تحریر : سجاد گل گلشن اقبال پارک میں دھماکہ، 72 ہلاکتیں اور 300 سے زیادہ افراد زخمی ،پھر اک سانحہ، پھر اک حادثہ،اس عمل ِبد کو کس کھاتے میں ڈالا جائے، اسے اپنی بدقسمتی و بد نصیبی کا نام دیا جائے، یا اپنی غفلت اور سستی کی سزا کہا جائے، اسے اپنے اعمال اور کئے کا نتیجہ کہہ دیا جائے یا پھر وطنِ عزیز کے ازلی دشمنوں کی ناپاک سازشوں کی فہرست شامل کیا جائے، میرے خیال میں ہر حادثہ ہماری بدقسمتی بھی ہے اور بد نصیبی بھی، ہماری غفلت بھی ہے اور سستی بھی، یہ عمل بد ہمارے اعمال کا نتیجہ بھی ہے اور یہ تخریب کاری کی آگ کے شعلے ہمارے ازلی دشمن کی ناپاک پلید اور بزدلانہ سازش بھی،ہر سانحے اور حادثے کے بعد بریکنگ نیوز کا شور ہوتا ہے۔
اخبارات میں سرخیوں کا سلسلہ چلتا ہے،ٹی وی پر بیٹھ کر اینکر اور تجزیہ نگار تجزیئے کرتے ہیں، اخباروں میں رنگ برنگی ناموں سے کالم اور مراسلے شائع ہوتے ہیں۔ابھی بریکنگ نیوز کا شور کانوں سے ختم نہیں ہوتا،اخباروں کی سرخیاں آنکھوں میں رقص کر ہی رہی ہوتی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے تجزیئے چل ہی رہے ہوتے ہیں ،کالم نگاروں کے قلم کی سیائی خشک نہیں ہوئی ہوتی اور ایک اور سانحہ اور حادثہ ہو جاتا ہے،اور پھر وہی سلسلہ ،پھر وہی شور غل،پھر وہی طوفان ِبدتمیزی ۔پچھلے دنوں فیس بک پر ایک فلپائن کے فرینڈ سے گپ شپ ہوئی اس نے نام پوچھا ،پھر نیشنیلٹی پوچھی میں نے کہا پاکستانی،میں نے پوچھا آپ پاکستان کو جانتے ہیں اس نے کہا جی ہاں جانتا ہوں،جس ملک میں سکولوں میں بم دھماکے بہت ہوتے ہیں،یہ سن کر میری ملکی غیرت نے دل دماغ پر ضربیں لگانا شروع کر دیں۔
Terrorism
مجھے اسکے اس جملے پر بہت غصہ آیا،لیکن میں نے اس کے اس تلخ مگر حقیقت سے مزین جملے کا کوئی جواب نہ دیا،بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سکے اس جملے کا میرے پاس جواب ہی نہیں تھا،میں نے چپ چاپ اس سے دوستی ختم کر دی۔
کیا وہ ملک جو اسلام کا قلعہ ہے،جو ایک عظیم نظرئیے کی بنیادپر وجود میں آیا،اسکا تعارف آج بم دھماکوں سے کیا جا رہا ہے،وہاگہ بارڈر کی لاشوں سے کیا جا رہا ہے،پشاور سکول کے سانحے سے کیا جا رہا ہے، باچاخان یونیورسٹی کے لہو اور خون سے ہو رہا ہے،ہمارا چہرہ کیونکر اتنا بھیانک اور بدنما ہو گیا،ہم کیوں اتنے کمزوراور اسقدر بے جان ہو گئے؟ہم کیوں دشمن کا اتنا آسان اور سہل ٹارگٹ بن گئے ہیں۔
ہم کیوں دنیا کے سامنے شرمندہ و شرمسار قوم بن کر رہ گئے ہیں؟ہم اتنا کیوں گر چکے ہیں؟ان سوالات کا جواب بہت آسان اور عام فہم ہے ،مگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے تو۔ یہ بات ہمیںکسی لمحہ نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ہندستان نامی ملک ہے،جو ١٤ اگست ١٩٤٧ء سے ہمارا دشمن ہے،اور وہوجودِ پاکستان کے بعد یوم اول سے اس کوشش اور عمل میں لگا ہو ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم اور ناکام ریاست بنا کر دنیا کے نقشے سے اسکا وجود ختم کر دے،یہ بات میں محض اور قیاس وظن کی بنیاد پر نہیں کر رہا بلکہ اب پاکستان کے پاس ایسے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جنکی بنیاد پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ ہندوستان کے کون کون سے ناپاک عزائم ہیں،اور وہ انکوکس کس طرح انجام دے رہا ہے۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ سٹیل اور شوگر کے کاروبار کو اور مودی سے دوستی یاری کے گلددستوں کو ایک طرف رکھ کر بھارت کو اسکی ان بزدلانہ حرکات کا اسی کی زبان میں جواب دے۔ وہ ملک جو عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں تخریب کاری کے منصوبے بنا بنا کر ان پر عمل کر رہا ہے۔
India
یہ ہماری بد نصیبی اور کم بختی نہیں تو اور کیا ہو گاکہ ہم اپنے ازلی دشمن کو پہچان نہ سکیں ،وہ دنیا سے ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہو اور ہم اس سے تجارت اور کاروبار کے ذوق و شوق میںایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں، یہ ہماری سستی اور کاہلی نہیں تو اور کیا ہے کہ بھارت نے ہماری صفوں میں اپنے حامی پیدا کر کے ہمارے دشمن بنا دئیے اوربروقت اس کی خبر نہ ہو سکی، جب ہمیں اسکی خبر ہوئی تو پانی سر سے گزر چکا تھا،اب بھارت ان سے من پسند منصوبوںپر عمل کروا رہا ہے۔
ہماری فوج انکا صفایاکرنے میں کامیاب نظر آ رہی ہے مگر پھر بھی بھارت نے اتنے گہرے پنجھے گاڑے ہیں کہ انکو نکالنے کے لئے مزیدصبر آزما اور تکلیف دہ وقت درکار ہے،اعمال کی بات کی جائے تو اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمارے اجتماعی اعمال بھی کچھ تسلی بخش نہیں ، جن قوموں میں اخلاقی برائیا ں بڑھتی ہی چلی جائیں اور وہ رکنے کا نام نہ لیں،وہ تھمنے کو نہ آئیں تو تاریخ شاید ہے ایسی قومیں دنیا میں ذلیل ہو کے رہ جاتی ہیں۔
اخلاقی طور پر مضبوط قوموں کا بھارت جیسا بزدل دشمن بال بھی بھیگا نہیں کر سکتا،بر حال سانحات کے پیچھے وجوہات جو بھی ہو ہماری حکومت کو چاہئے کہ ان سانحات کے پیچھے سر گرم عوام کا سختی سے نوٹس لے اور پاکستان کو اس ذلت سے نجات دلوائے،اور پھر سانحہ پر سانحہ اور حادثہ پہ حادثہ نہ ہو۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi