تحریر : بیگم صفیہ اسحاق 16 دسمبر 2014ء کا دن آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم شہداء کا دن ہے اور قوم کے بہادر بچوں اور اساتذہ کی لازوال قربانیوں کے باعث وطن عزیز کو آج امن نصیب ہوا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں نے محفوظ اور پرامن پاکستان کیلئے اپنے قیمتی لہو سے جو عظیم تاریخ لکھی ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے اور قوم آرمی پبلک سکول کے بچوں اور اساتذہ کی لازوال قربانیوں کو کبھی نہیں بھولے گی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پوری قوم متحد ہوئی ہے اور پوری قوم کا مثالی اتحاد اور اتفاق سامنے آیا ہے۔ معصوم بچوں کو مارنے والے سفاک درندوں پر پاک دھرتی تنگ کردی گئی ہے اور ان درندوں کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی جس میں آخری فتح پاکستان کی ہوگی۔ پاکستانی قوم دہشتگردوں سے ڈرنے والی نہیں۔ دہشتگردی کے خلاف قوم سینہ سپر ہے۔ سانحہ آرمی پبلک نے قوم کو متحد کیا۔ قوم نے جذبے کے ساتھ دہشتگردی کے کینسر کا کافی حد تک خاتمہ کر دیا ہے۔16 دسمبر کو قوم جس تکلیف سے گزری آج بھی تکلیف تازہ ہے۔اس واقعے نے پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف اکٹھا کیا سانحہ اے پی ایس نے دہشتگردی جنگ کو ایک سمت دی۔ دہشتگردی کے خلاف پاکستانی قوم بلاتفریق متحد ہیں قوم کی حفاظت کرنے والے سکیورٹی فورسز کے جوان خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ قوم دہشتگردی کے بزدلانہ واقعات سے ڈرنے والی نہیں۔ جس سکول میں یہ واقعہ ہوا اگلے ہی دن اس سکول کو دوبارہ آباد کیا۔ گزشتہ تین سال میں دہشتگردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں وزیر اعظم نواز شریف کی کاوشوں سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
انسداد دہشتگردی کے اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عزم کا مظہر ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد وزیر اعظم نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا انسداد دہشتگردی پلان کے تحت ایک فوجی پالیسی وضع کی گئی۔ حکومت اور فوج نے مل کر نیشنل ایکشن پلان انسداد دہشتگردی کے لئے بنایا اور بلاتفریق دہشتگردوں کا صفایا کیا۔ حکومت نے انسداد دہشتگردی کے لئے متعدد اقدامات انسداد دہشت گردی پلان کے تحت موبائل سمز کی تصدیق کی اور غیر قانونی شناختی کارڈز کو منسوخ کیا گیا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے شہدا کی دوسری برسی ملک بھر میں منائی گئی۔ اس موقع پر شہدا کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ پشاور میں ہونے والی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی۔ تقریب میں گورنر خیبر پی کے انجینئر اقبال ظفر جھگڑا، لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن، لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ، وزیراعلیٰ کے پی کے مشیر برائے اطلاعات مشتاق احمد غنی، آئی جی پولیس کے پی کے ناصر خان درانی اور شہداء کے لواحقین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آرمی چیف نے کہا جب تک پاکستان کو امن کا گہوارہ نہیں بنائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے’ دہشت گردوں کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
اے پی ایس کے شہداء کی قربانی نے قوم کو نیا جذبہ دیا۔ یہ حملہ ہماری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی۔ شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ آج کی تقریب کا مقصد ان شہدا کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اے پی ایس واقعہ ایک کاری ضرب تھی جو ہمارے دل اور جگر پر لگی اور اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا لیکن دشمن ہمارے جذبہ ایمانی کو اور ہماری دہشت گردی کے خلاف جدوجہد سے ہمیں ہٹانے میں بالکل کامیاب نہیں ہوئے۔ بطور آرمی چیف اور بطور لوگوں کے ایک نمائندہ کے میرا عزم ہے اور پاکستانی فوج کا بھی عزم ہے کہ جب تک ہم ہر بچے کے خون کا حساب نہیں لے لیتے جب تک پاکستان سے دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کر دیتے پاکستان کو دوبارہ سے امن کا گہوارہ نہیں بنا دیتے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہم پر ہر بچے کا خون قرض ہے۔ تمام 22 ہزار لوگ جو شہید ہوئے ان کا خون قرض ہے۔ ان کا کہنا تھا جیسے رسول پاکۖ نے امت اسلامیہ کا خواب دیکھا اور جیسے قائد اعظم محمد علی جناح نے خواب دیکھا تھا اسی کی روح کے مطابق ہم نے پاکستان کو ایک پر امن اور اسلامی مملکت بنانا ہے۔
APS Martyrs
میرے دفتر میں بھی ان بچوں کی تصاویر موجود ہیں اور جنرل (ر) راحیل شریف نے بھی اپنے دفتر میں ان بچوں کی تصاویر رکھی ہوئی تھیں میں بھی ان کو گاہے بگاہے دیکھتا رہتا ہوں تاکہ میرا جذبہ اور میری قوت نہ ڈگمگائے۔ میں بھی ایک والد، بھائی اور شوہر ہوں اور میرے بھی بچے ہیں میں ان والدین کا درد سمجھ سکتا ہوں اور وہ درد یقینی طور پر قابل برداشت نہیں۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ ان کے درد کا کچھ مداوا کر سکیں جو زخم ہے وہ بہت گہرا ہے۔ عوام کے تحفظ کیلئے عوام کا تعاون درکار ہے۔ ہماری پوری کوشش ہو گی کہ اس جنگ کا جلد سے جلد خاتمہ کیا جائے تاکہ پاکستان پھر سے پر امن اور خوبصورت ملک بن سکے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 16 دسمبر کا دن اس تکلیف دہ سانحہ کی یاد دلاتا ہے۔ درندہ صفت سنگدل دشمنوں نے سکول کے بچوں کو بربریت کا نشانہ بنایا۔ ہم آج کے دن کے دکھ کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ پوری قوم دکھ کے اس لمحے میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستانی قوم اور قیادت نے اے پی ایس واقعہ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ ننھے فرشتوں کو شہید کرنے والوں سے رحم نہیں کیا جائے گا۔ دنیا نے دیکھا کہ ہم نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ قوم یقین رکھے کہ ہم اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا کر چھوڑیں گے۔ سینٹ اور قومی اسمبلی میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہداء کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی گئی۔
پاک فضائیہ کے سربراہ سہیل امان نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ اور قوم سانحہ پشاورکے شہداء کی قربانی کوکبھی فراموش نہیں کریگی، وطن عزیز سے دہشتگردی کی لعنت کو جڑسے ختم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے انہوں نے شہداء اے پی ایس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا پاک فضائیہ اور قوم سانحہ پشاور کے شہدا کی قربانی کوکبھی فراموش نہیں کریگی۔ خیبر پی کے اسمبلی میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کے لئے قرآن خوانی کی گئی اور شمعیں روشن کی گئیں۔ سپیکر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی صوبے کے تمام لوگوں کی نمائندہ ہے اس لئے یہاں یہ مختصر تقریب رکھی گئی ہے۔ پشاور پریس کلب کے سامنے سول سوسائٹی، طلبا اور سیاسی کارکنوں نے دھرنا دیا جس میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو یاد کیا گیا۔ چارسدہ، مردان، لکی مروت اور دیگر اضلاع میں بھی آرمی پبلک سکول کے بچوں کے لئے قرآن خوانی کی گئی اور انہیں یاد کیا گیا۔سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان سے دہشتگردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ میں سال 2014 کے دوران دہشت گردی کے 1003 واقعات ہوئے تھے تاہم آپریشن ضرب عضب اورنیشنل ایکشن پلان کے باعث اگلے دو سال کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں 68فیصد کمی آئی۔ صوبہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 25ہزار سے زیادہ آپریشنز کئے۔ اس دوران 1 لاکھ سے زیادہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور 1471کلوگرام دھماکا خیز مواد برآمد کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے بعض نکات پرعمل درآمد نہیں ہوا، جن پرعمل درآمد دہشتگردی کی بیخ کنی کے لیے ناگزیر ہے۔ صوبہ میں شدت پسند تنظیموں کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنے کیلئے صوبائی حساس ادارے کو مرکزی کردار سونپا گیا ہے۔