تحریر : ڈاکٹر عبد الباسط اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک المیہ شدت سے موجود ہے وہ یہ کہ تبدیلی چاہنے والے کبھی بھی منزل حاصل کرنے کے لیے اکھٹے نہیں ہو سکے جبکہ سٹیٹس کو کے حامی خطرہ بھانپ کر فوراً شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی کھیل اب بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے درمیان جو اتحاد موجود ہے اُس پر داغ کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
جس وقت میں یہ الفاظ رقم کر رہا ہوں، عومی تحریک کے دھرنے کا مستقبل واضح ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق دھرنا موخر ہو جائے گا اور کچھ کے مطابق جاری رہے گا۔ فیصلہ کچھ بھی ہو، فیصلہ ہو چکا ہے۔ عوامی تحریک میں یہ احساس شدت سے موجود ہے کہ اُن کا ستعمال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر قادری رنجیدہ ہیں، عمران خان کی سولو فلائٹ کی خواہش ڈاکٹر قادری کو ایسا سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ لندن ملاقات میں یہ طے پایا تھا کہ مشترکہ پریس کانفرنس میں لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا، مگر کپتان نے بہاولپور جلسے میں یک طرفہ اعلان کر کے سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی۔ اگر گزشتہ تین ماہ کے سیاسی منظرنامے کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے عوامی تحریک کو’’ دل سے‘‘ قبول کیا ہی نہیں،فاصلے اتنے طویل ہیں کہ عمران خان، طاہرالقادری سے ملاقات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ اب صورتحال یہ کہ اگر شاہراہ دستور پر موجود دھرنوں میں حاضری کا تناسب دیکھا جائے تو ڈاکٹر قادری کی حاضری پچانوے فیصد اور عمران کی حاضری پچپن فیصد ہے لیکن اگر میڈیا کوریج کا تناسب دیکھا جائے تو صورتحال مختلف ہے۔ خان صاحب نے تو 16گست کی صبح ہی بنی گالہ جا کر آرام فرمایااور دھرنے کی’’ کیمسٹری‘‘ ہی بدل دی۔آہستہ آہستہ دھرنا روزانہ شام کو مستقل جلسے میں بدل گیا۔ لیکن پھر بھی سوشل میڈیا پر کوئی خاص تنقید نہیں کی گئی اس لیے کہ سوشل میڈیا کپتان کے متوالوں کی گرفت میں ہے۔ خان صاحب روزانہ رات خطاب بھی کرتے ہیں، تمام چینلز براہ راست نشر بھی کرتے ہیں اور دھرنے کے شرکاء بھی تازہ دم ہو کر آتے ہیں۔
دوسری طرف عوامی تحریک کا دھرناہے جس سے آپ اتفاق کریں یا اختلاف کریں، دھرنا در حقیقت وہی ہے۔ لوگ دور دراز سے بچوں اور عورتوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر قادری روزانہ خطاب بھی کرتے ہیں جو شروع شروع میں تو ماحولیاتی سنسنی خیزی کی وجہ سے براہ راست دکھایاجاتا تھا اب وہ سلسلہ بھی ختم ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ڈاکٹر قادری کے دھرنے کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ الغرض عوامی تحریک کا دھرنا تحریکِ انصاف کے دھرنے کے چوکیدار کے طور پر موجود ہے، باقی کچھ نہیں۔
PTI
یہ ہیں وہ عوامل جو قادری صاحب کو رنجیدہ کیے ہوئے ہیں۔دوسری طرف کارکنان کا دباو، ظاہر ہے اگر تحریکِ انصاف کے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھروں کو چلے جاتے ہیں تو عوامی تحریک کے غریبوں کا کیا قصور ہے؟ان کو بھی چھٹی دیں، وہ بھی گھروں کو جائیں، لیکن جیسے ہی عوامی تحریک دھرنا ختم کرے گی ، تحریک انصاف کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر تنقید اور کردار کشی کا بازار گرم کر دیں گے اور کہیں گے کہ ڈاکٹر قادری نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ جواباً یہ جنگ سوشل میڈیا سے نکل کے الیکٹرانک میڈیا میں آ سکتی ہے۔
مستقبل میں ڈاکٹر قادری اور عمران خان کے درمیان جنگ چھڑ جائے گی۔ محرکات میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔ اس کی ایک جھلک عوامی تحریک کے مینارِ پاکستان پر جلسے میں ڈاکٹر قادری کی تقریر کے بعد نظر آئی۔ ایک خاتون کو سٹیج پر دعوت دی گئی جس نے تحریک انصاف چھوڑ کر عوامی تحریک جوائن کی۔ اس کے بعد ٹوئٹر پر عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف کے درمیان کافی گرما گرمی دیکھنے کو ملی۔ دوسری طرف زرداری صاحب بھی چال چلنے کو تیار ہیں۔ اُنہوں نے چودھری برادران کے ذریعے عوامی تحریک سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
جماعتِ اسلامی سے بھی وہ ہاتھ ملا چکے ہیں۔قوی امکان ہے کہ آئندہ انتخابات میں تحریکِ انصاف اکیلے الیکشن لڑے گی اور وجہ وہی ہے جو 2013 میں تھی۔ان کا خیال ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی ہر نشست جیت چکے ہیں۔اسی وجہ سے 2013 میں جماعتِ اسلامی کو آخری وقت میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے انکار کر دیا گیا تھا، شائد اسی لیے جماعتِ اسلامی نے لانگ مارچ میں شرکت نہ کر کے تحریکِ انصاف سے اُسکی وعدہ خلافی کا بدلہ لیا ہے۔خان صاحب اگر جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو اُنہیں دوسروں کو ’’استعمال ‘‘کرنے کی بجائے ’’ساتھ‘‘ لے کر چلنے کی حکمتِ عملی اپنانا پڑے گی۔ کپتان تبدیلی کا استعارہ ہیں،کرپشن سے پاک ماضی رکھتے ہیں، لیکن جناب جنگ جیتنے کے لیے، ’’اچھی نیت ‘‘ ہی نہیں، ا’’اچھی حکمتِ عملی‘‘ بھی درکار ہے۔