تحریر: سید انور محمود چیمپئز ٹرافی کے فائنل سے ایک روز پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور موجودہ سیاستدان، پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے جیت کے لئے سرفراز احمد کو پہلے بیٹنگ کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔سابق کپتان کا کہناتھاکہ پاکستان کی طاقت اس کی بولنگ ہے،اس لئے اسے پہلے بیٹنگ کرکے بڑا ٹارگٹ سیٹ کرنا چاہیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ فائنل کا ٹاس بھارت نے جیتا اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنے کو کہا، کرکٹ کے ماہرین کا کہنا تھا بھارتی کپتان کا یہ فیصلہ غلط تھا اور پاکستان کے سابق کپتان اور 1992 کے ورلڈکپ کے فاتح عمران خان ایسا ہی چاہتے تھے ۔بھارت کو اپنے غلط فیصلے کی سزا ملی اور پاکستانی شاہینوں نے شاندار بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ سے بھارت کو 180رنز کی عبرتناک شکست دی اور چیمپئز ٹرافی پاکستان لے آئے۔اس شاندار جیت کے بعد ایک بات جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ آج بھی کرکٹ میں عمران خان کے مشورئے کامیابی کی کنجی ہیں۔
ورلڈکپ کے فاتح بننے سے پہلےعمران خان نے اپنی والدہ کے کینسر کے موزی مرض کی وجہ سے مرنے پرعام اور غریب لوگوں کےلیے ایک کینسر ہسپتال بنانے کا سوچا اور وہ لاہورمیں ایک کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوگئےاوراب ایک کراچی اور ایک پشاور میں کینسر ہسپتال عمران خان کی قیادت میں زیر تعمیر ہیں۔ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ عمران خان تعلیم کی اہمیت سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں لہذا انہوں نمل کالج کی تعمیر 2006میں شروع کی اور کالج کا افتتاح سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2008 میں کیا۔ نمل کالج کے ساتھ بریڈفورڈ یونیورسٹی آف لندن کاالحاق ہے جس کی بدولت طلباپاکستان ہی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی ڈگری نمل کالج سے حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کی ان سماجی خدمات کی بہت قدر کرتے ہیں۔ پاکستان میں سماجی خدمات کے حوالے سے مرحوم عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب رضوی کے بعد سب سے زیادہ سماجی خدمات عمران خان کی ہی نظر آتی ہیں۔
عمران خان سماجی رہنما کے علاوہ اب پاکستان کے ایک بڑئے سیاسی رہنما بھی بن چکے ہیں، انکی سیاسی جماعت اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی میں تیسرئے نمبر پر ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں انکی جماعت تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو ملاکر حکومت بھی بنائی ہوئی ہے۔عمران خان نے 25 اپریل، 1996 کو تحریک انصاف قائم کرکے سیاسی میدان میں قدم رکھا ایک عرصے تک سیاست میں ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی، سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیا بعد میں ان کی مخالفت شروع کردی۔ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ ملی تھی، کامیاب ہونے والے خود عمران خان تھے، اس وقت کہا جاتا تھا کہ یہ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی تھی۔عمران خان نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جو ان کی ایک سیاسی غلطی تھی۔ اکتوبر2011 میں لاہور میں ہونے والے ایک جلسہ عام کی کامیابی سے ان کی سیاسی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا جس میں تحریک انصاف عوامی مقبولیت حاصل کرنے لگی۔ مئی 2013 کے انتخابات میں عمران خان اپنی توقع سے بہت کم نشستیں حاصل کر پائے، البتہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ وہ موقع تھا ،جب عمران خان اپنے صوبہ میں گڈ گورننس کی نئی مثال قائم کرکے اور خیبر پختونخوا کو ایک ترقی یافتہ صوبہ بنا کر ثابت کر سکتے تھے کہ اگر انہیں پاکستان کی حکومت مل جائے تو وہ اسے ترقی یافتہ اور خوش حال ملک بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ لیکن عمران خان اس میں ناکام رہے اور چار سال بعد بھی وہ اپنے صوبے کومثالی نہ بناسکے۔
پاکستان ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ دہشتگردی طالبان دہشتگردوں نے کی ہے اب تک 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں۔ 11مئی 2013 کے انتخابات سے قبل عمران خان بار بار یہ مطالبہ کررہے تھے کہ طالبان سے مذاکرات کیے جایں۔طالبان نےمذاکرات کے لیے عمران خان کو ہی اپنا نمایندہ قرار دئے دیا تھا، طالبان کے اس اعلان سے پوری پاکستانی قوم کو یہ معلوم ہوگیا تھاکہ خان صاحب طالبان کے پکے ہمدرد ہیں۔2013 میں عمران خان مذاکرات اور طالبان کےدفتر کا راگ الاپ رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کےلیے اس کا ایک دفتر ہونا ضروری ہے۔ آپریشن ضرب عضب سےپہلے تک عمران خان مسلسل لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے رہے کہ نو سال میں کچھ نہیں ہوااور پچاس ہزار افراد مارئے گے اس لیے مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس سے امن آسکتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد بھی طالبان سے عمران خان کی ہمدردیاں ختم نہیں ہویں، لہذا تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا حکومت نے 2016-17 کے صوبائی بجٹ میں 30 کروڑ روپے کی خطیررقم دارالعلوم حقانیہ کےلیے مختص کی ہے جس کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہیں جو بڑئے فخر سے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں۔عمران خان نے بڑئے کمزور انداز میں اس فیصلے کا دفاع ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’’اس سے انتہا پسندی پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ اکیس سال سے عمران خان کی اصل سیاست کا مقصد یہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے ملک کے وزیراعظم بن جایں، لیکن گذشتہ چار سال میں ان کی اور ان کی جماعت کی مصروفیات دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہےکہ ایسا شاید 2018 کے انتخابات میں بھی نہ ہوپائے۔سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسا کیوں؟ جواب یہ ہے کہ’’ گذشتہ چارسال میں عمران خان نے 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا جس کی وجہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی بتائی لیکن 126 دن کے دھرنے کے باوجود عمران خان کچھ حاصل نہ کرپائے، جب 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی اسکول میں دہشتگردی ہوئی اور 132 بچے شہید ہوئے تو انہوں نے دھرنا ختم کیا۔ سال 2016 میں وہ 2 نومبر کو پاناما لیکس کو بنیاد بناکر اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنا چاہتے تھے ، پورا پاکستان پریشان تھا کہ یکم نومبر کو سپریم کورٹ کے ایکشن کے باعث وہ اسلام آباد کو بند نہ کرسکے۔لاہورمیں 5 مارچ کو ہونے والے ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی گئی۔عمران خان مانیں یا مانیں وہ لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد کی مخالفت کرکے اور قذافی اسٹیڈئم نہ جاکر بدترین سیاسی غلطی کرگئے جس کا نتیجہ 2018 کے انتخابات میں انکو ملے گا‘‘۔
آجکل عمران خان اپنی جماعت میں پیپلز پارٹی کے لوٹوں کا استقبال کررہے ہیں، اورشاید وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں یہ لوٹے انکے کام آینگے ۔ لیکن یہ سارے کرپٹ لوٹے ہیں ۔ فردوس عاشق اعوان اور پیپلز پارٹی کے دوسرئے لوٹوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنا ثابت کرتا ہے کہ عمران خان نواز شریف یا آصف علی زرداری کے طرز سیاست کو اپنا رہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کسی بھی جماعت میں ہوں وہ ہر سیاسی جماعت میں شدت سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد بھی وہ ایسا ہی کریں گی جس سے نہ صرف تحریک انصاف کی خواتین سیاسی کارکن بلکہ عمران خان کے قریبی ساتھی بھی ان سے ناخوش ہو سکتے ہیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ عمران خان کے دو رخ ہیں ایک سماجی دوسرا سیاسی، سماجی رہنما کے طور پر وہ ایک کامیاب انسان ہیں، پوری قوم ان کی مشکور ہے لیکن سیاستدان کے طور پر وہ مکمل ناکام ہیں، انکی ناکامی اس طرح بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنے موقف کو بہت جلدی بدل لیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ انہیں’ یو ٹرن خان ‘ بھی کہتے ہیں، اپنی پارٹی کے وہ رہنما کم ڈکٹیٹر زیادہ لگتے ہیں۔ وہ سیاست میں آنا نہیں چاھتے تھے جس کا اظہار بھی سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے کیا تھا، لیکن شاید وزیراعظم بننے کی خواہش انہیں سیاست میں لے آئی۔