عمراں خان نیازی نے مورخہ 18 اکتوبر 2018 کو پاکستان کے بائیسویں ،بقول بلاول زرداری کے (select) وزیر اعظم کا حلف اٹھالیا۔ تو جب صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین حلف لے رہے تھے۔ حلف میں پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے والی زبان میں لڑ کھڑاہٹ اپنے اندر کچھ معنی تو ضرور رکھتی ہے۔ خاٹم النبین کے لفظ پر ان کی زبان بار بار لڑکھڑاتی رہی؟ اللہ جانے کیا معاملات ہیں !!!جو پاکستان کی ریاست کو ریاستِ مدینہ بناکر اس کے امیر المومنین بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ہمیں تو ٹی وی پر ماضی میں دیا گیا ان کا وہ انٹرویو یاد آرہا تھا۔ جب موصوف فرما رہے تھے کہ انگلینڈ میں میری تربیت ایک بہت بڑے عالم ( شُنیدہے کہ مرزا ناصر احمد،غلام احمد قادیانی کے خلیفہ) نے کی ہے۔جب ان سے اُس کا نام پوچھا گیا تو موصوف اُس نام کو موصوف گول کر گئے تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد پھر سوشل میڈیا پر ساری قوم نے غلام احمد قادیانے کے نائب مرز ا ناصر احمد قادیا نی کے نائب کا بھی پیغامِ تہنیت دیکھ سن لیا ہوگا ! مگرحلف اُٹھا نے کے بعد موصوف کی بوکھلا ہٹ کا تقریر کے دوراں یہ حال تھا نو مولود وزیر اعظم عمران احمد نیازی دھرنوں والے خطابوں سے باہر آ ہی نہ سکے تھے، اللہ رحم کرے !وزارتِ عظمیٰ کے حلف اٹھانے تے ہی عمران احمد نیازی نے بطور وزیر اعظم پاکستان جو تقریرکی اُس میں اوردھرنوں کے دوران کی جانے والی تقریروں میں کوئی فرق نہ تھا۔اور نہ ہی پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں نے کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔
ان کے مداحوں میں سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موصوف شائدآمروں کو بالکل اچھا نہیں سمجھتے ہیں!جس کا حقیقتِ حال نفی کرتی ہے۔ مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ موصوف کی کابینہ کے 21 ارکان میں سے 12 (بارا رتن)ارکان جو کابینہ کا 60%ہے۔ ایک آمرجنرل پرویز مشرف ، آئین شکن اور غدارِ وطن کی گود میں لوریاں لینے والے ہیں۔ان کے علاوہ جسے پنجاب اسمبلی کا اسپیکر عمران احمد نیازی نے لگایا ہے۔ ان کا ایساتیرہواں رتن ہے۔ جو پرویز مشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں پنجاب کا حلیہ بگاڑنے میں سب سے آگے تھا،اورکہتا تھا کہ دس مرتبہ بھی اس آمر (پرویز مشرف کو وردی میں صدر بنایا گیا تو بنوائیں گے!!!) سب سے اہم بات پرویز مشرف غداری کاکیس لڑنے ولا رتن غدارِ وطن جنرل پرویز مشرف کا وکیل ہے۔ جواُ س کا مقدمہ بھی لڑ رہا ہے، وہ بھی موصوف کی کابینہ کے اہم اراکین میں شامل ہے۔ شائد وزارتی کھلواڑ یہ تمام کے تمام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بپاکریں گے۔ ریڈی میڈ صادق و امین وزیر اعظم کے ارد گرد تمام کے تمام ہی رتن صادق و امین لوگوں کا ٹولہ ہی تو اکٹھا ہے!
پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں عمران احمد نیازی کی اس حلف برداری پر دو افراد سب سے زیادہ خوش تھے ایک کی خوشی کا نظارہ توقوم نے وزیرِ اعظم کی حلف برداری میں ہی کر گیا تھا۔دوسار یہاں پہچنے میں کوچھ دشواری محسوس کر رہا تھا۔کیونکہ ان کی تو گویامرادیں بر آئی ہیں۔ ایک کو اپنے بھائی کے لئے مراعات اور اپنے لئے بھی فرصت کے اوقات میں کوئی اہم عہدہ در کار ہے،اور دوسرے کو ایکسٹینشن در کار ہے۔یہ دونوں وہ ہیں جن میں سے ایک تو دھرنوں کے دوران ہی موصوف کو کہہ رہے تھے کہ فکر نہ کر پُتر، اگلا وزیر اعظم میری سند پرتجھ ہی کو بنویا جائے گا! دوسرے وہ ہیں جن کے جونئیر و سینئرز ( غیر مسلم ٹولہ جو اپنے آپ کو مسلماں ظاہر کرتا ہے )کے لوگوں نے عمر ان احمد نیازی کی وزیر اعظم بننے کی راہیں قوم کی آنکھوں کے سامنے ہموار کرائیں۔یہ ایسی ڈالی ہے جو پھل لگنے کے بعد جھکی نہیں بلکہ اس میں اور اکڑ پیدا ہوگئی ہے! اللہ رحم فرمائے ۔ گردن کے سریئے آدمی کو مُڑ کر دیکھنے نہیں دیتے ہیں! میڈیا کو گونگا کرنے کے بعد ان کا نشانہ تمام عمران نیازی مخالف لکھای بھی رہے ہیں۔
خاص طورشہرت و دولت کے تقاضوں سے بے پرواہ آزاد لکھاریوں پر ان کی نظرِ کرم کچھ زیادہ اس لئے رہی ہے کہ اُ نکے پیچھے نہ تو میڈیا ہاؤسز ہیں اور نہ ہی کوئی پتر ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ بعض پالتو،ان لکھاریوں کو ٹیلیفونز اور اور ای میلز پر طرح طرح کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔جو تحریر و تقریر کی آزادی پر قدغن ہے۔ ایسے لوگ کا تحریر و تقریر کی آزادی پر یقین ہی نہیں ہے۔مگر ایسے بھُس میں چنگاری لگانے والے نشاء اللہ کبھی بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
موصوف کی اگلے دن کی تقریربطور وزیر اعظم بھی کوئی قابل تعریف اس لئے نہ تھی کہ موصوف نے اپنے دیئے گئے ایجنڈے میں سے کسی ایک نکتے پر بھی بات نہ کی۔ جذباتی نعرے لگاتے ہوئے دیکھے گئے۔مگر عمران احمد نیازی کے خوشامدی تو موصوف کی بے معنی تقریر کی بھی جی بھر کے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔مگر ہمیں اس تقریر میں ٖ بھی پاکستان کا وزیراعظم ایک متعصب شخص ہی نظر آیا! اگر وہ سب کا وزیر اعظم ہونے کا علان کرتا تو بہت اچھی بات تھی۔ جو اس پروگرام میں نظر نہیں آئی۔مودی کے یار تو اس پروگرام میں دیکھے گئے ۔مگر پاکستان کے سیاست داں ،حزبِ اختلا ف یا اپوزیشن کا ایک فرد بھی اس پروگرام میں نظر نہ آیا۔جس کو پاکستان کی موجودہ سیاست کی بد بختی نہ کہیں تو کیا کہیں؟ نیا پاکستان بنا کر تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران احمد نیازی نے اپنی میڈیا پر تقاریر سے لوگوں کو مایوسی کے سوائے کچھ بی تو نہ دیا ۔بعض لکھاریوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’عمراں نیازی نے اپوزیشن کے خلاف وہی کنٹینر والا لہجہ اپنایا ،تضحیک کو روا رکھا ،حریفوں کو چیلنج کیا اور اس موقعے پر جب وہ پا کستان کے منتخب شدہ وزیرِ اعظم تھے۔
ان کا روئیہ ایسا تھا جیسے کوئی نیا گینگ لیڈر سابق حریف کو کُچل کر اپنا راستہ بناتا ہے‘‘سمجھ داروں کا کہنا ہے کہ ہر وزیر اعظم یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلے تاکہ اس کے راستے کے خار زار میں اس کی قوت ارادی کے لئے کوئی مشکلات کا سبب آسانی کے ساتھ بننے نہ پائیں۔ مگر موصوف پربر تری کا ایسا خمار ہے سوار ہے کہ جو اترنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے گردن میں سریہ پیدا ہوچکا ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ فلک کی طرف تھوکا حلق میں ہی آگرتا ہے۔ایکسٹینشن چاہنے والے اور نئے روزگار کے متنی اس ملک اور قوم پر رحم کھائیں جمہوری لوگوں اور جمہوریت کی راہ میں رخنے نہ ڈالیں۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 [email protected]