڈر پر انسانوں کے سروں کا سمندر دیکھ کر پریشان ہوجائے گی۔
Imran Khan Long Maarch
عمران خان کی حب الوطنی اور نظریات پر سارے لگے دھبے بھی دھل جائیں گے ۔اگر وہ چند ماہ یہ لانگ مارچ بارڈروں کے ساتھ ساتھ جاری رکھ سکیں تو ان کی” بَلے بَلے ” ہو جائے گی۔اور جو سیاہ گھٹائیں اس کی پارٹی پر چھا چکی ہیں وہ بھی چھٹ جائیں گی واضح رہے کہ لمبے وقت کے لانگ مارچ پر صرف مخلص کارکن ہی ڈٹے رہ سکتے ہیںجاگیردار وڈیرے صنعتکار خود ہی وہاں سے ادھر ادھر چھپتے پھریں گے کہ یہ آرام پرست شہزادے نہ تو گرمی سردی برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی خدا تعالیٰ کی موجود پتھریلی مٹیالی زمین پر لیٹ سکتے ہیں جنھوں نے جدو جہد کی ہو گی بھوک پیاس برداشت کی وہی کارکن اور نوجوان ورکر مطمئن ہو کر دوبارہ پارٹی میں جان ڈال دیں گے۔اگر میری معروضات پر عمران خان خلوص نیت اوردل و جان سے عمل درآمد کر لیں تو میری چونکہ وزیراعظم صاحب کے بزرگوں سے بہت زیادہ یاد اللہ تھی اور ان کی مل کی جلد واپسی پر راقم اور دیگر پی این اے کے راہنمائوں کا بہت بڑا کردار تھا اس لیے دونوں بھائی مجھ نا چیز کی معروضات کوقطعاً رد نہیں کریں گے کہ وزیر اعظم پانامہ لیکس کے مسئلہ پر مزید بدنامی سے بچنے کے لیے استعفیٰ دے ڈالیں اور دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کریں کہ دوبارہ قائد ایوان کے انتخاب میں اپنی پارٹی کی بجائے عمران خان کی حمایت کرکے اسکا وزارت عظمیٰ کا خواب بھی پورا کردیں۔
دو سال سے کم ہی عرصہ بعد2018میں انتخابات ہو ں گے اور یہ تو دنیا جانتی ہے کہ جو بھی اقتدار میں ہوتا ہے اس کی غلطیوں کوتاہیوں پر عوام زیادہ تنقید کرتی اور نگاہ رکھتی ہے ن لیگ قومی اسمبلی میں سب سے بڑا گروپ ہوکرحزب اختلاف کا کردار ادا کریںاور نئے وزیر اعظم کا احتساب شروع کردیں۔2018کے انتخابات پر سبھی گروہ اور پارٹیاں مطمئن ہو کر حصہ لیں گی یہ تجویز تو انوکھی ہے مگر بڑھتی ہوئی سیاسی دوریوں کو دور کردے گی ملک میں اتحاد و اتفاق کی صورت پیدا ہو جائے گی پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی او چھے ہتھکنڈوں کو مکمل ناکام بنادے گی ایٹمی پاکستان مضبوط فلاحی مملکت بن کر ابھرے گا۔
اگر یہ دونوں مخالف گروہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھرسیاسی افرا تفریوں کے جنگل کو دیکھ کر کچی گلیوں بوسیدہ مکانوں جھو نپڑیوں سے خود کشیاں خود سوزیاں کرتی خلق خدا اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبی یا نبی کے نعرے لگاتی ضرور تحریک کی صورت میں نکلے گی اور افغانی طالبان کی طرح تمام بڑے نامی گرامی نام نہاد لالچی کرپٹ سیاستدانوں سے اقتدار کی باگیں سنبھال لے گی پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی ہم سیاہ و سفید آپ کو وقت سے پہلے سمجھائے دیتے ہیں۔