تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ٍ خلیل جبران نے کہا ”ترس کھاؤ اُس قوم پرجو کسی سرکش انسان کواپناہیرو بناتی ہے”۔ فرق ہے ،بہت فرق بہادری اورسرکشی میں۔ بہادراپنے عزم وہمت کے زورپر دلوںکو مسخرکرتا اورمقبولیت کی رفعتوںکو چھوتاہے لیکن سرکش کے حصے میںہزیمت ،صرف ہزیمت۔ ضد ،ہٹ دھرمی اورسرکشی اُس میںکوٹ کوٹ کربھری ، نرگسیت کے سرکش بتوںکو حلیمی کے ہتھوڑے سے پاش پاش کرنے کووہ تیارنہیںاِسی لیے” اپنے بھی خفااُس سے ہیں ،بیگانے بھی ناخوش”۔ محترم عطاالحق قاسمی صاحب کی یہ خواہش کہ ”خاںصاحب اپنی غلط بیانی پرنجم سیٹھی سے معذرت ضرورکریں ،اِس سے آپ کاقد چھوٹانہیں ،بڑاہوگا ”لیکن جانتے وہ بھی ہیںکہ خاںصاحب ایساکبھی نہیں کریںگے کیونکہ نرم خُوتو وہ کبھی تھے ہی نہیں۔آقا کافرمان ہے ”جوشخص نرمی کی صفت سے محروم کردیا گیاوہ سارے خیرسے محروم کردیا گیا”۔اظہارِ ندامت اورمعذرت تو”خیر”کی علامت ہے جس کی توقع خاںصاحب سے عبث ۔ویسے بھی جن صلاح کاروںنے خاںصاحب کوگھیر رکھاہے
اُن کایہ عالم کہ جب حامدمیر نے خاںصاحب سے ایک ”سچ” اگلوایااور عارف علوی نے اظہارِندامت کیاتو سبھی سیخ پا، مدح سراتو اتنازیادہ کہ بَرملالکھ دیا” یہ کہنے کی کیاضرورت تھی کہ 35 پنکچروالا بیان سیاسی تھا”۔قُرآن وحدیث کے بغیرلقمہ نہ توڑنے اوراپنے ”کالمی درویشوں”کے زورپر قوم کوگمراہ کرنے کی سعی کرنے والے سینئرلکھاری کی خدمت میںعرض ہے کہ میرے آقاۖ نے تو یہ فرمایاکہ ”جوشخص دنیامیں دورُخا پن اختیارکرے گا ،قیامت کے روزاُس کے مُنہ میںآگ کی دوزبانیں ہوںگی ”۔کیا محترم لکھاری طلبِ دنیامیں اتناہی آگے نکل چکے کہ اگرکوئی اپنے جھوٹ کااقرار کرنے کی ہمت کرہی بیٹھے تواُسے یہ مشورہ کہ” اقرار کرنے کی کیاضرورت تھی؟”۔
کیا اُن کے خیال میںپاکستان میںقحط الرجال اب اِس حدتک پہنچ چکاہے کہ لوگ سچ اورجھوٹ کونتھارنے سے بھی عاری؟۔ نہیںمحترم ! ابھی کچھ لوگ باقی ہیںجہاں میںجنہیں میرے آقاۖ کافرمان اَزبَرہے کہ ”آدمی کے جھوٹاہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جوںہی وہ کوئی بات سنے ،بغیرتحقیق اورغوروفکر کے اُسے پھیلاتاپھرے ”۔آپ کے ممدوح نے توغوروفکر اورتحقیق کی عادت سرے سے پالی ہی نہیں،اسی لیے اُنہیںباربار یوٹرن لیناپڑتا ہے ۔حامدمیر کے سامنے کہاکہ 35 پنکچروالا بیان سیاسی تھاجبکہ تیسرے دن کراچی میںانہی 35 پنکچروںکے بارے میںکہہ دیاکہ یہ آغامرتضےٰ پویانے بتایاتھا اوریہ سچ ہے جبکہ مرتضےٰ پویااور امریکی سفارتکار بہت پہلے اِس بیان سے بریّت کااظہار کرچکے۔
National Assembly
اصل کہانی یہ کہ” فافن” کی ایک سروے رپورٹ آئی جس میںقومی اسمبلی کے پینتیس حلقوںکا ذکرکیا گیاجن میںمستردشدہ ووٹ، جیتنے اورہارنے والے امیدواروںکے درمیانی فرق سے زیادہ تھے تحریکِ انصاف نے اسی سروے کوبنیادبنا کر نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی پرالزام دھردیا کہ اُنہوںنے نوازلیگ کے کہنے پر”35 پنکچر” لگائے جبکہ حقیقت اِس سروے کی یہ ہے کہ فافن کی رپورٹ کے مطابق اِن حلقوں کاتعلق پورے پاکستان سے تھا،صرف پنجاب سے نہیںجبکہ نجم سیٹھی صرف پنجاب کے وزیرِاعلیٰ۔ مقبولیت کی انتہاؤںکو چھونے والے کپتان صاحب نے تواپنے سیاسی محل کی بنیادہی جھوٹ پررکھی تھی اسی لیے اُنہیںباربارہزیمت کاسامنا کرناپڑا۔ تحقیقاتی کمیشن کافیصلہ آناباقی لیکن خاںصاحب کی ضد پرتشکیل دیئے گئے اِسی کمیشن کی بنا پرخاں صاحب کے جھوٹ کے کھلیان کاایک ایک دانہ یوں بکھراکہ قوم پرسب کچھ عیاںہو گیا۔
غیرجانبدار تجزیہ نگارتو سالوںسے لکھ رہے تھے کہ خاںصاحب عوامی اجتماعات میںجو کچھ کہتے ہیں، اُن کے افعال اِس کی گواہی نہیںدیتے ۔جب وہ مقبولیت کی انتہاپر تھے توکہاکہ اُن کی جماعت ایسے لوگوںکو ٹکٹ دے گی جو”دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکریں” لیکن ہوایہ کہ” درِعمران”ہراُس شخص کے لیے کھل گیاجس نے زندگی میںکبھی ایک الیکش بھی جیتاتھا۔ ایسے لوگ دھڑادھڑ تحریکِ انصاف میںشامل ہوتے چلے گئے جن کانام سنتے ہی حبِ وطن کی کَسک محسوس کرنے والوںکی طبیعت منغص ہونے لگتی تھی ۔خاںصاحب نے بھی یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا ”سبھی نہیںلیکن زیادہ تر ایسے لوگ ہوںگے جنکے دامن پرکوئی داغ نہیںہوگا”۔ اورپھر ۔۔۔ ایک اوریو ٹرن کہ ”آسمان سے فرشتے نہیںاُتریں گے انہی سے کام چلاناہوگا”۔
جب شدیدترین تنقید کاسامنا کرناپڑا توکہہ دیاکہ اگرسربراہ دیانتدار ہوتو سبھی خود بخود درست ہوجاتے ہیں۔ الیکشن 2013ء کے انتخابات کوپہلے تسلیم کیااورمیاں نوازشریف کومبارکباد بھی دی لیکن پھرچھ ماہ کے اندرہی ایک اوریوٹرن لیتے ہوئے یہ کہناشروع کردیا کہ انتخابی نتائج تسلیم لیکن قومی اسمبلی کے چارحلقوں کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائی جائے۔ کچھ عرصہ بعدمسکراتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاکہ میاںبرادران اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگراِن چارحلقوں میںدھاندلی ثابت ہوگئی تومیںنے تمام انتخابی نتائج کوتسلیم کرنے سے انکارکر دیناہے اسی لیے وہ چار حلقے کھولنے سے گریزاںہیں۔
Election Commission
ہم سمجھتے ہیں کہ اگراِن چارحلقوںمیں دھاندلی نہ بھی ثابت ہوتی توخاںصاحب نے پھربھی سڑکوںپر ہی ہوناتھا ۔الیکشن 2013ء سے پہلے ایک ٹی وی ٹاک شومیں محترم احسن اقبال نے کہاتھا کہ عمران خاںصاحب پانچوںنگران حکومتیں اورساراالیکشن کمیشن خودتشکیل دے لیں لیکن یہ لکھ کردے دیں کہ وہ انتخابی نتائج کوتسلیم کرلیںگے ۔اُس وقت تویارلوگوں نے احسن اقبال صاحب کے اِس بیان کومسکراکے ٹال دیالیکن وقت نے ثابت کیاکہ حقیقت وہی تھی جس کااظہار اُنہوںنے کیا۔ اب بھی خودعمران خاںصاحب اورتحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے باربار یہ کہاجا رہاہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کوتسلیم کیاجائے گالیکن ایساہوتا نظرنہیں آتا ۔تحریکِ انصاف کے میاںمحمودالرشید نے تو دھاندلی ثابت نہ ہونے لیکن انتخابی بے ضابطگیوںپر احتجاجی تحریک لانے کا عندیہ بھی دیا۔ مولاناقادری پاکستان پہنچ چکے ،سابق گورنرپنجاب چودھری سرورکی خفیہ سرگرمیاںجاری ،چودھری برادران اورمولانا قادری سے اُن کے مسلسل رابطے کسی نئی تحریک کاپیش خیمہ دکھائی دیتے ہیں۔
اُدھر پرویزمشرف کی سربراہی میںنئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے کے لیے حامدناصر چٹھہ،سردار ذوالفقار کھوسہ اورسیدغوث علی شاہ متحرک، نام اِس کاہوگا ”متحدہ مسلم لیگ”۔کپتان صاحب اورقادری صاحب کے متحرک ہونے پریہ متحدہ مسلم لیگ بھی اُن کاساتھ دے گی ۔ پرویزمشرف صاحب کی تومولاناقادری سے ٹیلی فونک بات ہوچکی اورپرویزمشرف نے مولاناقادری کوکراچی میںملاقات کی دعوت بھی دے ڈالی ۔ پیپلزپارٹی اورایم کیوایم حکومت سے ناراض لیکن مقتدرہ قوتیںآج بھی نوازلیگ کے شانہ بشانہ ۔ پہلے نوازمخالف تجزیہ نگاروںکی زبانیںیہ کہتے نہیںتھکتی تھیںکہ سیاسی اورعسکری قیادت ایک صفحے پرنہیں
لیکن جب کچھ بَن نہ پڑاتو اب یہ واویلاکہ اصل اقتدارتو جنرل راحیل شریف کے پاس، نوازلیگ تومحض ہاتھی کے دانت لیکن حقیقت اِس کے بالکل برعکس ۔افواجِ پاکستان وہی کرتی ہیںجو اُنہیںکرنے کوکہا جاتاہے۔ مدح سراکے ”کالمی درویشوں” کی یہ اطلاع بالکل غلط کہ ”میاںنواز شریف، زرداری صاحب کوپیہم پیغامات بھیج رہے ہیںکہ میںآپ کی مددکرنے کاآرزومندہوں مگر مجبورہوں”۔ اگرایسا ہوتاتو میاںصاحب زرداری صاحب سے نہ توطے شدہ ملاقات سے انکارکرتے اورنہ ہی روس میںبیٹھے جنرل راحیل شریف کوفون کرکے زرداری صاحب کے بیان کی نفرین کرتے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ میاںصاحب خاموشی اختیارکر لیتے لیکن اُنہوںنے تو ہرسطح پرببانگِ دہل زرداری صاحب کے بیان کے بخیٔے ادھیڑے۔