تحریر: سالار سلیمان پشاور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ (کے پی) کا صوبائی دارلحکومت ہے ۔کے پی کے بالکل ساتھ ہی ہمسائیہ ملک افغانستان واقع ہے۔ماضی میں ہونے والی جنگوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں افغانستان سے تقریباً تیس لاکھ مہاجرین نے پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی۔ پاکستان نے اُس وقت رائج قوانین اور باہمی بھائی چارے کی وجہ سے افغان مہاجرین کو تقریبا ً تین دہائیوں تک پناہ دیے رکھی۔ یہ افغان مہاجرین پاکستان کے طول و عرض میں رچ بس گئے، انہوں نے یہاں پر کاروبار کئے، گھر تعمیر کئے اور جائیدادیں خریدی ۔افغان مہاجرین کی بڑی تعداد شہر پشاور اور اس سے منسلک شہروں میں آباد ہوئی، کچھ نے پنجاب کا رُخ کیا اور کچھ نے سندھ کا رُخ کیا۔اس صورتحال میں افغان مہاجرین کا ترجیحی شہر پشاور ہی رہا ۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں سے ایک وجہ وہاں پر رائج زبان سے خاصی سناشائی تھی۔افغانیوں کیلئے پشتو سیکھنا نسبتاً آسان تھا۔ ان تین دہائیوں میں ان افغان مہاجرین کی نسل میں بھی اضافہ ہوااور اُن کی نسل نے بھی اسی پاکستان میں پرورش پائی، انہوں نے بھی اسی پاکستان میں اپنے روزگار کا ذریعہ تلاش کیا۔ پاکستان نے بھی اپنی بانہیں پھیلا کر اُن کا استقبال کیا اور اپنے دامن میں اُ ن دہائیوں تک پناہ دیے رکھی۔
تاہم’ اس سا ل کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو اُن کے اپنے اصل ملک میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں اُن کی باعزت واپسی کا مرحلہ وار آغاز ہو چکا ہے ۔ تاہم فی التاریخ کچھ چیزیں ابھی بھی حل طلب ہیں اور ان میں سے ایک اہم موضوع اُن کی ملکیتی جائیدادیں ہیں۔ بیشتر افغان مہاجرین کی جائیدادیں کے پی اور بالخصوص پشاور میں ہیںاور ان کی جانب سے اس شہر کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی تھی ۔ اس صورتحال نے رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کاروں کو بھی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ اس حوالے سے واضح فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس صورتحا ل میں سوال اب یہ پید ا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا پشاور کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر کیا اثر ہوگا جبکہ شہر میں سے اُس کا اہم سرمایہ کارتو کوچ کر رہا ہے؟ اُس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔
Afghan Refugees
حکومت پاکستان افغان مہاجرین کی بر وقت اور با عزت واپسی کیلئے اپنی تمام کوششیں کر رہی ہے ۔تاہم یہ سارا عمل لکھنے کی حد تک آسان نہیں ہے۔ اس پیچیدہ عمل کو حکمت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہاں پر ایک نقطہ یہ بھی اہم ہے کہ بہت سے مہاجرین کو حکومت پاکستان نے مخصوص شناختی کارڈ جاری کیا تھا’ یہ آئی ڈی کارڈ حکومت کے ادارے نادرا نے جاری کئے تھے ۔ شناختی کارڈ کے اجراء کے بعد اُن کیلئے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ قانونی طور پر پاکستان میں اپنے امور سر انجام دے سکتے تھے۔ وہ کوئی بھی کاروبار کر سکتے تھے اور وہ پاکستان میں جائیداد کی خرید و فروخت بھی کر سکتے تھے ۔ اب جب کہ وقت آ چکا ہے کہ افغان آباد کار اپنے وطن میں واپس کوچ کر جائیں تو ظاہر ہے اُنہوں نے یہاں سے اپنا سرمایہ سمیٹنا ہے ‘ اپنی پراپرٹی کو فروخت کرنا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق ‘ افغان مہاجرین کو جاری کئے گئے شناختی کارڈز کچھ نا گزیر وجوہات کی بنیاد پر بلاک کئے جا رہے ہیں۔ اب یہاں پر یہ مسئلہ بھی ہے کہ فعال شناختی کارڈ کی عدم موجودگی میں اُن کیلئے اپنی جائیداد کو فروخت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چونکہ فروخت کنندہ کی جانب سے شرائط پوری نہیں ہو سکیں گی تو خریدار لازماً ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے گاکہ ہر کوئی محفوظ سرمایہ کاری کا متلاشی ہوتا ہے ‘ نتیجتاً اِن کی پراپرٹی کیلئے مارکیٹ میں خریدار نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں مارکیٹ میں جمود کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ فی التحریر رپورٹس کے مطابق پشاور کی پراپرٹی مارکیٹ کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔
صوبائی حکومت خیبر پختونخواہ کی جانب سے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ صوبے میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کی پر امن اور باعزت اپنے وطن واپسی کی راہ ہموار رہے۔ اِن میں سے ایک قدم یہ ہے کہ اُن کی رہائش کے حوالے سے آخری تاریخ میں توسیع کی جاتی رہی ہے ۔مزید براں’ افغان مہاجرین کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ اپنے زیر ملکیت قومی شناختی کارڈ کو متعلقہ اداروں کو ظاہر کریں اور اس حوالے سے بھی تاریخ میں توسیع کی جا رہی ہے ۔ اِ س طرح سے اُمید کی ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی ہے کہ وہ فعال شناختی کارڈ کی موجودگی میںاپنی پراپرٹی کو مناسب داموں بیچ سکتے ہیں۔ دوسری جانب وہ افغان مہاجرین کہ جنہوں نے پاکستان میں اپنے نام سے سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے نام سے سرمایہ کاری کی ہے ، اُن کو اس قسم کے مسائل درپیش نہیں ہیں۔
Real Estate
پاکستان کے سب سے بڑے رئیل اسٹیٹ پورٹل زمین ڈاٹ کام نے پشاور کی پراپرٹی مارکیٹ کے حوالے سے ایک سروے کا انعقاد کیا تھا۔ سروے کے مطابق وہ پراپرٹی جو کہ افغان مہاجرین کے زیر ملکیت ہے’اُس میں 30 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں ایسے خریدار موجود ہیں جو اس پراپرٹی کو مارکیٹ ریٹ سے کم سستے داموں خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب خریداروں میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایسی پراپرٹی کو خریدنے اجتناب برتناچاہئے کیونکہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ اِس میں کوئی قانونی سقم ہی موجود نہ ہو’جس کی وجہ سے اُن کی سرمایہ کاری داؤ پر آ جائے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ عین ممکن ہے کہ فراڈ عناصر موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کے ساتھ جعل سازی کریں اور نتیجتاً ایک ہی پراپرٹی کے متعدد مالکان سامنے آ جائیں ، ایسی صورتحال میں بھی سرمایہ کاری ڈوب جاتی ہے ۔ پشاور کی پراپرٹی مارکیٹ کے حوالے سے ایک رائے اور بھی سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب کچھ منصوبوں کا آغاز کیا جا رہا ہے ‘جس کی وجہ سے سرمایہ کار دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کی آسانی کیلئے کئے جانے مختلف اقدامات میں سے سب سے اہم قدم یہ ہے کہ وہ مہاجرین جن کے پاس مخصوص شناختی کارڈ موجود ہیں’ وہ اس کو حکام کو ظاہر کردیں۔ اس سے یہ بات کافی حد تک ممکن ہو جائے گی کہ وہ قانونی طور پر اپنی زیر ملکیتی پراپرٹی فروخت کر سکتے ہیں۔ ایسے مہاجرین جن کے سرے سے ہی شناختی کارڈ نہیں ہیں’اُ ن کو صوبائی حکومت کی اگلی پالیسی کا انتظار کرنا ہوگا، تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ایسا طریقہ کار متعارف کروایا جائے گا جس کے تحت وہ اپنی جائیداد فروخت کر سکیں گے۔اس بات کی امید کی جارہی ہے کہ اِن تمام تر مسائل کو حکمت اور خوش اسلوبی سے نمٹا لیا جائے گا۔