پاکستان کی تاریخ میں سے 2006 سے لیکر 2012 انتہائی اہم برس گزرے ہیں۔ 2006 سے 2008ء تک پرویز مشرف نے پاکستان کو تمام عوامی مسائل سے دو چار کر دیا ۔ اسی دوران پرویز مشرف نے لال مسجد، بگٹی اور بلوچستان آپریشن اور امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت نامہ دیکر بہت زیادہ دل گیر کام کیے بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی قتل نے بھی زخم پر نمک لگا دی۔عوام نے پی پی پی کے سیاستدانوں پر ترس کھا کر انھیں حکومت نوازنے میں اہم کرداد ادا کیا۔
پاکستان کے مایہ ناز غنڈہ اور چور آصف علی زرداری پاکستان کو صدر بن گیا ۔ بعد ازاں پاکستان کے حالات درست ہونے کے بجائے زیادہ ہی بگڑنے لگے ۔ 2006ء سے لیکر 2012ء کے دوران پاکستان کی معتد حلقوں شعور بیدار ہونا شروع ہو گیا تو نوجوانوں نے دیکھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیچھے امریکہ ، بھارت اور اسرائیل تو ہیں مگرہماری حکومت اور اس کے اتحادی کیا گل کھلا رہے ہیں۔ نوجوان طبقہ کی واضح اکثریت نے پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تمام حکومتی اتحادیوں کو سوشل میڈیا و موبائل ایس ایم ایس کے زریعے ایک نئی چہرے کی تلاش شروع کر دی۔ تو سابق کرکٹر عمرا ن خان کی سیاسی و سماجی کیئر یر نے عوام و نوجوان طبقہ کو متاثر کر دیا۔
تو نوجوانوں نے عمران خان کو لانے کا فیصلہ کیا۔ مینار پاکستان پر تحریک انصاف نے تاریخی جلسہ منعقد کر کے نہ صرف تاریخ رقم کر دی۔ بلکہ تمام سیاسی قلابازوں کی ماضی کی تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مر کز بن گیا۔ چھ سے سات لاکھ لوگوں کی تاریخی جلسہ نے پاکستان میں سیاست کو نیا رخ دیا تھا ۔ اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ق ، پاکستان مسلم لیگ ن ، جمعیت علما ء اسلام و دیگر جماعتوں کے سربراہان و ان کے آقا مریکہ بھی پریشان ہو گیا تو عمران خان کی کردار میں کوئی ایسی کوتائی نظر نہیں آئی کے نوجوانوں کو مایوس اور کنفیوز کیا جا سکے جس سے عمران خان کی طرف کم متوجہ ہو جائیں۔
ایک عام رایہ کے مطابق آخر کا ر ماسٹر مائینڈ امریکہ نے انھیں نصیحت کیا کہ عمران خان حراساں کرنے کی کوشش کی جائے اور عمران خان کو بلیک میل یا عمران خان کے گرد چند ایسے لوگوں کو جمع کرنے کا سوچا جو کہ عمران خان کو زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، نواز شریف کی سیاست دان بنا سکیں۔عمران خان کی زبان کو بند کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ روانہ کر دیئے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سب سے پیارے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی پانے سب سے پیارے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری جو چار چار سال وائٹ ہاؤس میں وابستہ رہیے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں سابق وزیر خارجہ ہیں جن کا تعلق ہمیشہ امریکہ ، انڈیاسے رہا ہے۔ ایک زرداری کا رائٹ ہینڈ اور دوسرا مشرف کا رائٹ ہینڈ ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے سابق مرکزی صدر و بابا سیاست (ریٹائرڈ سیاست دان ) مخدوم جاوید ہاشمی کو بھیجا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے اعظم خان سواتی کو بھیجا ہے۔ ان کے ساتھ چند اور لوگ بھی فری میں آئے ہیں ۔جہانگیر خان ترین جیسے لوگ جو مشرف کے زمانے میں مشرف کے صلاح کا ر تھے مشرف سے غلط فیصلے کر واکے ملک کو جہنم میں دھکیل دیا۔
Zardari
یاد رہے کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی او ر زرداری کے صلاح کاروں میں سے تھا۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری مشرف کے صلاح کاروں میں سے تھا جن کی منظوری سے مشرف نے امریکہ کے ساتھ دوستی مزید بڑھایا، لال مسجد آپریشن ، ڈروں حملوں کو امریکہ کو اجازت، نیٹو سپلائے کی اجازت، بگٹی اور بلوچستان میں فوجی آپریشن ، قبائلی علاقوں جہاں شریعت نافذ تھا وہاں نام نہاد سکولرازم اور شریعت اور طالبان کیخلاف جنگ ، کراچی و بلوچستان میں ٹارگیٹ کلنگ جیسے تما م اہم منصوبوں پر ان لوگوں نے ہی صلاح دیا تھا جس میں سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری اور جہانگیر خان ترین جیسے ناپاک لوگ شامل تھے۔
اگر یہ لوگ مخالفت کرتے تو آج پاکستان ڈرون حملوں ، بلوچستان میں علیحدگی پسند، طالبان کی جنگ، قبائلی علاقوں میں جنگ جیسے حالات قطعی نہ ہوتے بلکہ پاکستان پر امن ہوتا اور امریکی غلامی بھی نہ ہوتا نہ ہی کوئی بیرونی قرضہ ہوتا۔قریشی، ہاشمی، ترین، سواتی،قصوری جیسے ناپاک صلاح کاروں کے رش میں عمران خان بھی اپنا مقام کھو بیٹھا ہے۔ عمران خان کی مقبولیت بڑھنے ہی لگا تھا کہ ان صلاح کاروں نے عمران خان کو زرداری ، مشرف اور نواز شریف کو ہمیشہ غلط صلاح دیئے تھے جس وجہ سے پاکستان آگ میں جل رہا ہے۔
ان کو پاکستان تحریک انصاف کی کشتی میں سوار کر منافقت کرنے کی غرص سے بھیجا گیاہے۔اب عمران خان اپنی بولی نہیں بلکہ قریشی، ہاشمی، ترین، سواتی،قصوری جیسے ماضی کے کھلاڑیوں کی بول بولتے ہیں ظاہر ہے تمام میٹنگ اور اجلاس میں دائیں و بائیں قریشی، ہاشمی، ترین، سواتی،قصوری موجود ہوتے ہیں ۔ نزدیکی لوگوں آواز جلدی سنائی دیتا ہے۔ ان کرپٹ اور ماضی کے گنا ہ گاروں کی آمد سے پارٹی کے مخلص بلوچستان سے شاہد قاضی ، ایڈمرل جاوید اقبال جیسے لوگ جس لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کے بُرے حالات میں ساتھ دیا تھا۔
یہ لوگ خدا حافظ کہہ کر گھر بیٹھ گئے۔عمران خان کو حراساں کر نے کی کوشش کامیاب ہوگیا ۔ عمران خان زرداری ، گیلانی ، مشرف ، نواز ، مولانا تمام کرپٹ حکمرانوں کے خلاف بولنے والا خان آ ج بولتی ہی بند ہو گئی ہے۔اپنے اور پرائے میں فرق نہ کرنے والا خان اپنی تمام مقبولیت کوکھو بیٹھا ہے ۔ کاش عمران خان اپنے صلاح کار اچھے اور بزرگ ، حافظ القران اور عالم دین لوگوں کو رکھتا تو خدا کی قسم پاکستان بھر میں کلین سوپ کی خواہش بھی ہو سکتی تھی مگر عمران خان کی اپنی غلط پالیسی نے پارٹی کے ساتھ ساتھ خان کا اپنا گراف کم کر وائی ہے جس کی زمہ دار خان کی اپنی ہی سر جاتا ہے۔
عمران خان کنفیوز ہوچکا ہے کبھی کیا تو کبھی کیا بولتا رہتا ہے ۔اپنی زبان ٹکنے والا خان صبح و شام بیان تبدیل کر کے منافقت پر اتر آیا ہے ۔ میں مانتا ہوں یہ خان کی زبان ہے مگر الفاظ ہاشمی ، قریشی، قصوری، سواتی، ترین جیسے نا اہل حکمرانوں کی ہیں یہ وہ ناپاک سیاستدان ہے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے حاکم ِ وطن کے صلاح کار اور وزیر بنتے آئے ہیں ۔ جیسے صلاح مشرف، نواز، زرداری ، مولانا کو دیا کرتے تھے ویسا ہی صلاح عمران خان کو دیکر تالاب کے تمام مچھلیوں کو خراب کرنے کی خواہش مند ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ عمران خان ایک بہادر اور سچا لیڈر ہے۔
Imran Khan
لیکن خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یا د آ تا ہے تو پریشان ہو جاتا ہوں کہ عمران پر رنگ زبردستی لگا دیا گیا ہے۔کل تک عمران خان نواز شریف کے خلاف تھے مگر آج حمایت کا اعلان کرنے کے خواہش مند ہیں۔ خود کہا کرتے تھے ہم چہرے اور نظام بدلیں گے مگر نہ چہرہ بدل سکے نہ ہی نظام ۔ جو پی پی ، ن ق لیگ میں نظام چلتا ہے وہی پی ٹی آئی میں بھی چلتا ہے چند اہم لوگوں کی بات فیصلہ قرار پاتا ہے ۔عمران خان کی مقبولیت کی کمی کی وجہ تو بتا چکا ہوں۔
اللہ نے اسے ایک صوبہ کی حکومت دیکر اس کی اصلیت ظا ہر کر دی ہے ۔ خا ن کی اپنی غلطیوں اور اپنے گرد ماضی کے کھلاڑیوں کو نئے چہروں اور نوجوان طبقہ پر فضیلت عنایت فرمائی ہے۔ تحریک انصاف صوبہ بلوچستان سے ایک بھی نشست نہیں جیت سکا ہے ، سندھ میں ایک ، چند پنجاب میں اور کچھ زیادہ خیبر پختون خواہ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بلوچستا ن میں عمران خان کی اپنی نظر اندازی کی وجہ بھی قریشی و ہاشمی جیسے ہی لوگ ہیں جن لوگوں اسے ڈرایا کہ حالات خراب ہیں۔
سیکورٹی رسک ہے ۔ جس وجہ سے پارٹی کی صو بائی قیادت نظر اندازی کی وجہ سے جعفر آباد کے مایہ ناز نوجوان سیاست دان سردار زادہ خیر بخش خان عمرانی ، میر امجد حسین کھوسہ ایڈوکیٹ، فرمان خان مگسی ، نعیم خان عمرانی ، سید نوید علی شاہ و دیگر سینکڑوں نوجوان پرانے وفادار ساتھیوں نے بھی پارٹی کو خدا حافظ کہہ دیا ہے۔عجیب بات اللہ پر توکل رکھنے اور بغیر سکیورٹی گارڈ کے گومنے والا خان آج خود ہی غائب کی باتوں سے ڈر گیا ۔ یہ ڈر قریشی ، ہاشمی ، ترین جیسے لوگوں نے پیدا کی ہے ورنہ خان تو ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ بہادر تھا دلیر تھا اب بھی ہے مگر کنفیوز بہت ہے۔
عمران خان صاحب خیبر پختون خواہ کا وزیر اعلیٰ ماضی کے کرپٹ ترین کھلاڑی پرویز خٹک کو رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ وہی چاند کا مکھڑا ہے جب پی ٹی آئی میں اعلان کر رہا تھا تو پارٹی کے سینکڑو ں کارکنوں نے احتجاج کے طور پر استیفیٰ دیا تھا ، لڑائی بھی ہوئی تھی کہ یہ ناپاک ہے کرپٹ ہے ، پرانا غلط صلاح کار ہے ۔پرویز خٹک ایک ہوائی پرندہ ہے ، چڑھتی سورج کا پجاری ہے ، ڈوبتی کشتیوں ہمیشہ چھلانگ مارتا رہا ہے۔ پرویز خٹک مولانا فضل الرحمن کی طر ح ہمیشہ حکومتی کشتی میں سوار رہا ہے اور وقت آنے پر چھلانگ لگانے کی کوشیش بھی کی ہے۔
اسد قیصر پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان میں سے ہیں ۔سیاسی کیئر یر کا آغاز سے ہی پاکستان تحریک انصاف میں ہے ۔اس نے کبھی پارٹی بدلی نہ پارٹی کو بُرے حالات میں ساتھ چھوڑا ہے ۔ بلکہ اچھے بُرے حالات میں عمران خان کا ساتھ دیا ہے۔ مگر آج پرویز خٹک کو اس پر ترجیح دے کر عمران خان نہ صرف غلط فیصلہ کررہا ہے بلکہ پارٹی کی مقبولیت کی گراف کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے۔
People Party
سردار ادریس جیسے لوگ مسلم لیگ، ایم ایم اے ، پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف کی کشتی پر سوار ہو چکے ہیں۔ہاشمی ، قریشی، قصوری، سواتی، ترین لوگوں کی کہنے پر عمران خان نے غلط طر یقے سینئر رہنماؤں کو نظر انداز کر کے من پسند لوگوں میں ٹکٹ تقسیم کر کے پارٹی کے ورکرز میں تضاد پھیلایا اور سینئر رہنماؤں کو نظر اندازی ہونا شروع ہو گیا جس سے عام عوام اور کارکنوں میں مایوسی پیدا ہو گیا۔
ایڈمنسٹیٹر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تو اب عمرا ن خان کو صلا ح کاروں اپنے ہی فیصلے پر مجبور کیا ہے ۔ اب عمران خان کہتا ہے کہ تجربہ کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح کئی سوالات پید ا ہو ئے ہیں خان کی زات پر کہ وہ بھی باقی سیاست دانو ں کی طرح کھانے والے دانت الگ اور دکھناے والے دانت الگ رکھتا ہے ۔ ہر روز بیانات تبدیل کرتا ہے ۔ نواز جیسے لوگوں کے ساتھ اتحاد کرتا ہے ۔ امریکہ اور تمام پاکستان دشمن عناصر کے خلاف زبان کی جنگ بھی بند کر دی ہے۔
جس کی زمہ داری اس گرد تمام صلاح کاروں کی ہے ۔ یہ صلاح کار حضرات ایک سوچے سمجھے منصوبے کہ تحت بھیجے گئے ہیں۔ جس دن سے عمران خا ن کے صلاح کار بن گئے ہیں اُسی دن سے ہی خان کی کشتی ڈوبتی ہی جا رہی ہے اور عمران خان اور پی ٹی آئی کو حراساں کرنے کی کوشش کامیاب ہو گیا ہے ۔ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان سے قابل فکر شکست منہ بولتا ثبوت ہے کہ عمران خان وہ خان نہیں جو دو سال پہلے ہوا کرتا تھا ۔ عمرا ن خان کو اپنی مشن جاری رکھنا ہے تو فیصلے خود کرنے ہونگے۔
مجھے عمران خان پر کوئی شک نہیں ہے ۔بلکہ عمران خان کے گرد جمع شدہ لوگوں پر شکوک ہیں کہ یہ لوگ غلط صلاح کار ہیں جن کی صلاح کو ماننا عمران خان کی سیاسی مجبوری ہے ۔ اگر کوئی غور کرے تب عمر ان خان کی موجودہ سیاسی مناظر اور 2 سال پرانی سیاسی مناظر میں بہت تضاد ہے۔ بحرحال عمران خان کو حراساں کرنے کی کامیاب کوشش ہوئی ہے جس جال میں عمران نہ چاہتے ہوئے بھی پھس چکا ہے۔