تحریر : انجیئر افتخار چودھری ایک معصوم سا لڑکا عمر تقریبا بارہ سال، ایک تنگ سی گلی کا موڑ، کھمبا ہے ساتھ میں رحموں نائی کا گھر دائیں ہاتھ یونے کی رہائش آگے دھوبیوں کی دکان سامنے حکیم چٹنی کا مطب یہ سارا منظر کوئی پچاس سال پہلے کا ہے کچی گلیاں اور پکے لوگ۔ہم چاہ صرافاں کے پاس کے محلے باغبانپورے کی گلی جو اب گلی چودھری برخودار والی کہلاتی ہے(میرے والد صاحب) رہائیشی تھے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی گجر قوم کی گوت چوہان جو اپنے آپ کو دلیر اور بہادر گردانتے ہیں اسی گوترا سے ہمارا تعلق تھا چوہان میٹل ورکس ایک چھوٹی سی برتن بنانے کی فیکٹری تھی۔بارہ سالہ لڑکا کچھ بننا چاہتا تھا میں نے ایک شام دیکھا کہ ایک خوبصورت سی فوکسی جس کا رنگ ہرا تھا طوطا گرین کہہ سکتے ہیں گاڑی اس کھمبے سے دائیں ہاتھ مڑ نا چاہتی تھی آگے اور پیچھے ہو رہی تھی یونس باڈی بلڈر کے گھر کے پاس سے اسے چاچے سعید حوالدار کے گھر کی جانب جانا ہے۔
ایک سرخ و سفید شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے میں نے ایک خواب دیکھاکہ کیا کبھی یہ گاڑی میری بھی ہو سکتی ہے؟بعد میں مجھے پتہ چلا گاڑی کے مالک کا نام عنائت ہے شہزادہ عرفی نام ہے۔مجھے جاننے میں دیر نہ لگی جب اس شہزادے کے بیٹے سے میری دوستی ہو گئی ہم تین دوست تھے ارشد بھٹی گلزار اور میں۔فاروق سے اپنا الگ تعلق اور دوستی تھی جو چاچے عنائت ارائیں کا بیٹا تھا ارائیوں کے بارے میں شہر میں مشہور تھا کہ کم پوے تے چھائیں مائیں لیکن فاروق کی دلیری نے اسے جھوٹ ثابت کیا اس کا ذکر پھر کبھی۔چاچے عنائت شہزادے کا گاڑیوں کا شو روم تھا ان دنوں جب شہر میں گاڑیاں کم اور کھوتا گاڑیاں زیادہ ہوا کرتی تھیں ایک پادری کی فوکسی تھی اور دوسری چاچے عنائت کی ان کا شو روم سیالکوٹ روڈ پر رفیق میموریل ہسپتال کے پاس تھا شہر بھر میں ایک آدھ ہی شو روم تھا۔
خوش لباسی ان پر ختم تھی بلکہ ان کے سارے بیٹے ہی خوبصورت اور خوش لباس تھے بھائی جان اعظم جو اب بھی اس شہر کی رونق ہیں وہ بھی کمال کے بھائی ہیں معظم جو اب اس دنیا میں نہیں خوش خصلت خوبصورت اور با کمال جینے جوگے تھے۔میں ہی وہ بارہ سالہ لڑکا تھا جو خواب بنتا رہا کہ کاش میں بھی ایک فوکسی کا مالک بن جائوں اللہ نے بعد میں ١٩٧٩ میں مرسیڈیز بھی دی جو شہر میں اقبال گجر صاحب کے بعد ہمارے نصیب میں آئی مگر میرا خواب وہی گاڑی تھی۔جو بچپن میں میرے حواس پر سوار رہی ایک روز میرے ہاتھ میں ساماکو کمپنی کا پروانہ آیا مجھے یہاں ایک اچھی نوکری ملی تھی پیچھے پارکنگ کی جانب گیا تو ایک دم چونکا اور دیکھا کہ اسی رنگ کی فوکسی کھڑی ہے یہ اوڈی واکس ویگن اور پورش کار کی ایجینسی تھی جس میں ایک سروس ایڈوائزر کی پوزیشن میرے حصے میں آئی تھی میں دیر تک اس گاڑی کو دیکھتا رہا اسلم اور محرم میری طرف دیکھ رہے تھے میں ساکت تھا اسلم مرحوم نے مجھے کہا کہ چودھری صاحب کیا دیکھ رہے ہیں میں نے جواب دیا یار کچھ نہیں در اصل میں کھمبا، یونس کا گھر، اور چاچے عنائت کو ڈھونڈ رہا تھا اللہ نے کئی گاڑیاں دیں اسی کمپنی میں ٢٠٠٢ کی ایک دوپہر کو میاں نواز شریف کا ساتھ دینے پر سعودی اداروں نے مجھے اٹھایا جب میں جیپ پر سوار ہو رہا تھا تو میرے خواب مجھ سے چھن رہے تھے آخری بار اسلم کو دیکھا اور اس جانب نظر پڑی میری سرخ رنگ کی اوڈی شارع علی المرتضی پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی اور میرا خواب طوطا گرین فوکسی پارکنگ میں کھڑی دیکھتی رہ گئی اس نے کہا ہو گا کہ دنیاوی چیزیں کسی کی نہیں ہوتیں جی ہاں بعد میں VW BEATLE ایک نئے روپ میں آئی اسے ایک ایڈوانس ٹیکنالوجی میں ڈالا گیا تھا لیکن وہ بغیر ریڈیٹر کے نہیں تھی۔اور اس کا مالک چاچے عنائت جیسا شہزادہ بھی نہیں تھا۔
گلزار ان کا بیٹا ہے ایک مدت بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی اس وقت وہ جہلم میں جیل سپرنٹینڈنٹ تھا یہ جس محفل میں ہو مرکزہ ہی ہوتے ہیں اعظم بھائی ہو معظم مرحوم گلزار آصف اور بابر ان سے بڑے کا نام یاد نہیں آ رہا سارے کے سارے خوشیوں سے منور رہیں۔ ایک بار چاچا جی بس لے کر حج پر بھی گئے خشکی کے راستے حج پر جانا بھی ایک انتہائی مقدس سفر تھا اللہ نے انہیں یہ سعادت بھی بخشی۔یہ لوگ جلد ہی اس محلے سے سیٹلائیٹ ٹائون شفٹ ہو گئے گلزار سے دوستی کے ایام کوئی چھ سات سال ہی کے تھے ہم تینوں کا اکٹھے ہونا شرارتوں کی معراج ہوا کرتا تھا ۔دوستی کے اس سفر میں اکٹھے فلمیں دیکھنا پتنگیں اڑانا اور نوجوان امنگوں سے جڑی یادوں کاایک ڈھیر ہے جو مرحوم عنائت چاچا جی کے اس کالم میں پرونا زیادتی ہو گی۔پچھلے مارچ میں انہیں اس دنیا سے گئے پندرہ برس ہو گئے گلزار کی پوسٹ سے پتہ چلا کہ سورج لوگ غروب بھی ہو جائیں تو اچھی اولادیں اندھیروں میں تلاشتی ہیں اور اپنے بزرگوں کی یادیںسینے سے لگائے رکھتی ہیں۔ میرے قبلہ والد صاحب کو اس جہاں سے گئے ستائیس برس ہو گئے ہیں ہم ہر اس راستے پر جہاں کہیں دلیری بہادری کی ضرورت پڑتی ہے انہیں یاد کرتے ہیں ایک باپ دنیا کا سب سے بڑا ہیرو ہوتا ہے کس کی نظر میں؟اس کی اولاد کی نظر میں دنیا کا سب سے بڑا دلیر اور بہادر آئیڈیل یقینا باپ ہی ہوتا ہے۔
چاچاے عنائت کی صورت میںقہقہوں اور خوشگپیوں کا طوفان اس دنیا میں آیا اور چلا گیا ان کی دوستیوں تعقات شہر کے بڑوں سے رہے غلام دستگیر خان کاظم علی شاہ اور اس وقت کے تمام بڑوں سے۔قبلہ والد صاحب مرحوم جب بی ڈی ممبر بنے تو مجھے اچھی طرح یاد ہے مٹھائی لائے اور کہا ایسی ویسی مٹھائی نہیں جالندھریوں کی ہے پتہ نہیں وہ لوگ جو آسماں لوگ تھے اتنی جلدی زیر زمین کیوں چلے گئے دوستوں کے والدین اپنے ہی ہوتے ہیں گلزار نے کہا کہ وہ تحریر تو بھیجو جو والد صاحب کے لئے لکھی تھی میں جواب دیا یار وہ تو کمنٹ تھا کالم لکھوں گا۔ ١٩٧١ کی جنگ میں ہم تینوں رضا کار بھی بنے گلو بھٹی اور افتخار کی ٹرائیکا کی خوبصورت یادیں سچ پوچھیں دھندلاتی ہوئی آنکھوں کا سرمہ ہیں۔ان سرمے والی یادوں کا ایک ہار پرویا ہے۔ وہ بچپن وہ کچی گلیاں اور وہ پکے لوگ آج نہ تو چاچا عنائت چونگی والا چا چا شریف اور میرے والد صاحب موجود ہیں اور نہ ہی مرحوم چاچا عنائت اک خوب سی اس دھندلاتی زندگی کے روشن پہلو یہی ہیں کہ نماز کے بعد ان کے لئے ہاتھ اٹھا دئے جائیں شائد ایسا ہی ہو کہ جب ہم اس جہاں میں نہ ہوں تو بچوں کے دوست ہمارے لئے دعائیں کریں۔اللہ تعالی چاچا جی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے اور ان کی اولاد کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین