تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ہم پاکستانیون کی قسمت میں کیا ایسے ہی رہنما لکھے گئے ہیں۔ جن کی گفتار کا پتہ نہ کردار کا پتہ جھوٹ بولیں تو اس بے ساختگی سے کہ اس پر جھوٹ بھی شرمانے لگے، اور لوگوں کو سچ کا گمان ہو نے لگے۔ عمران خان نے جس انداز سے تحریِک انصاف کو گذشتہ انتخابات 2013 میں منظم کیا تھا اس سے لگتا تھا کہ یہ کوئی سچا رہنما پاکستانی قوم کو مل گیا ہے۔ مگر اکثر خواب اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات پر اعتراضات کے نتیجے میں عمران خان کی مرضی کاجوڈیشل کمیشن مقرر کیا گیا۔جس نے کھلے دل سے کام شروع کیا اور اپنے کام کو مقررہ مدت سے بھی کئی ہفتے آگے تک چلایا مگر عمران خان کے الزامات چونکہ جھوٹ پر مبنی تھے۔
یہا ں پر وہ اپنے دعوے کے مطابق شہادتیں پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہے جن کے متعلق ان کا دعوی تھا کہ ثبوتوں کے ان کے پاس سندوقوں کے صندوق بھرے ہوئے موجود ہیں۔مگر جب کمیشن نے ان سے ثبوتوں کوفراہم کرنے کو کہا تو وہ اور اُن کے تمام حواری بغلیں جھانکنے لگ گئے۔ ایک جانب کمیشن پر اعتماد اور دوسری جانب وہ اور ان کے حواری ڈھٹائی سے کہتے سنے جا رہے ہیں کہ دھاندھلی تو ہوئی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر کہ کمیشن پر یہ ان کا کیسا اعتماد ہے؟؟؟ قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر اپنا کوئی واضح ردِ عمل ظاہرنہیں بلکہ نواز شریف کو تڑیاں لگا رہے ہیں کہ نواز شریف کی گردن میں سریہ نہیں آنا چاہئے اور یہ ضرور کہا ہے کہ رپورٹ کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔انہیں اپنے کرپٹ لوگوں کو بچانے کی فکر لگی ہے۔
خورشید شاہ کے برعکس مولانا فضل الرحمان کا ردِعمل بڑا واضح اور سخت سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان قوم سے معافی مانگیں اور سیاست سے دست بردار ہو جائیں۔عمران خان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں سیاسی مخالف میاں افتخار جو اے این پی کے رہنما ہیں ،کا کہنا ہے کہ کپتان کے خلاف نا اہلی کا مقدمہ دائر ہونا چاہئے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما جاوید ہاشمی جو نواز شریف سے بغاوت کر کے عمران خان کی پی ٹی آئی کے صفِ اول کے رہنما گردانے جاتے تھے نے جوڈیشل کمیشن کے نتائج پر اپنے ردِ عمل کا اظہا ان الفاظ میں کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما کسی کے کہنے پر پورا نظام اُڑانا چاہتے تھے۔
Nawaz Sharif
جن لوگوں نے انہیں اکسایا وہ خاموشی سے ایک جانب ہوگئے۔ اس حولے سے سابق آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام بڑی شد و مد سے سامنے آ رہا ہے جو عمران خان سے دوبئی میں ملاقت کر کے نواز حکومت کے خاتمے کا پکا یقین دلا چکے تھے۔ دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پرنہایت ہی مثبت اور نپے تلے ردِعمل کا اطہار کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ نے قوم میں بے یقینی پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی فرما دی ہے۔انکوائری کمیشن نے ہمارے موقف کی توثیق کر دی ہے۔2013 کے انتخابات منصفانہ، شفاف اور آزادانہ تھے۔
توقع کیجاتی ہے کہ قوم کا وقت برباد کرنے والے سبق سیکھیں گے۔کمیشن کے فیصلے کے بعد پاکستان نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔مسائل سڑکوں اور دھرنوں سے نہیں ایوان میں حل ہونگے ۔اب الزامات اور بہتان طرازی کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوجانا چاہئے۔جو کچھ ہوا اس کو ہم فراموش کرتے ہیں۔آئیں ترقی و استحکام کا سفر شروع کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کا اس سے زیادہ مثبت بیان ہو ہی نہیں سکتا۔جس میں وزیر اعظم نے اس قدر گندی زبان اور مغلضات سننے کے باوجود اپنے مخالف کو ترقی کے سفر میں ہم قدم ہونے کی دعوت بھی دیدی،کہ سُتھری سیاست کا یہ ہی انداز انتہائی بہتر ہے۔ مگر عمران خان کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ اپنی ڈرٹی پولیٹکس سے باز نہیں آئیں گے۔
موجودہ حکومت کو جوڈیشل کمیشن نے الزامات کے ثبوت عمران خان کی طرف سے فراہم کرنے میں ناکامی پرنواز شریف اور ان کی حکومت کو کلین چٹ دیدی ہے۔ حالانکہ کمیشن بنا کر نواز شریف نے اپنی حیثیت کو داﺅ پر لگ دیا۔ مگر یہ عمر ان خان کی بد قسمتی ہی ہے کہ ا ن کا بیک ڈور سے وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔اور جس کپتان کی وہ انگلیوں کے اشاروں پر ناچ رہے تھے اُس کپتان کی انگلی تو 126 ، دنوں کے دھرنوں کی ناکامی نے ہی توڑ کر رکھ دی تھی۔ دوسرے معنوں میں دھرنوں کی ناکامی سے لندن سازش بری طرح سے ناکامی کا شکار ہوئی۔ماضی کے طاقت ور اس ملک کے اقتدار کی بساط لپیٹنے میں ماضی کی طرح کامیاب نہ ہوسکےجس کا عمراں خا کو ساری زندگی افسوس رہے گا۔
Judicial Commission
ورنہ اللہ جانے اس ملک میں کیسا فساد برپا ہوتا اور آج ہماری قوم نہ جانے کہاں کھڑی ہوتی لوگ ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن نے دھاندھلی ڈرامہ پنکچر کر کے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے خواب کو چکنا چور کر کے رکھ دیا۔ وہ نا تو منظم دھاندھلی ثابت کر سکے اور نہ ہی 35 پنکچر پر سانس لی نہ آر اوز کی دھاندھلی پر ثبوت لا سکے اور نہ ہی اضافی بیلٹ پیپر زپر کوئی ٹھوس شہادت سوائے الزامات کے پیش کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ ہر جانب سے اس بات کی تصدیق کیجا رہی ہے کہ جو ڈیشل کمیشن کی رپورٹ غیر مبہم اور کسی بھی قسم کی جانبداری سے بالکل پاک ہے۔ جوڈیش کمیشن کا یہ کہنا ہے کہ فارم15 کے نہ ہونے پر کسی خاص پارٹی کی جیت میں کوئی باہمی تعلق دیکھنے میں نہیںآیا۔اسی طرح تصدیق نہ ہونے والے ووٹ جعلی نہیں تو ان کو جائز بھی نہیں مانا جاسکتا ہے۔
عمران خان کی توقعات کے بر خلاف ایمپائر کی انگلی تو اٹھی مگر موصوف کے اپنے خلاف اٹھی ۔یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد نے بھی واضح الفاظ میں کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ دھرنے کی انکوائری کرائی جائے اور عمران خان اور ان کے حوریوں کو گرفتار کیا جائے۔جوڈیشل کمیشن کے انکشافات قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ایک اہم بات عمران خان کی جانب سے یہ ضرور سامنے آئی ہے کہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم تو کر لیا ہے مگر ابھی اس میں ابھی کیڑے نکالنا باقی ہے۔پوری پاکستانی قوم آج عمران خان سے مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ وعدے کے مطابق جو انہوں نے کمیشن کے قیام کے وقت کیا تھا قوم سے دست بستہ معافی مانگیں اور قوم کو پہنچائے گئے نقصانات کا ازالہ کریں۔
عمران خان نے اپنی سیاسی اور سماجی ساکھ کو خود ہی دھرنوں کے دوران جھوٹ بول بول کر پہنچایا ہے۔ اب قوم ان کی کس بات پر اعتبار کرے گی کہ ان کا سارا پروپیگنڈاجھوٹ پر مشتمل اور اخلاص سے عاری تھا۔ ان کی کنٹینر پر بکی جانے والی تمام مغلضات قوم کے ذہن نشین ہوچکی ہیں ۔عمران خان کے اندر قومی رہنما ہونے کی ایک صفت بھی نہیں ہے کیا ایسے لوگ اس قوم کا مقدر ہیں جو جھوٹ اور بد زبانی میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوں؟؟؟
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir23hurshid@gmail.com