مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تازہ لہر

Kashmir

Kashmir

تحریر: آصف خورشید رانا
علائوالدین کی حکومت کا چوتھا سال تھا کہ منگول فوج دہلی کے قریب آ پہنچی ،فوج کی آمد کا سن کر لوگوں کا پریشان ہونا فطری تھا ،علائو الدین اپنے کوتوال کے ہمراہ دہلی سے باہر سری کے مقام پر جائزہ لینے کے لیے آیا، اس موقع پر کوتوال نے مخاطب کرتے ہوئے کہا ”پچھلے زمانوں کے بادشاہ ایسی جنگ لڑنے سے گریز کرتے تھے جس میں یہ معلوم نہ ہو کہ فتح کس کی ہو گی بلکہ اگر پلہ باربر ہونے کا امکان ہو تو بھی جنگ سے گریز کرتے تھے۔

مشیر ہونے کی حیثیت سے میں آپ کو مشورہ پیش کرتا ہوں کہ اونٹ سوار فوج پیش قدمی کرے اور آپ یہیں قیام کریں اور کچھ وقت مذاکرات میں گزاریں سفیر کے آتے جاتے کافی وقت گزر جائے گا اور دشمن کی فوج تھک کر واپس چلی جائے گی اور کچھ فاصلے تک ہم اس کا تعاقب بھی جاری رکھیں گے تاکہ عوام میں فتح کی خبر سنا سکیں ۔علائو الدین ایک منجھا ہوا سپہ سالار تھا اس نے نہایت تحمل سے مشورہ سنا اور کہا،”تمھارا مشورہ خوب ہے لیکن اب میرا فیصلہ سنو ،ایک کہاوت ہے کہ اونٹ چرا کر اندھیروں میں چھپایا نہیں جا سکتا اسی طرح دہلی کی اتنی بڑی سلطنت اونٹ کی پیٹھ پیچھے کیسے چھپائی جا سکتی ہے جو سلطنت کو چھین لینے پر تلا ہو ا اسے دھوکہ دے کر جنگ سے نہیں بچ سکتے جس دشمن نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہو وہ جنگ کے بغیر کیسے واپس جا سکتا ہے وہ داستاں جو تم ہمیں سناتے ہو میدانوں میں اس کی کوئی قیمت نہیں،کہانیاں سنانا الگ بات ہے لیکن جب میدانوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہوں ، تلواریں چمک رہی ہوںتو فیصلہ کرنا الگ بات ہے۔

ہمارے حکمران بھی ایک عرصہ سے مذاکرت، بیک چینل ڈپلومیسی اور نت نئے آپشن کے اونٹ کے پیچھے مسئلہ کشمیر کو چھپانا چاہتے ہیں جبکہ بھارت اپنے بے رحم فوجیوں کے ذریعے نہتے کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ۔بھارت اپنی چانکیائی ڈپلومیسی کے ذریعے کسی حد تک دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو رہا تھا کہ آزادی کشمیر کی تحریک کی قیادت بارڈر پار سے کی جارہی ہے اور کشمیر یوں کی دلچسپی مسلسل کم ہو رہی ہے تاہم تحریک آزادی کی حالیہ لہر نے بھارت کے ان تمام دعووں کو بری طرح ناکام کر دیا اور دنیا میں پھر سے یہ تاثر ابھرنا شروع ہو گیا کہ کشمیر کا مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی کشمیری عوام اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

Kashmir Protest

Kashmir Protest

گزشتہ چند سالوں میں بھارت نے تحریک آزادی کے خاتمہ کے لیے مختلف قسم کے حربوں کا استعمال کیا۔نام نہاد انتخابات کے ذریعے ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام ، مختلف معاشی پیکج کے ذریعے عوام کو بھارت کا وفادار بنانا، مختلف کٹھ پتلی رہنمائوں کے ذریعے کشمیر ی عوام کے حق میں بیانات دلوانا، حریت رہنمائوں کو تقسیم کرنے کی سازش کرنا،پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر کرنا وغیرہ وغیرہ لیکن ان تمام آپشنز کو کشمیری عوام نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ پاکستان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار بھی کر دیا جس پر بھارت سیخ پا ہے ۔23مارچ پر دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے اپنے ایک تنظیمی اجلاس میں نہ صرف پاکستانی پرچم لہرایا بلکہ پاکستانی ملی ترانہ بھی پڑھا جس پر بھارت میڈیا نے واویلا شروع کر دیا کہ پاکستان کا پرچم کیوں لہرایا گیا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے اقوام متحدہ میں اس کے حل کے لیے قرار داد موجود ہے جس میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا کہا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی میڈیا کے دبائو میں آ کر آسیہ اندرابی کو گرفتار کر لیا گیا۔

ان پر مختلف قسم کے مقدمات درج کر دیئے گئے بھارتی میڈیااور حکمرانوں کا شاید یہ خیال تھا کہ کشمیری عوام اس طرح کے مقدمات کے بعدایسی حرکات سے باز رہیں گے لیکن وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ جو قوم گزشتہ 67سالوں سے ایک ہی مقصد کے لیے قربانی دیتی آئی ہے جس قوم کی ہزاروں خواتین اپنے سہاگ لٹا چکی ہیں مائوں نے اپنے لخت جگر قربان کر دیئے بیٹے یتیم ہو گئے ہزاروں نوجوان بدنام زمانہ انٹیروگیشن مراکز میں اپنے جسم کے کئی حصوں سے محروم کر دئے گئے جس قوم کی بیٹیاں اپنی عصمتیں لٹا کر بھی آزادی کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئیں جس قوم کی بہنیں اپنے بھائیوں کے لاشے دیکھ کر بھی بھارت کی غلامی پر رضا مند نہ ہوئیں جہاں آٹھ لاکھ آرمی ظلم و تشدد کے ہر حربے استعمال کرنے کے بعد بھی کشمیریوں کے عزم ناکام نہیں کر سکی وہاں چند مقدمات اس قوم کے عزم مصمم کو کس طرح تبدیل کر سکتے ہیں۔

Kashmir Protest Rally

Kashmir Protest Rally

چنانچہ کچھ دنوں بعد ہی کشمیریوں کے قائد علی گیلانی کی قیادت میں ایک بہت بری ریلی کا اہتما م ہوا بھارتی میڈیا کے مطابق ریلی میں 30سے40ہزار کے لوگ تھے اور کئی کلومیٹر طویل اس ریلی میں گھنٹوں جیوے جیوے پاکستان تیرا میرا پاکستان پاکستان زندہ باد کشمیر بنے گا پاکستان حافظ سعید کا کیا پیغام کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگتے رہے اور پاکستانی پرچم لہراتے رہے جس پر بھارتی میڈیا پھر سے سیخ پا ہوگا بھارتی فوج یہ تو ہمت نہ کرسکی کہ بپھرے ہوئے ان کشمیریوں پر کسی قسم کا حملہ کر سکے تاہم کشمیری حریت رہنمائوں پر پھر سے غداری کے مقدمات قائم کر کے انہیں نظر بند کر دیا گیا یا پھر گرفتار کر لیا گیا ان رہنمائوں میں ایک بوڑھا مرد جس کا عزم آج بھی اسی طرح جواں ہے جو تحریک آزادی کے شروع میں تھا انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی دوسری طرف نوجوان رہنماء مسرت عالم جو پہلے ہی چار سالوں بعد بھارتی جیل سے عدالت کے حکم پر رہا ہوئے تھے ان کو گرفتار کر لیا گیایہی نہیں بلکہ بعد میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے کالے قانون کے تحت مقدمہ قائم کر کے انہیں بھلوال جیل منتقل کر دیا کشمیری رہنمائوں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرانے کا واقعہ کوئی نیا نہیں یہ تو گزشتہ 68سال سے جاری ہے اور یہ ہماری جدوجہد آزادی کی علامت بن چکا ہے ادھر اکشمیری خواتین کی رہنماء آسیہ اندرابی نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی پرچم لہرا کر جرم نہیں کیا بلکہ وہ تو پاکستان کو ہی اپنااصل گھر سمجھتے ہیں اور اگر یہ جرم ہے تو کشمیری یہ جرم کرتے رہیں گے۔

کشمیری رہنمائوں کی جانب سے پاکستانی پرچم لہرانے اور اس کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے چیخ و پکار نے تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال دی ہے عالمی سطح پر ایک بار پھر سے مسئلہ کشمیر زیربحث آ گیا آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی ہے جبکہ بھارت ہمیشہ سے اس طرح کے اقدامات کو نہ صرف مسترد کرتا رہا ہے بلکہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر بھی پردہ ڈالتا رہا ہے۔

گزشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق ایک دو سو کے قریب کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ایک سو سے زائد نوجوان انٹیرو گیشن سنٹروں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنے اس کے علاوہ دس افراد کو شہید کر دیا گیامقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو بھی آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے اور جگہ جگہ موجود فوج اور پولیس کی چیک پوسٹوں کی وجہ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہیں لیکن ان سب کے باوجود کشمیری نہ جھکے ہیں نہ تھکے ہیں وہ اپنی جدو جہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ان حالات میں پاکستان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اور پاکستان کو ہی آزادی کا بیس کیمپ مانتے ہیں۔ اگرچہ ہر حکومت کے اپنے مفادات ہوتے ہیں تاہم بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمی کے حل تک کسی قسم کے مفادات کے پورا ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیے بھارت میں موجود ہائی کمشنر کا یہ بیان کشمیریوں کے لیے نہایت حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ کشمیر ہے باقی تمام مسائل اسی کے ساتھ منسلک ہیں۔ جنوبی ایشیا ء کا امن بھی اسی مسئلہ کے حل کے ساتھ مشروط ہے ۔کشمیریوں کی حالیہ تحریک آزادی میں جو تیزی آئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذاکرت کی میز کے پیچھے اس مسئلہ کو چھپایا نہیں جا سکتا بلکہ کشمیر کو آزاد کرنا ہی بھارت کے مفاد میں ہے۔

 Asif Khurshid

Asif Khurshid

تحریر: آصف خورشید رانا