تحریر : سید انور محمود بزرگ کہا کرتے تھے کہ ’’ پہلے تولو پھر بولو‘‘ جس کے معنی یہ ہیں کہ بولنے سے پہلےیہ ضرور سوچنا چاہیے کہ میری کہی ہوئی بات کا سننے والے/والوں پر کیا اثرپڑے گا۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے، بغیر سوچ سمجھ کے بولنے والا شخص ایک تو تنقید کا نشانہ بنتا ہے دوسرئے لوگوں کی نظروں میں اس کی عزت بھی کم ہوجاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے بارئے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بدتمیز انسان ہیں اور بدتمیز وہ اس وقت بھی تھے جب کرکٹ کھیلاکرتے تھے، سیاست کے میدان میں’اوئے‘ کا لفظ وہ کرکٹ کے میدان سے ہی لیکر آئے ہیں۔عمران خان اپنے جلسوں، جلسوں، پریس کانفرنسوں اور بیانات میں کافی حد تک ایک بے باک سیاستدان ہیں لیکن عام طور پر وہ بے باکی کی حد کو پار کرجاتے ہیں اور بدتمیزی کرجاتے ہیں۔ گذشتہ سال دو نومبر 2016کوانکے احتجاجی پروگرام ’اسلام آباد لاک ڈاون ‘ کے خلاف فیصلہ دینے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت حسین صدیقی نے بھی اس بات کی شکایت کی تھی کہ وہ اپنی ایک پریس کانفرنس میں مجھے’اوئے‘ کہہ کر پکار رہے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی کے عوام کو ’زندہ لاشوں‘ اور سندھ کے عوام کو ’غلام‘ کا خطاب دئے چکے ہیں۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ شریف اور زرداری جو باریاں لگانے کے منصوبے پر عمل کررہے ہیں وہ عمران خان سے حد درجہ خوف زدہ ہیں لیکن عمران خان کی زبان کے بے تکے استمال نے خود ان کےلیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ لاہورمیں 5 مارچ کو ہونے والے ”پاکستان سُپر لیگ“ کے فائنل کو انہوں نے ’پاگل پن‘ قرار دیا، اور فائنل ہونے کے بعد انہوں نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’پھٹیچر‘ کا خطاب دئے ڈالا، جس کے بعدپورئے ملک میں ان کے اس بیان کی مذمت کی جارہی ہے۔
پاکستان کے عوام ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہیں، 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں،ان میں ہر مذہب اور عام عوام کے ساتھ ساتھ ہمارئے سیکوریٹی کے تمام اداروں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ معاشی طور پر بھی دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان اربوں ڈالر کا خسارہ اٹھا چکا ہے اور اٹھارہا ہے۔کسی زمانے میں بیک وقت ہم اسکواش، ہاکی اور کرکٹ کے ورلڈچیمپین ہوا کرتے تھے، ہماری ٹیمیں دوسرئے ممالک میں جاکر کھیلا کرتی تھیں اور غیر ممالک کی ٹیمیں پاکستان آکر کراچی سے پشاور بغیر کسی خوف کے کھیلا کرتی تھی۔ پھر دہشتگردی ہمارئے ملک میں داخل ہوئی تو آہستہ آہستہ غیر ملکی ٹیموں نے آنا چھوڑ دیا۔ 3 مارچ، 2009 کو سری لنکن کرکٹر پاکستان کرکٹ ٹیم کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کی تیسرے دن کے کھیل کے لئے قذافی اسٹیڈیم جارہے تھے تو دہشتگردوں نے ان کی بس پر قذافی اسٹیڈیم کے نزدیک حملہ کیا۔ اس حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے چھ ارکان زخمی اور پاکستان پولیس کے پانچ سپاہی ہلاک ہوئے۔ شام تک سری لنکا کے کھلاڑی اور انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان سے رخصت ہوچکے تھے۔ چھ سال بعد مئی 2015 میں زمباوے کی ٹیم لاہور پہنچی تو ہر پاکستانی خوشی سے نہال تھا، ایک عید تھی جس کا جشن پورئے پاکستان میں منایا گیا، لیکن مسلسل دہشتگردی کی وجہ سے ہمارئے میدان ایک مرتبہ پھر ویران ہوگئے اور ہمارا ہوم گراونڈ دبئی کا گراونڈ بن گیا۔
فروری 2017 میں ہونے والی دہشتگردی کی وجہ پورئے ملک کے عوام دہشتگردوں کو ہر صورت شکست دینا چاہتے تھے، اس لیے پانچ مارچ 2017 اتوار کی شام کو عمران خان کی تمام باتوں کو رد کرتے ہوئے ستائیس ہزار شائقین سے بھرے ہوئے قذافی اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان فائنل دیکھنے کےلیے سیاستدان، جرنیل، تاجر، فلم اسٹارز، سنگرز، دانشور اور لاہوری عمائدین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ یہ ایک کامیاب پروگرام تھا، اور دہشتگردوں کو ایک واضع پیغام تھا کہ یہ قوم تمیں لازمی شکست دئے گی۔ ساری دنیا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے ماحول میں ایک کامیاب پروگرام کا انعقاد کیا ہے۔ساری دنیا مانے یا پورا پاکستان مانے اگر نہیں ماننا ہے تو عمران خان نے لہذا’’پاگل پن‘‘ کی ناکامی کے بعد موصوف نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو تختہ مشق بنایا، ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان سپر لیگ کے لیے جو غیرملکی کھلاڑی بلائے گئے میں ان کے نام نہیں جانتا،پی ایس ایل کیلئے پھٹیچر غیرملکی کھلاڑی بلائے گئے،ایسے کھلاڑیوں کو پیسے دیں تو ڈومیسٹک کھیلنے آجائیں۔ مجھے لگتا ہے ایسے ہی کسی کو پکڑ کر افریقا سے لے آئے کہ غیرملکی کھلاڑی آگیا، یہ نہیں پتا کہ وہ کون تھے۔جو غیرملکی کھلاڑی لائے گئے انہیں تو ویسے ہی آجانا تھا، آپ ان کو پیسے دیں تو وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے آجاتے،اصل میں جو بڑے بڑے نام ہیں انہیں نہیں آنا تھا۔
عمران خان نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو جن القابات سے نوازا ہے، عام فہم زبان میں ان کے معنی توہین آمیز ہی ہیں۔لفظ ’پھٹیچر‘ کے معنی ہیں گھٹیا، ردی، پست، کم درجہ، کم مرتبہ۔ ان کے اس بیان کو غیر ملکی مہمانوں کے لیے توہین آمیز اور نسل پرستانہ کہا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان سے خودان کو ہی نقصان پہنچے گا، ان کا بیان نسل پرستانہ اور پاکستان مخالفین جیسا ہے۔ ان کے بیان کے بعدسرکاری وزرا کیسے خاموش رہتے فوراً ہی وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’’عمران خان کا مہمان کھلاڑیوں کے بارے میں گھٹیا الفاظ کا استعمال عمران خان کی سوچ کا عکاس ہے‘‘ جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’’عمران خان کا اپنی زبان پر کنٹرول نہیں‘‘۔ سوشل میڈیا پر ان کے اس بیان کی بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر مضمون نگارآمنہ احسن کہتی ہیں کہ:۔ ’’میں پنجاب سے ہوں میں نے ہر سال گرو نانک کے جنم دن پر ہونے والے عرس کے لئے آنے والے ہزاروں سکھوں کو ایک ریڑھی والے سے بھی عزت پاتے دیکھا ہے۔افسوس وزیر اعظم بننے کی کوششیں کرنے والے عمران خان کی سوچ اور سمجھ اس ریڑھی والے سے بھی کم نکلی۔گھرآئے مہمان کے لئے اپنے حصے کا نوالہ دیتے ہیں ہم ۔۔۔انھیں تضحیک کا نشانہ نہیں بناتے۔۔ ۔عمران خان صاحب آپ ہم میں سے نہیں‘‘ ۔
دراصل یہ عمران خان کی مایوسی کا اظہار ہےورنہ گهر آئے مہمانوں کی اس طرح تذلیل کرنا شاید خود عمران خان کو بھی پسند نہ ہو۔ ویسے بهی ڈیرن سمی نے اپنی کپتانی میں 2 ورلڈ کپ جیتے ہیں اور عمران نے ایک ورلڈ کپ،دنیائے کرکٹ میں ڈیرن سمی کو ٹی ٹوئنٹی کا کنگ مانا جاتا ہے۔ بی بی سی اردو کی ویب سایٹ پر ان تمام کھلاڑیوں کی تفصیلات موجود ہیں جن کو عمران خان نے ’’پھٹیچر‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ ان کے پاکستان سپر لیگ کے بیانات کو خود انکے حامیوں نے پسند نہیں کیا اور اب غیر ملکی کھلاڑیوں کی تذلیل کرنے اور ’پھٹیچر‘ کہنے کا کوئی دفاع نہیں کررہا ہے، البتہ ان کے حامی کچھ صحافی حضرات اس قسم کے مضامین لکھ رہے ہیں کہ جیسے یہ سارا بیان آف دی ریکارڈ تھا، یہ صحافتی بدعنوانی ہے، چلیے مان لیتے ہیں کہ یہ صحافتی بدعنوانی ہے لیکن اس سے یہ بات تو ثابت نہیں ہوتی کہ ایسا عمران خان نے نہیں کہا تھا۔ اور اب تو خود عمران خان اپنے بیان کی صفایاں دے رہے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ عمران خان بزرگوں کے کہنے پر عمل کرتے کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘۔