آخر کار وہ لمحہ آہی گیا جس کا سب کو پہلے سے پتہ تھا ”سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بیرون ملک علاج کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ویسے تو وہ جیل میں رہے بھی نہیں آئے روز موصوف کسی نہ کسی بہانے ہاسپٹل پائے جاتے تھے یا گھر، کھابوں شابوں کا شوق بھی چلتا رہا بیماریاں بھی نہ گئیں جوں جوں ضمانت کے دن ختم ہو رہے ہیں نت نئی بیماریاں دریافت ہونے لگی ہیں اب تو بچہ بچہ جان گیا ہے اگلے پل کیا ہو گا کیا حالات بدلے؟نہیں وہی مکاریاں ،وہی بیماریاں وہی فنکاریاں ،کورین وڈیو تھی ایک فقیر کشکول ہاتھوں میں بلند کیے سر جھکائے بیٹھا تھا دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں گو جوان تھا مگر دونوں ٹانگوں سے محروم آتے جاتے لوگ رک کر کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے جس کو وہ پھرتی سے جیب میں منتقل کر لیتا اور پھر خالی کشکول بلند، اچانک دو لڑکیاں وہاں سے گذریں ایک نے کشکول میں سکہ ڈالا چھن کی آواز آئی دوسری نے جانے کیا ڈالا یہی دیکھنے کے لیے فقیر نے کشکول نیچے کر کے اس پر نظر ڈالی اور بے ساختہ کشکول پھینک کر دوڑ لگا دی سب لوگ ہکا بکا ہو کر دیکھنے لگے کہ ٹانگیں تو صحیح سلامت تھیں ٹانگوں کے ساتھ کٹے ہوئے نقلی گھٹنے چپکے ہوئے تھے جو بھاگتے وقت کھڑک رہے تھے اب لوگوں نے کشکول میں جھانکا جہاں سکے کے ساتھ ایک ربڑ کی چھپکلی پڑی تھی سب کے قہقہے نکل گئے جن جن لوگوں نے اسحاق ڈار کو موت کے بستر پر دیکھا تھا وہ بھی بعد میں ایسے ہنسے تھے جب ڈار صاحب بجلی کی سی تیزی سے سڑک پر بھاگتے پائے گئے لوگ کینسر کے مریض شہباز شریف کی سڑک پار کرتے پھرتیاں بھی نہیں بھولے لیکن یہ ساری پھرتیاں لندن کی سڑکوں پر نظر آتی ہیں شائد ان میں قانون کا کرنٹ دوڑتا ہے اور پاکستان میں یہ قانونی کرنٹ صرف عوام کو لگایا جاتا ہے کہتے ہیں جس معاشرے میں طاقتور کے لیے قانون نرم اور کمزور کے لیے سخت ہو وہاں سزا اس نا انصافی کی بدولت پورے معاشرے پر تقسیم ہو جاتی ہے کیا ہم اس لیے پاتال میں جا رہے ہیں کہ کم از کم ان دس سالوں میں قانون کو مرضی کے مطابق موم کی ناک کی طرح موڑا جا رہا ہے یہی دیکھ کر عمران خان نے انصاف کی آواز اٹھائی تھی۔
(جناب اظہار الحق نے کیا خوب کہا ہے کہ آج عمران خان میدان میں اکیلا کھڑا ہے اور اس پر چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی ہے
اپنوں اور غیروں دونوں طرف سے اس پر زہر میں بجھے تیر چل رہے ہیں وہ نہ فرشتہ ہے نہ ساحر )لیکن سب اس کے خلاف کیوں ہو گئے ہیں ؟اس لیے کہ کوئی کبھی اس کے ساتھ تھا ہی نہیں ایسی ایمانداری اور وہ بھی سیاست میں آہستہ آہستہ سب کو یقین ہو گیا یہ تو نہ کھائے گا نہ کھانے دے گا کیونکہ کرپشن ان کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہے وہ اس پر کبھی بات نہیں کرتے ہاں عمران خان کے بلاول کو صاحبہ کہنے پر طوفان اٹھا سکتے ہیں اس سارے جلسے میں صرف یہی ایک لفظ ان کو نظر آیا اور پورا میڈیا لوٹ پوٹ ہو گیا سوشل میڈیا پر صف ماتم بچھ گئی اخباروں میں شہ سرخیاں لگ گئیں سارے دانشور سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ مذمت کے کن کن طریقوں پر عمل کیا جائے حالانکہ آج خود بلاول زرداری نے پریس نیوز میں کہہ دیا کہ مجھے صاحبہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے پہلے رانا ثنا اللہ صاحب تو باقائدہ بلاول کے متعلق گارنٹی دے چکے ہیں وہ الفاظ لکھتے ہوئے جھجک ہو رہی ہے اور اسکی وڈیو بھی موجود ہے لیکن کبھی برا نہیں منایا گیا بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر کے لوگ اور زرداری صاحب بھی بلاول کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر چکے ہیں کسی کو آگ نہیں لگی لیکن عمران خان کی ہر بات کو محدب عدسے دیکھا جاتا ہے اور پلاننگ کے تحت اول دن سے ہی حکومت کو غیر مقبول کرنے کی مہم چل رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عمران خان کی آنکھ کا بال تو دکھائی دیتا ہے دوسروں کی آنکھوں کے شہتیر بھی نظر نہیں آتے جمہوریت کے یہ مجاھد اس وقت جانے کیا پی کر سو رہے تھے جب دختر نیک اختر عملاً بادشاہی کر رہی تھیں جب وہ سرخ قالین پر چلتی تھیں اور منتخب سپیکر اس غلامانہ انداز میں چلتا تھا کہ قالین پر پائوں نہ پڑے کہیں شہزادی کے شاہانہ جاہ و جلال پر آنچ نہ آ جائے وہی غلامانہ ذہنیت کے حامل لوگ کرپٹ ٹولے کی واپسی چاہتے ہیں بقول ان کے انہوں نے ڈلیور کیا تھا وہی پست انداز فکر ہے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں کبھی بھولے سے بھی کسی نے نہیں سوچا ملک تو کھربوں کا مقروض ہو گیا یہ کھربوں پتی کیسے بن گئے ؟ ابھی ایک نجی چینل پر بات کرتے ہوئے سینئر سیاستدان اور تجزیہ کار محمد علی درانی نے کہا کہ مسلم لیگ نون ہمیشہ میسنی بن کر نکل جاتی ہے مشرف صاحب کے زمانے میں مسلم لیگ نون نے سعودی عرب میں رو رو کر تیل بند کروایا اور اس کے بدلے میں پاکستان سے نکلنے کا راستہ بنایا سب کو یہیں چھوڑ کر نواز شریف خاندان سعودی عرب چلا گیا سات سال وہاں بیٹھے رہے مگر کبھی تسلیم نہ کیا کہ معاہدہ کر کے آئے ہیں جب یہ لوگ واپس آئے تب بھی معاہدہ ہونے کی تردید کی لیکن بعد ازاں خود سعودی حکومت نے خود تصدیق کر دی کہ یہ ایک معاہدے کے تحت آئے تھے مطلب ڈیل جس کو NRO کہتے ہیں بس ان کا ماننا ہے کہ جان بچ جائے پھر اتنا جھوٹ بولو کہ سچ لگنے لگے پیپلز پارٹی اور ان میں یہی فرق ہے کہ پیپلز پارٹی کو ہر بار ایک قربانی دینی پڑتی ہے جس وہ شہید کہتے ہیں کرپشن کرنے کے لیے بھی انہوں نے اپنے ملازمین کے کئی اکائونٹ کھولے وہ کہتے ہیں جو چوری کر سکتا ہے وہ کر لے ملک کا دیکھا جائے گا۔
پیپلز پارٹی کو علم ہے ہمارے مال کی طرف دنیا کے ہاتھ بڑھ رہے ہیں اس لیے وہ دن بدن خاموش ہوتے جا رہے ہیں دوسری طرف شہباز شریف بڑے آرام سے ملک سے باہر چلے گئے ہیں میاں صاحب اب بالکل خاموش ہیں مریم کو بھی خاموش کرا رکھا ہے اس وقت دو اطلاعات ہیں ایک یہ کہ شریف خاندان مال دینے کو تیار ہے لیکن وہ کہتے ہیں مال ایسے لو کہ ہمیں ماننا نہ پڑے کہ مال ہم نے دیا ہے شریف خاندان چاہتا ہے پلی بارگین کی بجائے بیک ڈور بار گین ہو جائے ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی کے کسی بھی ملک سے پاکستان کو امداد کی شکل میں پیسے مل جائیں گے جو کہ اصل میں شریف خاندان نے انہیں دیے ہونگے یہ پیشکش صرف اسی شرط کے ساتھ کی گئی ہے کہ ان کو چور ڈکلیئر نہیں کیا جائے گا (تاکہ یہ پھر پہلے کی طرح پاکستان کو لوٹنے اور پاکستانیوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کچھ عرصہ بعد تشریف لے آئیں )اور پلی بار گین دستاویز کی صورت میں نہیں ہوگی بلکہ امداد کی صورت میں کسی اور ملک سے پیسے دلوائے جائیں گے اس کے عوض شریف خاندان کو این آر او یا ریلیف مل جائے گا لیکن وزیر اعظم عمران خان نے بالکل انکار کر رکھا ہے (اور یہی وہ نقطہ ہے جس پر اڑ کر عمران خان تنہا ہو رہے ہیں وہ کہتے ہیں میں صرف وہ پیسہ وصول کرونگا جو پیسہ یہ مان کر دیں گے میں پلی بار گین کر لونگا لیکن بیک ڈور بارگین نہیں اگر میں وہی کام کروں جو مجھ سے پہلے ہوا تو میری تو بائیس سالہ جدو جہد خاک ہو جائے گی میں ان سے پیسے نکلوانگا اور سب کے سامنے نکلوائونگا،میں عوام سے دھوکہ نہیں کرونگا اب میں اس ساری صورت حال کو عوام پر چھوڑتی ہوں کیا عوام اب بھی عمران خان کا ساتھ دیں گے یا اسے تنہا چھوڑ دیں گے؟