اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ماہرین کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سری لنکا کا دورہ کر کے بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اب خطے میں تنہا نہیں ہے اور مستقبل میں علاقائی طاقت کے طور پر اہم کردار ادا کرے گا۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا سری لنکا کا دو روزہ دورہ آج بدھ 24 فروری کو ختم ہو رہا ہے۔ اس دورے کو علاقائی اور عالمی سیاست دونوں کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سے عمران خان کا کسی پڑوسی ملک کا یہ دوسرا دورہ ہے۔
پہلے افغانستان اور اب سری لنکا۔ پاکستانی وزیر اعظم کئی محاذ پر ملکی ساکھ کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں جنوبی ایشیا کی دوسری جوہری طاقت کو سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی طرف گامزن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے سری لنکا کے دورے کے اغراض و مقاصد کے بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کی پروفیسر شائستہ تبسم کا کہنا تھا، ”وزیر اعظم کے اس دورے کو بین الاقوامی بحری مشقیں امن 21 ‘ کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ان فوجی مشقوں میں سری لنکا بھی شامل تھا۔ پاکستان نے علاقائی اور بین الاقوامی بحری افواج کے ساتھ مل کر ان مشقوں کا جو انعقاد کیا وہ دراصل بھارت کے لیے ایک میسیج تھا کہ پاکستان علاقائی سطح پر اب الگ تھلگ نہیں ہے۔ سری لنکا کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش نے بھی ان مشقوں میں حصہ لیا اور اس طرح بھارت کا جو دیرینہ ایجنڈا رہا ہے کہ پاکستان کو علاقائی سطح پر آئی سو لیٹ یا تنہا ظاہر کرے، اُسے ختم کرنے میں مدد ملی ہے۔ ان مشقوں کے کچھ ہی دنوں بعد وزیر اعظم سری لنکا پہنچے ہیں خیر سگالی کی علامت کے طور پر۔‘‘
پروفیسر شائستہ تبسم کے بقول سری لنکا پاکستان کو ایک پارٹنر کے طور پر تسلیم کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور کولمبو حکومت اسلام آباد کے ساتھ دو طرفہ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سری لنکا کا ان کا دورہ گرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی اُس وقت متنازعہ شکل اختیار کر گیا تھا جب سری لنکا کی پارلیمان سے وزیر اعظم پاکستان کے مجوزہ خطاب کی منسوحی کی خبر سامنے آئی۔ اس معاملے کوعمران خان نے بہت زیادہ ہوا دینے کی بجائے اپنے دورے کو جاری رکھنے کے فیصلے کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات قریبی اور دوستانہ ہیں۔ اُدھر کولمبو کے لیے بھی پاکستان کے حکومتی سربراہ کا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے سری لنکا کے اس دورے کے اثرات علاقائی سیاست پر پڑنے کے امکانات کے ضمن میں معروف تجزیہ کار، تارخ دان اور کالم نگار اختر حسین سندھو نے ڈوئچے ویلے کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”عمران خان کا دورہ سری لنکا جنوبی ایشیائی خطے میں امن اور ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ بھارت کی حکمران جماعت ‘بی جے پی‘ اپنی تشدد پر مبنی پالیسیوں کو ترک کر دے۔‘‘ علاقائی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اختر حسین سندھو بھی سری لنکا کی پارلیمان سے پاکستانی وزیر اعظم کے خطاب کے منصوبے کی منسوخی میں نئی دہلی کا ہاتھ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”بھارت خطے میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتا رہتا ہے، اس کے لیے وہ اپنے ‘مسلز‘ دکھاتا رہتا ہے، اُسی نے کولمبو حکومت کو زیر دباؤ لا کر عمران خان کے پارلیمان سے خطاب کو منسوخ کروایا۔ بھارت پہلے ہی پاکستان میں منعقد ہونے والی SAARC کانفرنس کو سبوتاژ کر چُکا ہے۔‘‘
مختلف تجزیہ کاروں کی طرف سے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کے سری لنکا کی پارلیمان سے خطاب کی منسوخی کے پیچھے نئی دہلی کے خدشات تھے کہ کہیں عمران خان دیرینہ تنازعہ کشمیر نہ اُٹھا دیں۔ سری لنکا کو بھی اس بات کی فکر تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنے خطاب میں سری لنکا میں مسلم اقلیت کے حقوق کے حوالے سے بھی بات کر سکتے ہیں۔ ان تمام خدشات کے پیش نظر سری لنکا حکومت نے عمران خان کے پارلیمان سے خطاب کی منسوخی کا اعلان کیا مگر اس کی وجہ کووڈ انیس کی پابندیاں اور ضوابط بتائی۔
یاد رہے کہ سری لنکا میں کووڈ انیس کے سبب مسلمانوں کی اموات کے بعد ان کی آخری رسومات کے سلسلے میں ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو چُکا ہے۔ سری لنکا حکومت نے مسلم عقیدے کے تحت میتوں کی تدفین پر سخت پابندی لگا دی تھی اور کووڈ انیس کا شکار ہو کر مرنے والوں کی لاش کو جلانے کولازمی قرار دے دیا تھا۔ اس پر سری لنکا کی کُل آبادی کے11 فیصد پر مشتمل مسلم برادری نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سری لنکا میں ریاست کی طرف سے اسے مسلمانوں کے تعاقب اور ان کے عقیدے کے سبب انہیں نشانہ بنانے کی پالیسی میں توسیع قرار دیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل سری لنکا کے وزیر اعظم راجہ پاکسے نے اپنی پارلیمان سے خطاب میں یہ اعلان کیا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق میت کی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اُن کی تعریف کرتے ہوئے ٹویٹ پیغام میں لکھا تھا، ”ہم وزیر اعظم پاکسے کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ کولمبو حکومت کی طرف سے اس پر عملدرآمد کو ابھی تک یقینی نہیں بنایا گیا ہے اور حکومتی حلقوں کی طرف سے اس پر متضاد بیانات سامنے آ ئے ہیں۔
سی پیک کے تحت پاکستان چین کے ساتھ مل کر ایک وسیع اقتصادی انفرا اسٹرکچر پر کام کر رہا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے عمران خان کے دورہ سری لنکا کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ”پاکستانی وزیر اعظم نے سری لنکا میں اپنی ایک تقریر کے دوران کولمبو حکومت کو سی پیک میں فعال کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی۔ سری لنکا اور چین کے تعلقات کیونکہ بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور اسی لیے سری لنکا آہستہ آہستہ انڈیا سے دوری اختیار کر رہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے بھی بھارت کے لیے یہ ایک اشارہ ہے کہ پاکستان خطے میں ایک اہم ‘پاور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور اب وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی سیاست میں استحکام اور ترقی کا خواہاں ہے۔‘‘
پروفیسر شائستہ تبسم نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ ان کے بقول، ”پاکستان سری لنکا اور چین کے مابین ایک ‘ٹرائی اینگل‘ کی تشکیل چاہتا ہے جس سے علاقائی مارکیٹ بھی کُھلے گی اور خطے میں بھارت کے تسلط میں بھی کمی آئے گی۔‘‘
گوادر پورٹ پاکستان اور چین کو مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجزیہ کاراختر حسین سندھو نے عمران خان کی قیادت والی موجودہ حکومت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن کے پس منظر میں بھی عمران خان کے دورہ سری لنکا کو پاکستان کے لیے فائدہ مند قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ”عمران خان پر اس وقت داخلہ اور خارجہ پالیسی سے متعلق امور پر کافی دباؤ پایا جاتا ہے۔ اندرون ملک سیاسی استحکام اور ”گُڈ گورننس‘‘ کے سلسلے میں اور بیرون ملک بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکا انہیں زیر دباؤ لا رہے ہیں۔ سکیورٹی اور اقتصادی کمزوریاں مستقبل میں بھی عمران خان کی حکومت کے لیے چیلنج بنی رہیں گی۔ اس تناظر میں سری لنکا کا ان کا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ اختر حسین سندھو نے مزید کہا کہ وزیر اعظم پاکستان نے سری لنکا حکام کے ساتھ زراعت، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، ‘ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ‘ اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون اور اشتراک عمل کے بارے میں بات چیت کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دورہ پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔