تحریر : علی عمران شاہین مقبوضہ کشمیر ان دنوں نئے بحرانوں سے گزر رہا ہے۔قصبہ ترال میں دو نوجوانوں کی شہادت کے بعدجب بدھ کے روزقائد کشمیر جناب سید علی گیلانی نے سرینگر سے ”ترال چلو” مارچ کی کال دی تو وادی سے ایک جم غفیر ان کے ہمراہ شہدا کے لواحقین سے اظہار تعزیت کے لئے چل پڑا۔اس مارچ میں کئی کشمیری نوجوانوں نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے تو کئی ایک نے پاکستانی پرچم سے مشابہ لباس زیب تن کر رکھے تھے، جس سے بھارت میں ایک نئی ہلچل پیدا ہو گئی تو اہل کشمیر کی پاکستا ن سے لازوال محبت کا بھی ایک بار پھر کھل کر اظہار ہوا۔
دوسری طرف مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر اپنے ملک کا حصہ بنانے اور تحریک آزادی کو ختم کرنے کے مختلف سیاسی حربوں پرعملدرآمد شروع کر رکھا ہے۔ انہی حربوں میں سے ایک اور حربہ اب عملی شکل میںسامنے آیا ہے جس کے تحت نئی دہلی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ان ہندو پنڈتوں کو دوبارہ لا کر آباد کرنے کا فیصلہ سنایا ہے جو 1989ء میں جہادی تحریک کے عروج کے ساتھ ہی مقبوضہ وادی چھوڑ کر اندرون بھارت جا بسے تھے۔ انہیں اس زمانے میں بھرپور مراعات اور تعاون فراہم کیا گیا تھا تو اب انہیں ایک بار پھر واپس لا کر ایک نئے انداز سے بسانے کا فیصلہ سنایا گیا ہے کہ ہندو پنڈتوں کیلئے الگ محفوظ کالونیاں بنیں گی۔یعنی یہ پنڈت اپنے ان گھروں میں واپس نہیں آئیں گے جو 25سال بعد بھی ویران ہیں بلکہ ان کے الگ شہر بسیں گے۔کشمیری قوم کس قدر پر امن کہ پنڈتوں کے خالی گھروں پر 25سال بیتنے کے بعد مقامی لوگوں نے قبضہ جمانے کا سوچا بھی نہیں۔
پنڈت بسانے کی اس نئی منصوبہ بندی کے خلاف مقبوضہ وادی میں زبردست مظاہرے اور ہڑتالیں جاری ہیں۔حریت قائدین کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ حریت قیادت اور کشمیری لوگ یہ قطعاً نہیں کہتے کہ ہندو پنڈت واپس نہ آئیں۔ وہ تو انہیں اپنی سوسائٹی کا حصہ سمجھتے ہی نہیں بلکہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن بھارت ہندو پنڈتوں کو واپس لانے کے بہانے ایک نئی طرز کی سیاست کر کے انہیں مقبوضہ فلسطین کی طرز پر یہودیوں کی جابرانہ بستیوں کی شکل میں بسانا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اس منصوبے کا نیا اعلان سامنے آتے ہی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک نے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کی تھی۔یاسین ملک نے کہا کہ الیکشن سے پہلے ہی بی جے پی اورآر ایس ایس کی وساطت سے کشمیر ی پنڈتوں کیلئے وادی میں ایک سیٹیلائٹ کالونی بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں اسپتال ،کالج ،سکول اور دیگر سہولیات ہوں۔انہوں نے کہا کہ اب وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مقصد کیلئے فوری طور اراضی کی نشاندہی کرائی جائے گی۔
Kashmiri Protest
انہوں نے کہا کہ پنڈتوں کیلئے الگ شہر بنانے جانے کا جو منصوبہ بنایا جارہا ہے ،اصل میںیہ وہی منصوبہ ہے جو اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں ا پنایاوراب آر ایس ایس اسی منصوبے کو یہاں لاگو کررہی ہے اور وہ آر ایس ایس کے منصوبے کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔اس کے خلاف منظم اور مربرط مہم چلائی جائے گی ۔مفتی محمد سعید اور انکی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جموں کشمیر کے لوگ ان کو یہاںآر ایس ایس منصوبوں کو یہاں نافذ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ اگر بی جے پی اورمفتی سرکار واقعی کشمیری پنڈتوں کو یہاں بسانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو وہ ان کے مکانوں کی تعمیرنو کرائے ،نہ کہ انہیں الگ بسانے کی بات کرے۔پنڈت برادری کیلئے الگ ہوم لینڈ کا قیام دراصل کشمیر میں مذاہب کے درمیان منافرت پھیلانے اور کشمیر کو ایک اور فلسطین میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔
یاسین ملک کے ساتھ ساری حریت تنظیموں اور ان کے دھڑوں،حریت کانفرنس (گ) ،حریت کانفرنس (ع) ، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی اور دختران ملت نے گزشتہ ہفتے کی ہڑتال کی اپیل کی تھی جس پر ہر طرف ہو کا عالم دیکھنے کو ملا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ، جماعت اسلامی ،مسلم کانفرنس ، دختران ملّت، اسلامک پولیٹکل پارٹی ، محاذآزادی، مسلم دینی محاذاورانجمن حمایت الاسلام نے کہا کہ اِس منصوبے کے خلاف ہر سطح پرمزاحمت کی جائے گی۔ جب سارے حریت رہنمائوں اور عوام نے متفقہ طور پر اس منصوبے کے خلاف میدان سجایا تو کٹھ پتلی ریاستی وزیراعلیٰ مفتی محمد سعیدنے کشمیری پنڈتوں کی اسرائیلی طرز کی کالونیوں میں واپسی کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہو ئے کہا کہ وہ (کشمیری پنڈت)خود بھی اس طرح نہیں رہنا چاہتے بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ پنڈتوں کی وادی واپسی سے جموں کشمیر کا مخلوط تمدن بحال ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ی معاشرے کی کثیر المذہبی شناخت کو قائم رکھنے اور ریاست میں سیاسی غیریقینی صورتحا کو ختم کرنے کے لئے کشمیر ی پنڈتوں کی وادی عزت وآبرو کے ساتھ واپسی یقینی بنانی ہوگی۔
Rajnath Singh
کشمیری رہنمائوں کے غم و غصے کی وجہ بھارتی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پنڈتوں کی دوبارہ آبادکاری کے سلسلے میں مرتب کئے گئے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ”میں تفصیلات میں نہیںجاناچاہتاہوں۔کشمیری پنڈتوں کی دوبارہ آبادکاری کے معاملے پر مرکزی سرکار نے جو بھی فیصلہ لیا ہے ،وہ برقرار رہے گا۔”
کشمیری قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت کیسے ان کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے عرصہ دراز سے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے ہی امرناتھ یاترا کو بے تحاشا بڑھاوا دیا گیا۔چندسال پہلے بہت کم لوگ اس سے واقف تھے اور یہ چند روز تک محدود ہوتی تھی ۔اب اسے دوماہ پر پھیلا کر سارے عالم سے ہندئووں کو یہاں لایا جارہا ہے۔اس کے لئے کشمیریوں کی زمینوں پر قبضے کی سازشیں ہوئیں۔ کئی دیگر علاقوں میں ہندو یاترائیں شروع کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ دفعہ 370کو ختم کرنے کی کوشش ہوئی،لیکن بھارت کو ہمیشہ اس سب میں منہ کی کھانا پڑی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ بھارت کے ان اقدامات پر پاکستانی حکومت، سیاسی حلقے اور میڈیا پہلے کی طرح اب بھی خاموش ہیں۔ یمن کے معاملے پر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے والے کشمیر اور بھارت کے معاملے پر اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔
بھارت کشمیر کے راستے میں ہمارے ملک کے دریائوں اور وسائل پر قابض اور ہماری گردن دبانے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس پر کسی کو کوئی تکلیف نہیں… آخر کیوں؟ پاکستان مقبوضہ کشمیر کا اصل فریق اور اس کا حق دار ہے۔ اسے بھارت کی ایسی حرکت پر سامنے آنا اور اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھنا چاہئے۔ بھارت کی اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے بھی ہمیں عرب ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کا دل و جان سے ساتھ دینا چاہئے تاکہ ہم بھارت کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کیلئے بھی ان ممالک کی بھرپور مدد لے سکیں۔ ان ملکوں میں بھارتی اثرورسوخ کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں بھی اپنے ازلی و ابدی دشمن بھارت کا ناطقہ بند کر کے کشمیر کو بھی آزاد کروائیں تاکہ ہمارے دریا بھی آزاد ہوں ،پاکستان کا نقشہ بھی مکمل ہو تو یہ راستہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی مکمل حمایت اور مدد و تعاون ہمیں کرنا ہو گا۔بھارت کے پیار محبت کی باتیں اپنی جگہ لیکن بھارت کی کشمیر کش پالیسیاں بھی ہمیں سامنے رکھنا اور ان پرمزاحمت دکھانا ہو گی۔