دو ضدی ایک شریف

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

دو ضدی حضرات جو کہ ایک آزادی مارچ دھرنا دئے ہوئے ہیں دوسرے انقلاب مارچ بھی اسی ڈگر پر دھرنا دئے ہوئے ہیں، اور ایک شریف جس نے یقینا شرافت کا مظاہرہ کیا جس کے لئے میں یہ ضرور کہوں گا کہ دو ضدی ایک شریف،،،نواز شریف نواز شریف ۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کرنے والے حضرات جو کہ اب دھرنوں کی شکل میں پاکستان کے دارالحکومت شاہرہ دستور پر دھرنے دئے ہوئے ہیں جہاں پاکستان کی پارلیمنٹ سپریم کورٹ اور ملک کیااہم اداروں کی عمارتیں موجود ہیں۔

گزشتہ رو زسے احتجاج شروع کئے جانے اور ابتک کی صورتحال پر ایک مکمل طور پر احتجاجی دھرنوں والوں اورحکومت کے کردار پر موازنہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ تنقید برائے تنقید مخالفت برائے مخالفت کے قائل نہیں ہاں سیاستدانوں کے خودغرضانہ مقاصد کی تکمیل میں معاون نہیں بلکہ مکروہ چہرے بے نقاب کریں گے۔آئین اور قانون کی پاسداری پارلیمنٹ کے ساتھ ہم سب کی ذمہ داری میں بھی شامل ہیں جس کا عملی مظاہرہ کس طرح کیا جاتا ہے آئین میں جو قوانین دئے گئے ہیں۔

اس کا احترام ہم سب پر لازم وملزوم ہیں قانون میں جو فرائض دیئے گئے اس پر عمل کرناہماری ذمہ داری ہے،جب ملک کی ایک پارلیمنٹ جو پوری قوم کی نمائندگی کرتی ہے اس نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ غیر قانونی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کی جائے گی تو ان حضرات جو اسلام آباد دارالحکومت کے شاہرہ دستور پر احتجاجی دھرنا دئے ہوئے ہیں انہیں اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اپنے مطالبے سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔

کیوں کہ ان احتجاجی دھرنوں والوں کا وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگنے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جسے ملک کی سپریم پارلیمنٹ نے مسترد کر دیا اور وزیر اعظم پاکستان نے بھی انکے غیر آئینی غیر قانونی مطالبے کو رد کردیاجبکہ حکومت کا آئینی موقف ہے کہ ان دونوں ضدی حضرات کے غیر آئینی غیر قانونی مطالبہ پورا نہیں کیا جاسکتا اس طرح انہیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنی ضد ختم کرنی چاہیئے۔ دو ضدی اور ایک شریف کا حوالہ میں نے اس لئے دیا کہ دو ضدی جن میںایک آزادی مارچ دھرنے والے وزیر اعظم کے استعفیٰ پر بضد ہیں اور دوسرے انقلاب مارچ دھرنے والے حضرات وزیر اعظم کے استعفیٰ پر بضد ہیں جبکہ پارلیمنٹ اور حکومت کا موقف واضح ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے ہر لحاظ سے ہر سطح پر لچک دکھائی اور صبروتحمل کا عملی مظاہرہ کیا جسےِ میں ہی نہیں پوری قوم سمجھ رہی ہے اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا (اخبارات) موجود ہیں، جھوٹ اور سچ واضح ہو جائے گا۔

جہاں تک بات وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی ملاقات میں ملک کی صورتحال پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پارلیمنٹ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اور کہا کہ پارلیمنٹ میں منظور کی جانے ولی قرارداد کے ایک ایک حرف کی پاسداری کریں گے میں ایک نہیں دس حکومتیںبھی قربان کرسکتا ہوں منصف اور حکومتیں آنی جانی ہیں نظریے اور اصولوں پر سمجھو تہ نہیں کروں گا۔

Democracy

Democracy

پارلیمنٹ کا استحکام لازم ہے اور آئین اور جمہوریت کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا اس سلسلے میں حکومت نے سہولت کار کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جو کہ آئین اور قانون کے دائرے میں کیا گیا جس کا اظہار وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کے سامنے کیا جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما سید خورشید شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف ڈٹ جائیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانے کے لئے میدان عمل میں رہیں گے اور آئین کے ہر صفحے کی حفاظت کریں گے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ چودھری نشار احمد خان نے ایک کانفرنس میں کہا کہ ا ئی ایس پی آر کا بیان میری اور حکومت کی مشاورت سے جاری ہوا اور فوج کو سہولت کا ر کا دیا گیا اختیار آئینی ہے۔

وزیر اطلاعات پرویز رشید وزیر خزانہ اسحاق ڈار اوراحسن اقبال نے کہا کہ پاک فوج قومی ادارہ ہے اور وزیر اعظم نے سہولت کار کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اجازت دی ہے یہ آئین و قانون کے دائرے میں کہی گئی۔ ان احتجاجی دھرنے والے حضرات جنہیں میں حقیقت کے طور پر ضدی لفظ ان کے لئے استعمال کررہا ہوں میں ہی نہیں بلکہ دنیا ان کی ضدی پن کی تائید کرے گی اور یہ حقیقت ہے کہ موجودہ صورتحال کے دوران جسے بحران کہا گیا ہے اور حکومت اور خاص طور پر پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے صبرو تحمل کا عملی مظاہرہ کیا اور حکومتی جانب سے مذاکرات میں بھرپور کوشش کی گئی کہ معاملات سے بحران کا حل نکل آئے اور وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے پارلیمنٹ میں کہا کہ ان احتجاجی مارچ اور دھرنوں پر بھی بحث ہونی چاہئیے یقینا ہونی چاہیے۔

میں نے گزشتہ روز٢٨ اگست کو ایک تحریر جیو اردو میں جس کا عنوان دھرنے ختم ہوں یا رہیں فیصلے حکومت کو کرنے پر شائع ہوئی جس میں میںنے پرُ امن طریقے اور ایک مستند تجویز دی تھی موجودہ بحران کے حل کے لئے جو کہ شاید کسی کے نظر سے نہیں گزری۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت اپنا وقت ضائع کئے بغیر فوری طور پر بحران کے خاتمے کیلئے جو تجویز دی ہے اس کی روشنی میں کام انجام دے یہ بحران حل ہوجائے گا۔

مختصر تجویز کا حوالہ کچھ اس طرح ہے کہ یہ احتجاجی دھرنوں والے بضد ہیں لہذا آئین وقانون کے تحت انکی مکمل نگرانی رکھی جائے اور حکومت کی جانب سے تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں اور احتجاجی دھرنوں والوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے دھرنوں کو مکمل پر امن رکھیں۔ دیکھا جائے تو حکومت نے ان کے مختلف چھ مطالبے میں سے پانچ مان لئے جبکہ دو مطالبے میں سے ایک مطالبہ مان لیا جو سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کا جس میں وزیر اعظم وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت اکیس افراد جن میںوزرا شامل ہیں جن پر مقدمہ بھی درج ہو چکا لیکن ایک مطالبہ جو کہ ان کا غیر آئینی وغیر قانونی وزیر اعظم کا استعفیٰ ہے وہ حکومت نے مسترد کردیا پھر بھی یہ دھرنے والے بضد ہیں تو میں کہوں گا دو ضدی ایک شریف، وزیر اعظم میاں محمدُ نواز شریف نواز شریف۔۔۔

Aslam Anjum Qureshi

Aslam Anjum Qureshi

تحریر :اسلم انجم قریشی